ان دنوں دنیا کے کئی میڈیا اداروں اور مبصرین نے چین کی جدت کاری اور دنیا
کے لئے نئے مواقع کے موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔یہاں یہ سوال بھی کیا جاتا
ہے کہ آیا چین جدت کاری کے اپنے کارنامے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو
سکتا ہے؟ اس کا جواب ہمیں حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والے "دو سیشنز" سے
مل سکتا ہے ۔ان دو اجلاسوں کے دوران چین کے صدر شی جن پھنگ نے ایک بار پھر
اعلیٰ معیار کی ترقی کے تصور پر زور دیا ہے۔اس سے قبل گزشتہ سال کمیونسٹ
پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 20 ویں قومی کانگریس کے دوران بھی انہوں نے
چین کو ہر لحاظ سے ایک جدید سوشلسٹ ملک میں ڈھالنے کے لیے اسے "اولین اور
اہم ترین" کام قرار دیا تھا۔یوں ،شی جن پھنگ نے اعلیٰ معیار کی ترقی کے
اصولوں اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے جدت کاری کے لیے ملک کے روڈ میپ کو
مزید واضح کر دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی ترقی کی تاریخ میں ایک بے مثال تجربے کے طور
پر، آج چین کی جدت کاری کی کوششیں کئی دہائیوں پر مبنی جدوجہد کا نتیجہ ہے.
اس عظیم مقصد کو حقیقت میں بدلنے کے لیے طویل المیعاد سوچ کے ساتھ ایک ٹھوس
ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ چین آج دنیا
کی دوسری بڑی معیشت ہے لہذا اُس کے لیے ترقی کا "تیز رفتار ی" سے پیچھا
کرنا اتنا سودمند نہیں ہے کیونکہ معاشی اشاریے پہلے ہی ترقی کی عکاسی کر
رہے ہیں ، لیکن ترقی کی مقدار اور معیار کے درمیان ربط کی بہتر "ہینڈلنگ"
لازم ہے جو جدت کاری مہم کے لئے مسلسل رفتار پیدا کرے گی۔
یہی وجہ ہے کہ چین کی جانب سے رواں سال کے لئے تقریباً 5 فیصد سالانہ ترقی
کے ہدف نے ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ بہت زیادہ اونچی ترقی حاصل کرنے کے
لئے ایسےمحرک یا غیر موثر سرمایہ کاری کا سہارا نہیں لے گا جو اس کے مستقبل
کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اس کے بجائے معیشت کو مزید ترقی یافتہ، متوازن اور
ماحول دوست بنانے کی کوششیں کی جائیں گی۔اس دوران اعلیٰ معیار کی ترقی کے
لیے نمایاں ترجیحات کا تعین بھی کیا گیا ہے مثلاً سائنس اور ٹیکنالوجی میں
زیادہ سے زیادہ خود انحصاری حاصل کی جائے گی، ترقی کا ایک نیا نمونہ تخلیق
کیا جائے گا اور زرعی جدیدکاری کو بھی فروغ دیا جائے گا۔یہ سمتیں یا
ترجیحات چینی جدت کاری کے مستقبل کے لئے اہم ہیں کیونکہ ترقی کے حوالے سے
شدید عالمی مسابقت نے ترقی کے نئے محرکات کو فروغ دینے کی فوری ضرورت پیدا
کردی ہے ، جسے صرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کے ذریعے ہی حاصل کیا
جاسکتا ہے۔دوسری جانب اہم شعبوں میں خود انحصاری بھی لازمی عنصر ہے ، چاہے
وہ جدید ٹیکنالوجی ہو یا اناج کی پیداوار،یہ سب 1.4 بلین سے زیادہ چینی
لوگوں کو جدیدیت کی جانب لانے کی کلید ہے۔
مبصرین اس حوالے سے بھی پُرامید ہیں کہ چین کے اعلیٰ معیار کے کھلے پن سے
نہ صرف چینی عوام بلکہ دیگر ممالک کے لئے بھی ترقی کے مزید مواقع پیدا ہوں
گے۔سرمایہ دارانہ معیشتوں کے برعکس، چین کی جدت کاری مہم کا ناگزیر مقصد
بہتر زندگی کے لئے لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنا ہے۔ اس میں نہ صرف آمدنی
میں اضافہ اور وافر ملازمتیں شامل ہیں، بلکہ دولت کے فرق کو کم کرنا، ایک
خوشحال ثقافتی زندگی، صاف ماحول اور شفاف پانی بھی شامل ہے. یہ سب صرف
اعلیٰ معیار کی معیشت کے ذریعے ہی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
یہاں ، یہ امر بھی قابل تحسین ہے کہ اعلیٰ معیار کی ترقی چین کے لیے محض
کھوکھلا سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے پہلے ہی عملی اقدامات کا ایک
سلسلہ چین کی سنجیدگی کو نمایاں طور پر ظاہر کرتا ہے۔اس کے ثمرات یوں برآمد
ہوئے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چین کی اقتصادی ترقی میں سائنسی اور
تکنیکی ترقی کا حصہ 60 فیصد سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ جی ڈی پی کے فی یونٹ
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 14.1 فیصد کمی آئی ہے۔2022 میں چین کی فی
کس ڈسپوزایبل آمدنی میں سال بہ سال 5 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ ٹیکس اور فیس کے
بوجھ میں 4.2 ٹریلین یوآن (تقریباً 609 ارب امریکی ڈالر) کی کمی کی
گئی۔انہی مضبوط بنیادوں پر چین نے رواں سال آلودگی کے اخراج اور توانائی کی
شدت کو مزید کم کرنے کا عہد کرتے ہوئے تقریباً 12 ملین شہری ملازمتیں پیدا
کرنے کا ہدف رکھا ہے، جو گزشتہ سال کے 11 ملین ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔چین
پرعزم ہے کہ جدید، مربوط، سبز، کھلی اور مشترکہ ترقی کی جستجو اسے اعلیٰ
معیار کی ترقی اور ایک جدید مستقبل کی جانب صحیح راستے پر گامزن کرے گی اور
اس سے دنیا کو بھی مزید فائدہ ہوگا۔ایک ایسے وقت میں جب عالمی خوشحالی ،
بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی اور جغرافیائی سیاسی تنازعات کی وجہ سے مشکل دور میں
ہے ،یہ امید کی جا سکتی ہے کہ چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی نہ صرف باقی دنیا
کو اس کے ثمرات بانٹنے کی اجازت دے گی ، بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھی
جدیدیت کی جانب اپنے راستے تلاش کرنے کی ترغیب دے گی۔
|