چین کے صدر شی جن پھنگ کی جانب سے حالیہ عرصے میں
دنیا کو درپیش مختلف مسائل کا ادراک کرتے ہوئے کئی "عالمی حل" پیش کیے گئے
ہیں جنہیں عالمی برادری نے وسیع پیمانے پر سراہا ہے۔اُن کا پیش کردہ بیلٹ
اینڈ روڈ انیشی ایٹو جہاں عالمی رابطہ سازی اور مربوط معاشی سرگرمیوں کا
مرکز ہے وہاں گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو دنیا کی مشترکہ اور پائیدار ترقی
کی وکالت کرتا ہے جبکہ گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو عالمی سلامتی کو یقینی
بنانے کا فارمولہ پیش کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصے میں صدر شی جن پھنگ
کے انہی تصورات کو اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی پلیٹ فارمز پر بھی بطور
مثال بیان کیا جاتا ہے جو اُن کی عالمی ساکھ کا مظہر ہے۔اسی سلسلے کو آگے
بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں شی جن پھنگ نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور
عالمی سیاسی جماعتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی مکالمے میں گلوبل سولائزیشن
انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی ۔
گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو یہ کہتا ہے کہ ہمیں مشترکہ طور پر عالمی
تہذیبوں کے تنوع کے احترام کی حمایت کرنی چاہیے، تہذیبی مساوات، باہمی
سیکھنے، مکالمے اور رواداری کی پاسداری کرنی چاہیے نیز تہذیبی تبادلوں کے
ذریعے تہذیبی رکاوٹوں کو دور کرنا چاہیے اور باہمی سیکھنے کے ذریعے تہذیبی
تنازعات کو دور کرنا چاہیے ۔ ہمیں مشترکہ طور پر تمام انسانیت کی مشترکہ
اقدار کی حمایت کرتے ہوئے انہیں فروغ دینا چاہئے۔ انسانیت کی مشترکہ اقدار
کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے شی جن پھنگ نے کہا کہ امن، ترقی، مساوات، انصاف،
جمہوریت اور آزادی تمام لوگوں کی مشترکہ امنگیں ہیں۔ ممالک کو مختلف
تہذیبوں کی اقدار کے تصورات کو سمجھنے میں کھلا ذہن رکھنے کی ضرورت ہے اور
اپنی اقدار یا ماڈل دوسروں پر مسلط کرنے اور نظریاتی محاذ آرائی کو ہوا
دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کی وراثت اور جدت طرازی
کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے اور تمام ممالک کو اپنی تاریخ
اور ثقافتوں کی عہد حاضر سے مطابقت کو پوری طرح بروئے کار لانے کی ضرورت ہے
اور اپنی عمدہ روایتی ثقافتوں کی تخلیقی تبدیلی اور اختراعی ترقی پر زور
دینے کی ضرورت ہے۔چینی صدر نے مشترکہ طور پر مضبوط بین الاقوامی عوامی
تبادلوں اور تعاون کی وکالت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ممالک کو بین الثقافتی
مکالمے اور تعاون کے لئے ایک عالمی نیٹ ورک کی تعمیر کی تلاش کرنے ،
تبادلوں کے مواد کو فروغ دینے اور تمام ممالک کے عوام کے مابین باہمی تفہیم
اور دوستی کو فروغ دینے اور مشترکہ طور پر انسانی تہذیبوں کی ترقی کو فروغ
دینے کے لئے تعاون کی راہیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔
شی جن پھنگ نے جدید کاری کے چینی راستے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ چین
کے لئے ایک مضبوط قوم کی تعمیر اور چینی قوم کی نشاۃ الثانیہ کا ایک یقینی
راستہ ہے۔ چینی جدیدکاری کی جڑیں چین کے قومی حالات کے عین مطابق ہیں اور
دوسرے ممالک کے تجربات پر مبنی ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جدیدیت
کا حتمی مقصد لوگوں کی جامع اور آزادانہ ترقی کا حصول ہے۔ جدیدیت چند ممالک
کا "پیٹنٹ" نہیں ہے۔ جدید بننے کے لیے کسی ملک کو نہ صرف جدیدیت کے عمومی
قانون پر عمل کرنا چاہیے بلکہ خود کو اپنے قومی حالات کے مطابق اپنی
خصوصیات کی حامل جدیدیت تشکیل دینی چاہیے۔اس سلسلے میں جو ممالک آگے ہیں
انہیں حقیقی معنوں میں پیچھے رہنے والے ممالک کی ترقی میں ان کی مدد کرنی
چاہئے۔ دوسروں کا چراغ بجھانے سے اپنا چراغ روشن نہیں ہوتا ہے۔ دوسروں کا
راستہ روکنا آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ چینی طرز کی جدیدیت دوسرے
ممالک کے تجربات سے استفادہ کرتی ہے، تاریخ اور ثقافت کو ورثے میں لیتی ہے،
جدید تہذیب کو ضم کرتی ہے، چینی عوام کو فائدہ پہنچاتی ہے، اور دنیا کی
مشترکہ ترقی کو فروغ دیتی ہے۔ چینی طرز کی جدیدیت نوآبادیاتی لوٹ مار کے
پرانے راستے پر نہیں چلتی نہ ہی قومی طاقت اور بالادستی کا ٹیڑھا راستہ اس
کا انتخاب ہے، یہ پرامن ترقی کے صحیح راستے پر چلتی ہے۔انہوں نے ایک نئی
قسم کے بین الاقوامی تعلقات کی تعمیر اور عالمی سیاسی جماعتوں کے ساتھ
"مضبوط شراکت داروں" کو فروغ دے کر عالمی شراکت داری کو وسعت دینے کے لئے
ایک نئی قسم کے پارٹی ٹو پارٹی تعلقات کی طاقت سے فائدہ اٹھانے پر زور
دیا۔شی جن پھنگ نے یہ عزم بھی ظاہر کیا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا بین
الاقوامی انصاف کا تحفظ جاری رکھے گی اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دے
گی۔
حقائق کے تناظر میں چینی صدر نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ تہذیبوں کے
تنوع کا احترام کیا جائے، انسانیت کی مشترکہ اقدار کی حمایت کی جائے،
تہذیبوں کی وراثت اور جدت طرازی کو انتہائی اہمیت دی جائے اور مشترکہ طور
پر عالمی افرادی تبادلوں اور تعاون کی وکالت کی جائے ، یہی وہ اقدار ہیں جن
پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بنی نوع انسان کے ایک پرامن اور مستحکم ہم نصیب
معاشرے کا قیام ممکن ہے۔
|