ملک میں اب ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف کو دبانے اور "سائٹ
لائن" کرنے کے لیے ہرممکن حربے استعمال کیے جارہے ہیں،سی بی آئی سے لیکر
آیا ڈی اور دیگر ایجنسیوں کو مزید اختیارات دیئے جاچکے ہیں۔ابھی کانگریس کے
ترجمان پون کھیڑا کے بیان پر اتناواویلا کا شور کم نہیں ہوا تھا کہ کھیڑاکے
بعد دہلی کے نائب وزیراعلی منیش سسوڈیا کی گرفتاری ،تلنگانہ کے وزیراعلی کے
سی آر کی صاحبزادی کے کویتا اور اب لالوخاندان کیخلاف انتقامی مہم کے بعد
یہ ظاہر ہورہا ہے کہ مودی حکومت کا مقصد صنعت کار گوتم اڈانی معاملہ یا
تجارتی بحران سے توجہ ہٹانا ہی ہے۔ یہ شک و شبہہ اس وقت تقویت پاگیا، ایک
سازش کے تحت لوگوں کی توجہ اڈانی معاملہ سے ہٹانے کی کوشش ہے۔جب بدزبان اور
مبینہ طور پر اقلیت مخالف آسام کے وزیراعلی سرما اخلاقیات کا درس دینے لگے
ہیں اور انہوں نے جس انداز میں درس دے رہے ہیں،انہیں اس کا حق نہیں پہنچتا
ہے۔ویسے لالو حال میں سنگا پور سے گردے کی پیوندکاری کے بعد واپس وطن لوٹ
آئے ہیں اور ابھی طبعیت ناساز ہی ہے ،لیکن رابڑی ،لالوسمیت پورے خاندان کو
بُری طرح سے نوک کیونکہ وہ خود ایک مخصوص فرقہ کے خلاف جو زبان استعمال
کرتے ہیں،وہ انہیں زیب نہیں دیتی ہے۔
اُن وزیر اعلی کی پولیس ایسی پھرتی دکھاتی ہے کہ کھیرا کے ذریعہ مودی کے
خلاف ایک پریس کانفرنس میں جملہ بازی پر انہیں دہلی ایئرپورٹ پر رائے پور
جانے سے پہلے دہلی پولیس کی مدد سے ہوائی جہاز سے اتار لیا گیا اور گرفتاری
بھی کرلی گئی۔اس بار کانگریس لیڈر شپ کی جلدبازی کی داد دینا پڑے گی کہ
سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور انہیں عبوری راحت مل گئی۔
مذکورہ معاملہ میں حیرت کی بات یہ ہے کہ جودہلی پولیس کھیڑا کے معاملہ میں
چاک وچوبند نظرآئی ، اُس دہلی پولیس کو گستاخ رسول ص نوپور شرما اور نوین
جندل آج تک ہاتھ نہیں لگے ہیں،دونوں کے خلاف اُن ہی دفعات کا استعمال کیا
گیاہے،جن کا استعمال پون کھیڑا کے لیے کیا گیا ہے ،لیکن دونوں شرما اور
جندل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی،حالانکہ ملک بھر میں ہزاروں ایف
آئی آر درج کروائی گئی ہیں۔دونوں آزاد گھوم رہے ،بی جے پی نے صرف عرب اور
مسلمان ملکوں کی ناراضگی کے سبب انہیں دکھا وے میں پارٹی سے معطل کیا ہے۔
دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں ہونے والے
کانگریس کے 85 ویں اجلاس کو متاثر کیا جائے ،لیکن سپریم کورٹ نے کھیڑا کو
عبوری ضمانت دے کر ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔دراصل ایک پریس
کانفرنس میں پون کھیڑا نے وزیراعظم نریند مودی کے والد کے لیے جس نام کا
استعمال کیا ہے، وہ انتہائی قابل اعتراض محسوس کیا گیا۔ انہوں نے نریندر
دامودر داس مودی کی جگہ نریندر گوتم داس کا لفظ استعمال کیا، یعنی آج کل جو
صنعت کار گوتم اڈانی کا معاملہ چل رہا ہے، اس میں اس نے اڈانی کے نام کا
استعمال مودی کے والد محترم کی جگہ کر دیا۔ یہی چیز سنگھ پریوار کو کھٹک
گئی اور ملک بھر میں بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا،بلکہ اڈانی معاملہ کا رُخ
پھیرنے کے لیے زوردار مذمت کی جانے لگی۔الیکٹرونک میڈیا نے بھی کوئی کسر
نہیں چھوڑی ،وہ اینکر جوروزانہ ہر ایک کی تضحیک اور توہین کرتے رہتے ہیں
،وہ بھی کھیڑا کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔
جبکہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس قسم کے تضحیک آمیز بیان میں تو بی جے پی کی
اعلیٰ لیڈرشپ سے لیکر اُس کے ترجمان اور گلی کے ورکرز بھی ماہر ہیں۔پون
کھیڑا نے اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو اس کی مذمت کی جانا چاہئیے۔لیکن بی
جے پی لیڈرشپ اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ ساتھ نیوز چینل سونیا گاندھی اور
راہل گاندھی کی کنڈلی نکالنے لگتے ہیں تو کسے بُرا نہیں لگتا ہے۔ یہ ایک
عرصے سے اس طرح کے پروپیگنڈہ میں لگے ہیں اور ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نے
جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان بھائی بھائی کا رشتہ رہا۔
ویسے تو کھیڑا نے اپنے بیانات پر معافی مانگ لی ہے ،لیکن آسام کے وزیراعلی
انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ لے چکے ہیں اور قطار میں اترپردیش پولیس بھی
نظرآرہی ہے۔اگر سپریم کورٹ بروقت فیصلہ نہیں سناتی تو کھیڑا پتہ نہیں کونسی
جیل میں پہنچا دیئے جاتے تھے۔ اس مقدمے کی پیروی معروف وکیل ابھیشیک سنگھوی
نے کی تھی۔ سنگھوی نے بھی کھیڑا کے بیان کو نامناسب قرار دیا اورمعافی
مانگنے کی بات کہی لیکن سنگھوی نے کھیڑا کے حق میں بہت مضبوط دلائل دیئے۔
بلکہ کھیڑا نے بلاشرط معافی بھی مانگ لی ہے اور آسام کے وزیراعلی کا رویہ
کچھ حد تک نرم۔پڑگیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا آسام حکومت کی پولیس نے دہلی حکومت کی مدد سے جو کچھ کیا
ہے، کیا وہ صحیح ہے؟ کھیڑا کو پولیس نے ہوائی جہاز سے اتار کر گرفتار کر
لیا۔ کیا اس نے کوئی اتنا سنگین جرم کیا تھا؟ کانگریسیوں کا ماننا ہے کہ
انہوں نے گوتم اڈانی کا نام لے کر مودی کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا،
جیسا کہ بی بی سی نے مودی پر فلم بنا کر کیا تھا، اسی لیے آسام اور دہلی
پولیس نے یہ غیر معمولی قدم اٹھایاتھا، اس اقدام نے مندرجہ بالا قابل
اعتراض بیان کو ملک بھر میں طول دیا۔ مایوس اور نا اُمید کانگریسیوں کے
انتہائی بیانات پر آج کل کون توجہ دیتا ہے، لیکن کیا حکمراں بی جے پی کے اس
طرح کے شدید رد عمل کا اثر الٹا نہ ہوجائے۔گزشتہ ہفتے ایسا ہی ہوا
مہاراشٹرکے سابق وزیر اور این سی پی کے قدآور لیڈر مشرف کے ہائی کورٹ میں
بی جے پی کے کریٹ سومیا کو چیلینج کرنے کے بعد عدالت نے اُلٹا کریٹ سومیا
کے خلاف جانچ کا حکم دے دیااورہر ایک اپوزیشن لیڈر کو بدعنوان کہنے والے یہ
لیڈر خود شکنجے میں پھنس گے۔اس مدنظر اب اپوزیشن لیڈر شپ کے لیے ضروری ہیں
کہ اپنے اتحادیوں کے اتفاق رائے سے ایک پریشر گروپ بناکر حالات کا مقابلہ
کرنے کے لیے ک۔ر کس لی جائے ۔
|