حکمران یا آستین کے سانپ۔؟

کہتے ہیں محمد بن عروۃ جب یمن کے گورنر بن کر شہر میں داخل ہوئے تو لوگ استقبال کے لئے امڈ آئے۔لوگوں کا خیال تھا کہ نیا گورنر لمبی چوڑی تقریر کریں گے،محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ،،لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت ہے اس سے زیادہ لیکر میں واپس پلٹا تو مجھے چور سمجھا جائے،،یہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اﷲ کا سنہرا دور تھا۔ محمد بن عروہ نے یمن کو خوشحالی کا مرکز بنایا جس دن وہ اپنی گورنری کے ماہ و سال پورا کرکے واپس پلٹ رہے تھے لوگ ان کے فراق پر آنسو بہا رہے تھے لوگوں کا جم غفیر موجود تھا امید تھی کہ لمبی تقریر کریں گے۔ محمد بن عروہ نے صرف ایک جملہ کہا اور اپنی تقریر ختم کر دی وہ جملہ''لوگوں یہ میری سواری میری ملکیت تھی میں واپس جا رہا ہوں میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے''حکمران ایسے ہوتے ہیں ہمارے والوں کی طرح نہیں کہ آئے خالی ہاتھ اورجب واپس جانے لگے توپھرگورنر،وزیراعلیٰ،وزیراعظم ہاؤس اورایوان صدرمیں لگے گلدستے اوربچھے قالین بھی ساتھ لیکرجائے۔ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں آنے والے سارے خالی ہاتھ آتے ہیں لیکن جب واپس جاتے ہیں توپھرجوکچھ ملتاہے یہ سب اٹھاکرساتھ لے جاتے ہیں۔یہ ملک یوں تباہ نہیں ہوا۔اس کواس مقام تک پہنچانے کے لئے بڑے بڑوں نے ہاتھ صاف کئے۔آپ اس ملک کی تاریخ اٹھاکردیکھیں یہاں جوایک شاپرہاتھ میں اٹھاکرآیاوہ بھی پھر واپس جاتے ہوئے بوریوں پربوریاں بھرکر ساتھ لیکرگیا۔آپ کوئی ایساگورنر،کوئی ایساوزیراعظم اورکوئی ایساصدربتائیں جوخالی ہاتھ آکرخالی ہاتھ واپس گیاہو۔یہاں توناظم،ایم پی اے،ایم این اے،دورکے مشیراورمعمولی گریڈکے افسربھی خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے۔اس ملک کوحکمرانوں،سیاستدانوں اوربیوروکریٹس نے جتنالوٹاہے اتناکسی اورنے نہیں لوٹاہوگا۔باہرکی دنیامیں لوگ خدمت کے لئے سیاست اورحکومت میں آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں لوگ کمانے اورتجوریاں بھرنے کے لئے سیاست کاانتخاب کرتے ہیں۔قربان جاؤں قائدتحریک صوبہ ہزارباباسردارحیدرزمان مرحوم پر۔اﷲ ان کی قبرپرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔کیاخوب بات کہی تھی انہوں نے۔۔آخری بارجب ان سے میری ملاقات ہوئی توباتوں باتوں میں جب سیاست کے اوراق کھلے توباباکہنے لگے جوزوی سیاست سیاست اس ملک میں کچھ نہیں۔ اب توسیاست کاروباراورسیاستدان دکانداربن چکے ہیں۔آج بھی اگرآپ دیکھیں تووہی باباوالی بات ہے۔ہربندہ سیاست کوکاروبارکے طورپرکررہاہے۔ملک اورقوم کی کسی کوکوئی فکرنہیں۔انتخابات میں جولوگ ایک کروڑلگاتے ہیں وہ پھرایک کی جگہ دس کروڑکماتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کمانے والے پیسے پھرانہی کے خون پسینے سے نکلتے ہیں جن سے یہ ظالم اوربے حس ووٹ بٹورتے ہیں۔ہمارے جیسے سادہ لوح لوگ جن کواپنامسیحااورنمائندہ سمجھ کرووٹ دیتے ہیں وہی پھراژدھااورسانپ بن کرانہی لوگوں کوکاٹنااورڈسناشروع کردیتے ہیں۔لوگ سعودی عرب،ابوظہبی،ملائیشیا،کویت،جاپان اورکینڈاجیسے سات سمندرپارکے ممالک میں محنت مزدوری کرکے سالوں کی پردیس کاٹنے کے بعدبھی اپنے لئے ایک مکان نہیں بناسکتے اوریہ سیاستدان،حکمران اوربیوروکریٹس یہاں بیٹھے بیٹھے نہ صرف دنوں اورہفتوں میں مکانوں پرمکان بنالیتے ہیں بلکہ ساتھ اپنی اگلی نسلوں کے لئے خوبصورت شہروں میں ایڈوانس پلاٹ بھی لے لیتے ہیں۔آپ نے کبھی اس بات پرغورکیاکہ آپ کے خان،نواب،چوہدری،وڈیرے اوررئیس کے پاس اتنے مکان،اتنے پلاٹ اورکروڑوں واربوں کایہ مال کہاں سے آیا۔؟ماناکہ اشرافیہ میں چندفیصدخاندانی خان،نواب،چوہدری،وڈیرے اوررئیس ہوں گے لیکن اکثریت کواگرآپ دیکھیں تووہ یہی ظالم نکلیں گے جوستر75سالوں سے اس ملک وقوم کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔پہلے شرافت،امانت،دیانت اورسیاست کے نام پران کے باپ دادالوگوں کاخون نچوڑتے تھے اب یہ نچوڑرہے ہیں۔اب خوداندازہ لگائیں جس ملک میں ایسے حکمران،ایسے سیاستدان،ایسے بیوروکریٹس اورایسے افسران ہوں گے وہ ملک پھرخاک ترقی کرے گا۔؟ملک اورقوموں کی ترقی کے لئے ایمانداراورامانت دارحکمران ضروری ہیں۔جہاں حکمران ہی چور،ڈاکو،لوٹے اورلٹیرے ہوں وہاں پھرترقی کیسے ہوگی اورخوشحالی کیسے آئے گی۔؟یہ ملک اسی وجہ سے ترقی سے دوررہاکہ یہاں دل میں خداکاخوف رکھنے والے حکمران کبھی نہیں آئے۔اس ملک میں کوئی ایک حکمران بھی اگرعمربن عبدالعزیزیا محمد بن عروۃ جیسے آتاتوہماری اوراس ملک کی یہ حالت نہ ہوتی۔آج بھی ہم جس نازک اورمشکل حالات سے گزررہے ہیں اس کی وجہ بھی حکمرانوں کانیک اورسیاستدانوں کاایک ہونانہیں۔سچ تویہ ہے کہ یہ ملک اوریہاں کے عوام یہ ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کے کھاتے میں کبھی شمارہی نہیں ہوئے ۔یہاں ہرسیاستدان اورحکمران ملک وقوم سے پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے،پہلے ہرایک اپنے کام اورالو کوسیدھاکرتاہے،اپنی ذات ومفادسے اگرکوئی فارغ ہوتوتب پھراس کی نظرکہیں ملک اورقوم پرجاکرلگتی یاپڑتی ہے۔ملک کے موجودہ حالات کیایہ ان حکمرانوں اورسیاستدانوں کونظرنہیں آرہے ۔؟ملک اگردیوالیہ نہیں ہواتودیوالیہ پن کے قریب قریب توضرورپہنچااوراس حقیقت سے سیاستدان کیا۔۔؟ملک کابچہ بچہ واقف ہے لیکن اس کے باوجودہمارے سیاستدان ہیں کہ انہیں اس نازک صورتحال میں بھی سیاسی لڑائیوں، جھگڑوں اورذاتی مفادات کے کھیل سے فرصت نہیں۔ملک معاشی طورپرتباہ ہوچکا،مہنگائی نے عوام کاچین اورسکون غارت کردیاہے،لوگ بھوک،افلاس اورفاقوں سے مررہے ہیں۔عوام میں اکثریت کے پاس اب کھانے تک کے لئے کچھ نہیں لیکن ادھرسیاستدانوں اورلیڈروں کواس حال میں بھی الیکشن کی پڑی ہوئی ہے۔لوگ تباہ ہویابرباد،عوام بھوک وافلاس سے مرے یافاقوں کے سائے تلے تڑپ تڑپ کرجیئے سیاستدانوں اورلیڈروں کااس سے کیالینادینا۔؟ہرلیڈراورسیاستدان کواپنی باری،کرسی اوراقتدارکی فکرہے کہ کسی نہ کسی طرح اقتدارکی مالاان کے ہاتھ لگے تاکہ ملک وقوم کی خدمت کے نام پر یہ اپنی تجوریاں مزیدبھرسکیں۔جب تک ایسے مفادپرست سیاستدانوں اورحکمرانوں سے ہماری جان نہیں چھوٹتی اس وقت تک اس ملک کاکچھ نہیں بنے گا۔یہاں لوگ اسی طرح مہنگائی ،بھوک وافلاس سے بلک کر روتے،چیختے اورچلاتے رہیں گے۔
 
Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 133095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.