دہشت گردی اور سدباب کے لیے اہم اقدامات

کہاتو یہی جاتا ہے کہ مومن کسی سوراخ سے ایک ہی مرتبہ ڈسا جاتا ہے ۔لیکن وطن عزیز میں ہمارے سیکورٹی ادارے اور اہلکار ایک بار نہیں بار بار ڈسنے کے باوجود اپنے تحفظ اور وطن عزیز کے دفاع کے لیے کوئی واضح اور کامیاب حکمت عملی اپنانے میں کیوں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ دہشت گرد ایک شہر سے دوسر ے شہر ، ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک باآسانی سے نقل و حرکت کرنے میں کا میاب کیوں ہو جاتے ہیں ۔ جب سے امریکہ نے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا آغاز کیا تھا اور پاکستان سے بندوق کے زور سے لاجسٹک تعاو ن بھی حاصل کیا ۔ اسی وقت سے پاکستان کے سیکورٹی ادارے اور عوام دہشت گردی کا شکار چلے آرہے ہیں ۔ ابھی کل کی بات دکھائی دیتی ہے کہ دہشت گرد فوجی وردیوں میں ملبوس باقاعدہ پریڈ کرتے ہوئے جی ایچ کیو میں آسانی سے داخل ہو گئے اور وہاں پر موجود تمام چھوٹے بڑے عملے کو یہ کہہ کر ایک ہال میں جمع کرلیا کہ کسی بھی وقت جی ایچ کیو پر حملہ ہو سکتا ہے ۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی جی ایچ کیو میں موجود تھے ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ دہشت گردوں نے کس طرح بری فوج کے مرکز پر کامیابی سے نہ صرف حملہ کیا بلکہ دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب رہے کہ ہم جی ایچ کیو پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ کس قدر مشکل اور ذہانت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کے سروں کو اڑایا اور ان کے حصار میں قید افسروں اور جوانوں کو آزاد کروایا ۔ کون نہیں جانتا کہ پاک بحریہ کے فضائی اڈے پر، جس کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا ، اچانک حملہ کرکے وہاں کھڑے ہوئے اورین اواکس طیارے جس کی مالیت اربوں ڈالر بتائی جاتی تھی ، کو آسانی سے تباہ کر کے اپنی کامیاب حکمت عملی کا اظہار کردیا ۔ انہی دہشت گردوں نے 16دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر یلغار کی اور 100سو سے زیادہ بچوں شہید جبکہ 200 کے لگ بھگ بچوں کو زخمی کردیا ۔گزشتہ برس پشاور کے قصہ خوانی بازار میں جمعہ کے روز جامع امامیہ مسجد میں سیاہ کپڑوں میں ملبوس خود کش حملہ آوروں نے خود اڑایا اور ساری امام بارگاہ کے درو دیوار شہیدوں کے خون سے رنگین کردیئے ۔اس سانحے میں 65 افراد شہید اور 200سے زائد زخمی ہوئے ۔ ہم یہ سانحہ بھی بھول گئے اور ایک بار اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف ہوگئے ۔ہماری غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چند ہفتے پہلے پشاور پولیس لائن میں ایک دہشت گرد پولیس کی وردی میں بائیک پر سوار آسانی سے داخل ہوا اور پولیس لائن کی مسجد میں جب نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی، خود کش دھماکہ کرکے پوری مسجد کو نمازیوں کے خون سے نہلا دیا ۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ کراچی پولیس ہیڈکوارٹر میں دہشت گرد پولیس کی وردی پہن کر جدید اسلحہ سمیت نہ صرف آسانی سے داخل ہوئے بلکہ انہوں نے جس جس مقام سے حملہ آور ہونا تھا، وہاں پہنچ کر یلغار کردی ۔ یہ الگ بات ہے کہ رینجر اور پولیس کے جوانوں کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں پولیس ہیڈکوارٹرکو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد جن کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی دین ۔ اتنی آسانی سے کیوں اور کیسے اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ 2014ء میں جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ، چاروں صوبوں میں اپیکس کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں آیا تھا اِن کمیٹیوں کو پھر سے بحال کر تو دیا گیا لیکن دہشت گردی کے حالیہ حملوں سے نیشنل ایکشن پلان کی کارکردگی پر سوالات اْٹھ رہے ہیں ، ایسا لگ رہا ہے کہ سیکورٹی اداروں کے باہمی رابطوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں کہیں نہ کہیں خامی موجود ہے۔اگر واقعی ایسا ہے تو آئندہ کسی بڑے سانحے سے بچنے کے لیے ہمیں ان خامیوں کو دور کرنا ہوگا ۔ یہ بات کسی شک و شبہ سے خالی نہیں رہی کہ ان حالات میں ہر دوسرا شخص مشکوک ہو چکا ہے پھر پولیس کی وردی پہن کر دہشت گرد کس طرح بغیر کسی چیکنگ کے پولیس ہیڈ کوارٹر اور پولیس لائن کی مسجد میں پہنچ سکتے ہیں ۔ حقیقیت تو یہ ہے کہ اگر کسی خاندان کا کوئی ایک فرد بھی پولیس میں بھرتی ہوجاتا ہے تو پھر خاندان کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹیں پولیس کلر میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ایسی موٹرسائیکلوں کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں رجسٹرڈکروانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اور نہ ہی ایسی موٹرسائیکلوں کو چیک کیا جاتا ہے ۔اس طرح دہشت گرد بھی پولیس کلرکی نمبر پلیٹ لگا کر ایک شہر سے دوسرے شہر آسانی سے منتقل ہوجاتے ہیں ۔ہماری پولیس کے اہلکار جہاں جہاں بھی تعینات ہوتے ہیں، بندوق ان کی کہیں ہوتی ہے اوروہ خود موبائل میں چیٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان حالات میں اخبارات میں یہ پڑھ کے ہنسی نکلتی ہے کہ سیکورٹی کو ہائی الرٹ کردیا گیا ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے دوران ڈیوٹی موبائل رکھنے کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے ۔ پولیس سمیت تمام سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو دوران ڈیوٹی موبائل رکھنے پر پابندی لگانا بے حد ضروری ہے۔مزید برآں پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں میں داخل ہونے والوں کی تلاشی اور شناخت کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاتا ۔جدید ترین اسلحے کی فراہمی ، رات کے اندھیرے میں دیکھنے والی گوگل،اہم مقامات پر نصب سیکورٹی کیمروں کو صحیح حالت میں کیوں نہیں رکھا جاتا۔اگر دہشت گرد بہترین حکمت عملی اور جدید اسلحے کی بناپر ہر جگہ کامیاب ہورہے ہیں تو سیکورٹی اداروں کی کارکردگی کو بہتربنانے سے لیت ولعل سے کام کیوں لیا جارہا ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 782 Articles with 673953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.