مہاراشٹر میں ای ڈی کے چور دروازے سے
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی سرکار برسرِ اقتدارہے۔ عوامی محاذ پر
وہ کئی بار ہزیمت اٹھا چکی ہے مثلاً شیوجینتی ریلی کی ناکامی، ممبئی ضمنی
انتخاب میں شکست اور قانون ساز کونسل کے الیکشن میں بھی کراری ہار۔ اپنی
شکست و ریخت کی پردہ پوشی کے لیے پہلے تو الیکشن کمیشن کی مدد سے شیوسینا
کا نام اور نشان چھین لیا گیا ۔ اس کےبعد اورنگ آباد اور عثمان آباد
شہروں کے نام بدل دئیے گئے۔ شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے نے نام کی تبدیلی
کا شوشہ چھوڑا تھا اور 1988سے شیوسینکوں نے اس شہر کو سمبھاجی نگر پکارنا
شروع کردیا تھا لیکن کون جانتا تھا کہ جس وقت یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا
ان کی قائم کردہ پارٹی کا نام و نشان چھن چکا ہوگا۔ ادھو ٹھاکرے نے پچھلے
سال جاتے جاتے نام کی تبدیلی کا فیصلہ تو کردیا مگر اپنی آبائی سینا کو
ایک غدار کے قبضہ میں جانے سے نہیں روک سکے ۔ یہی نہیں بلکہ اس طویل مدت
میں سینا نے جو 191.82 کروڈ کی جائیداد جمع کررکھی ہے وہ بھی دشمنوں کے
ہاتھوں میں چلی گئی اور وہ اسے بے یارو مددگار دیکھتے رہ گئے ۔ اب سپریم
کورٹ نے ان پر شندے کی وہپ کی پابندی کو لازم کرکے ایسا ہنٹر مارا ہے کہ جس
کی ٹیس بہت دنوں تک محسوس ہوگی۔
اورنگ آباد میں شیوسینا کے بانی رکن چندر کانت کھیرے نے 1985 سے پارٹی کا
کام شروع کیا ۔ تین سال بعد وہ کارپوریٹر اور بلدیہ میں حزب اختلاف کے لیڈر
بن گئے۔ اس کے پانچ سال بعد رکن اسمبلی منتخب ہوگئے اور اپنے دس سالہ رکنیت
کے دوران صوبائی وزیر بھی بنے۔ اس کے بعد بیس سالوں تک وہ رکن پارلیمان رہے
اور ایوان پارلیمان میں شیوسینا کی قیادت بھی کی مگر شہر کا نام تبدیل نہیں
کرسکے ۔ جون 1995 میں اورنگ آباد کی بلدیہ نے نام تبدیلی کی قرار داد
منظور کروادی مگر کانگریس کارپوریٹر مشتاق احمد نے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج
کردیا۔ ہائی کورٹ نے اس عرضی کو خارج کیا تو وہ عدالت عظمیٰ پہنچ گئے۔ وہاں
اس پر روک لگ گئی تومعاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ
بیس سال بعد کھیرے کو ہرا کر امتیاز جلیل نے ایوانِ پارلیمان میں اورنگ
آباد کی نمائندگی کا شرف حاصل کیا اور اس دوران یہ افسوسناک سانحہ ہوگیا۔
وہ اگر کامیاب نہ ہوے ہوتےتو لوگ سوچتے کہ یہ ان کو ناکام کرنے کی سزا ہے
یا ان کے بعد ہوتا تو کہا جاتا وہ ایسا کبھی نہ ہونے دیتے مگر مشیت کے آگے
کسی نہیں چلتی۔
نام کی اس تبدیلی نے امت کو تونمناک کیا مگر جو لوگ اس پر خوشیاں منارہے
ہیں ان کو کیا ملا اس کا اندازہ لگانے کے اورنگ آباد سے تین گھنٹے کے
فاصلے پر لاسل گاوں پر نظر ڈال لینا کافی ہے۔ مہاراشٹرہندوستان کی سب سے
زیادہ پیاز اگانے والی ریاست ہے جہاں ہرسال تقریباًساڑھے4 ہزار میٹرک ٹن
پیاز اگایا جاتا ہے۔لاسل گاوں ایشیاء کی سب سے بڑی پیاز منڈی ہے۔اورنگ
آباد کے نام کی تبدیلی کا فیصلہ وہاں پرفی کلو پیاز کی قیمت کا2؍ سے4؍
روپے تک گرنا ایک ساتھ ہوا۔ اس سےپیاز کے کاشتکار خون کے آنسو رو رونے
لگے۔ پیاز کی قیمت میں مسلسل گراوٹ نے ناراض کسانوں کو نیلامی روکنے پر
مجبور کر دیا۔ کسانوں کےنمائندوں نے حکومت سے فوری طور پر1500؍ روپے فی
کوینٹل پیاز کی گرانٹ کا اعلان کرکے اس کی پیداوارکو 15؍ سے20؍روپے فی کلو
کے حساب سے خریدنے کا مطالبہ ، ورنہ لاسل گاؤں اے پی ایم سی میں نیلامی
بند رکھنے کی دھمکی دی ۔
مرکزی حکومت کے ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد جب نیلامی کیلئے بازار کھلا تو
پیاز کی قیمت200؍ روپے سے 800؍ روپے فی کوینٹل کے درمیان تھی۔ اس کے نتیجے
میں، مہاراشٹر میں پیاز کاشتکاروں کی تنظیم کے تحت ناراض کسانوں نے احتجاج
شروع کر دیا کیونکہ یہ گراوٹ دوگنا سے تین گناتھی۔ اڈانی جیسے بنکوں کے قرض
اور عوام کے پیسے سے کاروبار کرنے والوں کو اس طرح کی گراوٹ سے کوئی فرق
نہیں پڑتا لیکن ایک عام کسان اسے برداشت نہیں کرسکتا اوروہ خودکشی کے لیے
مجبور ہوجاتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کسانوں کو ان کو لاگت سے ڈھائی گنا
قیمت کا سبز باغ دکھایا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ کم قیمت پراپنی پیداوار
فروخت کرنے پر مجبور کردیئے جاتے ہیں ۔ ان کا غم غلط کرنے کی خاطرشہروں کے
نام کی تبدیلی کا چورن تھما دیاجاتا ہے۔ افسوس کہ ملک کا مزدور ، کسان بلکہ
چھوٹا تاجر بھی اس طرح کے لالی پاپ سے بار بار دھوکہ کھاجاتاہے۔ دوسال قبل
ناسک میں ایک کسان کو ایک روپئے فی کلو پیاز بیچنی پڑی تو اس نے بطور
احتجاج اپنی کمائی 1064 روپئے وزیر اعظم راحت فنڈ میں بھیج دیئے لیکن سرکار
کو عار نہیں آئی۔
عثمان آباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر شولاپور میں کسانوں پر یہ آفت دو دن
پہلے آئی۔ وہاں ایک کسان کو 512؍ کلوپیاز بیچنے پر محض ڈھائی روپے بچت
ہوئی۔ شولاپور کی بارشی تحصیل سے تعلق رکھنے والے راجندر چوان نے میڈیا کو
بتایا کہ ان کی پیداوار کا نرخ صرف ایک روپے فی کلو رہا اور ساری کٹوتیوں
کے بعد انہیں ڈھائی روپے کامنافع ملا ۔ انہوں نے شولاپور میں ایک پیاز کے
تاجر کو5؍ کوینٹل سے زیادہ پیاز کے10؍ تھیلےفروخت کیے۔ مال برداری ، نقل
وحمل ، مزدوری اور دیگر اخراجات کے بعد اس کےپاس 49.2؍ روپے بچے اور دیگر
تخفیفات کے بعد وہ رقم ڈھائی روپے ہوگئی۔چوان اسے اپنی اورریاست کے دیگر
کاشتکاروں کی توہین سمجھتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ اتنی قیمت پر وہ کیسے
زندہ رہیں گے؟ لیکن کیا اس توہین کو یادرکھ کر انتخاب کے وقت اہانت کرنے
والوں کو سبق سکھایا جائے گا؟ شاید نہیں ۔ مہاراشٹر کے نصف کسان سویابین کی
کاشت کرتے ہیں، جو مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 40 فیصد ہے۔ اس کی اوسط
لاگت تقریباً 5783 روپے فی کوئنٹل ہے۔ لیکن قیمتِ فروخت 5000 روپے فی
کوئنٹل ہے۔ کپاس کے پیداوارکی لاگت تقریباً 8180 روپے فی کوئنٹل ہےجبکہ
بازار بھاو تقریباً 8000 روپے فی کوئنٹل ہے۔
کسانوں کی درگت کے تعلق سےسرکاری بے حسی کے خلاف مہاوکاس اگھاڑی نے پیاز،
کپاس اور سویابین کی کاشت کرنے والے کسانوں کی حمایت میں اسمبلی کے باہر
احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایوان میں حزب مخالف کے رہنما اجیت پوار نے کہا کہ
کسان سنگین بحران میں مبتلا ہیں اور ان کے مسائل پر بحث کی خاطر باقی سب
کچھ چھوڑ دینا چاہیے۔ان کے مطابق پیاز کے علاوہ کپاس، سویابین، چنا، انگور
کی کاشت کرنے والوں کو بھی زبردست نقصان ہو رہا ہے اس پیاز کی برآمد پھر
سے شروع کی جائے اور سرکار پیاز خریدے۔کسان احتجاج کرتے ہیں تو بلڈھانہ میں
ان کی پٹائی کے بعد کسان رہنما روی کانت تپکر کو خود سوزی کی دھمکی دینی
پڑتی ہے۔ سرکار بے فکر ہے کیونکہ اس کے پاس کسانوں کو بہلانے پھسلانے کے
لیے نام کی تبدیلی جیسے بے شمار حربے ہیں ۔ پوری ریاست میں ہندو جن آکروش
ریلی کے نام پر نفرت انگیزی کا کام جاری و ساری ہے۔ بی جے پی کے بڑے بڑے
رہنما اس میں بے دھڑک شرکت کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کی ممانعت اور وارننگ کے
باوجود 26 فروری کو واشی اور نوی ممبئی میں ہندو جن آکروش مورچہ کی ریلی
نکالی گئی ۔ اس ریلی میں ہیٹ اسپیچ کے ساتھ مسلم کمیونٹی کے معاشی بائیکاٹ
کی کال دی گئی۔ وہاں موجود لوگ بھول گئے کہ فی الحال تو کم قیمت کے سبب
سارے کسانوں کا کھلے عام معاشی بائیکاٹ ہورہا ہے۔
جب آکروش ریلی کا مقصد کسانوں کو مناسب قیمت دلانا نہیں بلکہ ریاستی حکومت
پر لو جہاد،گائے کے ذبیحہ اور لینڈ جہاد سے نمٹنے کے لیے قانون پاس کروانا
تھا۔ سکل ہندو سماج کے زیر اہتمام ریلی میں احتجاج کرنے والے 4 سال کی عمر
سے لے کر بوڑھے بزرگ مظاہرین بھگوا جھنڈے لہراتے ہوئے مسلم مخالف نعرے لگا
رہے تھے۔مقامی رکن اسمبلی گنیش نائک دیگر بی جے پی کارکنوں کے ساتھ وشو
ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی قیادت فرما رہے تھے۔ اس موقع پر کاجل شنگلا، نے
گجرات سے آکر کہا کہ "نوی ممبئی میں لینڈ جہاد اتنا عام ہو چکا ہے کہ آج
25 بنگلہ دیشی مسلمان ایک کمرے میں رہتے ہیں۔‘‘ اس نے دعویٰ کیا کہ
مسلمانوں نے ہماری پیداوار اور پھلوں کی منڈیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ
چاہتی ہیں مہاراشٹر کے لوگ، ان کا معاشی بائیکاٹ کریں ۔ اس کا مطلب تو یہ
ہوا کہ تھوک بازار میں جو پیداوار کی قیمتیں گھٹ رہی ہیں اس کے لیے مسلمان
ذمہ دار ہیں ۔ یہ بات اگر حقیقت ہے تو ان کی اپنی مرکزی اور ریاستی سرکار
کیا کررہی ہے؟ وہ ان مسلمانوں کو قابو میں نہیں کرسکتی تو استعفیٰ دے کر
کنارے کیوں نہیں ہوجاتی ؟
سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں ممبئی کے اندر جن آکروش ریلی کو مشروط اجازت دی
تھی اورکہاتھا کہ اس میں نفرت انگیزی نہ کی جائے لیکن نوی ممبئی میں اس کی
کھلی خلاف ورزی ہوئی ۔ نوی ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اس واقعہ کی
ویڈیو ٹیپ کر لی ہے اور وہ تقاریر کے مواد کی جانچ کر رہی ہے۔ نوی ممبئی کے
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (زون 1) وویک پنسارے اعتراف کرتے ہیں کہ "ریلی کی
چیزیں ہمیں لگتا ہے کہ نفرت انگیز تقریر کے دائرے میں آسکتی ہیں۔‘‘ یہ ان
کا خیال ہےمگر سیاسی آقاوں کی وہ ضرورت ہے اوراس لیے وہ اس کے خلاف کوئی
رپورٹ کیسے دے سکتے ہیں؟ عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کا یہ سب
سےمجرب نسخہ ہے۔ اسی لیے نائب وزیر اعلیٰ فڈنویس نے نام کی تبدیلی پر نہ
صرف ایکناتھ شندے کی تعریف و توصیف کی بلکہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا
شکریہ ادا کیا حالانکہ انہیں اس چاپلوسی کے لیے نہیں بلکہ عوام کو فلاح
بہبود کے لیے عہدہ سونپا گیا ہے لیکن اقتدار میں رہنے کے لیے یہ جمہوری
تماشے لازم ہوگئے ہیں۔ |