افغانستان، پاکستان دوستانہ تعلقات


پاکستانی اور افغان حکام نے ایک بار پھر سرحد پار تجارت اور پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت کو بہتر بنانے اور سہولت فراہم کرنے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کر لیاہے۔ معاہدہ گزشتہ روز گمراک کے علاقے میں افغان کسٹم دفاتر میں پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ہوا۔پاکستانی وفد میں لیفٹیننٹ کرنل مجتبیٰ، نیشنل لاجسٹک سیل کے ریٹائرڈ کرنل ستار، اے ڈی سی رضوان اور پولیس، اینٹی نارکوٹکس فورس اور محکمہ صحت کے حکام شامل تھے۔ افغانستان کی نمائندگی ڈائریکٹر جنرل (کسٹمز) عبدالہادی، ڈپٹی ڈائریکٹر (درآمد اور برآمد) قاضی حامد اور بارڈر سیکیورٹی اور صحت کے حکام نے کی۔شرکا نے 19 فروری کو افغان سرحدی فورسز کی جانب سے طورخم بارڈر کی ہفتہ بھر کی یکطرفہ بندش کی وجوہات پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان حکام افغانستان سے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو ہنگامی حالات میں بغیر ویزے کے اپنی سرزمین پر داخلے کی اجازت دینے سے انکار کے علاوہ تجارتی سامان لانے والے ڈرائیوروں کے ساتھ افغان کنڈکٹرز سے متعلق شکایت کرتے رہے ہیں۔وہ افغانستان میں داخل ہونے والی پاکستانی گاڑیوں کے برابر افغان گاڑیوں اور افغان کارڈ یا پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر) کے حامل افغان شہریوں کے داخلے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ پاکستان پی او آرز اور افغان کارڈز ضبط نہ کریں اور صرف انہیں پنچ کریں کیونکہ واپس آنے والے زیادہ تر افغان باشندے، جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم تھے ان کے پاس شناختی کارڈ یا قانونی سفری دستاویزات نہیں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ افغان جن کے پاس پی او آر یا افغان کارڈ نہیں ہیں اور وہ یو این ایچ سی آر کی رضاکارانہ وطن واپسی کے پروگرام کے تحت پاکستان واپس جا رہے ہیں، انہیں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دی جائے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین ان تمام مسائل کو باہمی طور پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اچانک سرحد کی بندش کو روکا جا سکے۔پاکستان یقین دلارہا ہے کہ وہ ان مسائل کوحل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔دونوں ممالک نے چائلڈ پورٹرز کو خفیہ طور پر چینی اور سنگترے افغانستان لے جانے اور پاکستان کو سامان اسمگل کرنے سے روکنے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔طالبان حکام علاج کے لئے پاکستان جانے کے لئے اپنے ملک سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران طورخم بارڈر کی دو بار بندش کی وجہ سے ایسے شہریوں کی ایک بڑی تعداد شدت سے اپنی روانگی کا انتظار کر رہی ہے۔

طالبان حکومت بھارت کی مودی کی سربراہی میں سخت گیر جن سنگھی بی جے پی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات نہ صرف بحال رکھے ہوئے ہیں بلکہ تجارت میں اضافے کے لئے نئے اقدامات کر رہے ہیں۔طالبان نے صرف سات ماہ میں 300ملین ڈالر کی قریب اشیاء بھارت کو برآمد کیں۔ نئی دہلی کے ساتھ تجارت میں اضافے کے لئے ہوائی راہداری کو دوبارہ کھول دیا ۔یہ راہداری 2019 میں سابق بھارت نواز صدر اشرف غنی کی حکومت نے قائم کی تھی۔ طالبان کی وزارت صنعت و تجارت کے ترجمان عبدالسلام جواد کہتے ہیں کہ ان کی حکومت ایک معاہدے کے تحت انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ انڈیا کے ساتھ معاہدہ کے مطابق فضائی راہداری کے ذریعے کاروبار جاری رکھ رہے ہیں۔ انڈیا کو افغان تجارت اور اشیا کی برآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سال کے دوران افغانستان سے 30 ہزار ٹن دست کاری سامان انڈیا بھیجا گیا ۔طالبان حکومت نے صرف سات ماہ میں ایک ارب ڈالر کی برآمدات کیں۔

افغانستان نے پاکستان کو 743ملین ڈالر اور تاجکستان کو 23ملین ڈالر کا سامان فروخت کیا ۔ 2020 میں افغانستان نے انڈیا کو 499 ملین ڈالر کی برآمدات کیں۔ افغانستان نے انڈیا کو جو اہم مصنوعات برآمد کیں ان میں ٹراپکل فروٹ (132 ملین ڈالر)، ریزن (111 ملین ڈالر) ، انگور (96.9 ملین ڈالر) شامل ہیں۔ گزشتہ 25 سال میں افغانستان کی انڈیا کو برآمدات میں 18.1 فیصد کی سالانہ شرح سے اضافہ ہوا ، جو 1995 میں 7.87 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2020 میں 499 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔طالبان حکومت کے قائم مقام وزیر تجارت نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ساتھ وسیع معاہدے کرنا افغانستان کے مفاد میں ہے۔ اگر روس اور قازقستان کو گندم کی پیداوار میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو افغانستان متبادل کے طور پر انڈیا کے ساتھ گندم کی خریداری اور کینیڈا کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

ماضی میں پاکستان اپنے پڑوسی انڈیا اور افغانستان کے تعلقات سے زیادہ خوش نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان زمینی راستے سے تجارت نہیں ہو رہی ہے۔حالیہ برسوں میں کابل اور نئی دہلی کے درمیان سالانہ تجارت ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ سطح کم ہو کر 24 ملین ڈالر رہ گئی ۔ طالبان حکومت نے فضائی راہداری کے ذریعے چین کو 20 ٹن ایندھن برآمد کرنے کا اعلان کیا تو انڈیا کے کان کھڑے ہو گئے۔چین اور امریکہ کی افغانستان میں اپنی ترجیحات ہیں۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں افغانستان شراکت دار ہے۔ انڈیا سمجھتا ہے کہ اس کی لاکھ سازشوں کے باوجود پاک افغان تعلقات خراب نہ کئے جا سکے۔ اس لئے نئی دہلی طالبان کو چین سے دور رکھنے کی کوشش کرنے لگی۔بھارت نے سر توڑ کوشش کی کہ وہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ شمالی اتحاد کے ساتھ نئی دہلی کے قریبی تعلقات رہے۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی سرگرمیوں کے لئے استعمال کی گئی۔ امریکی اور نیٹو فورسز کی موجودگی کے دوران بھارت نے ملک کے کئی علاقوں میں اپنے قونصل خانہ کھول دیئے تھے۔ بھارت کے اس کردار کی وجہ سے ہی امریکہ اور بھارت اتنے قریب آ گئے کہ امریکہ نے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیدیا۔ بھارت اور طالبان کے درمیان سفارتی بات چیت جاری ہے۔ نئی دہلی کے سفارتی وفد نے کابل میں مولوی امیر خان متقی سے مذاکرات کئے۔ سفارتی تعلقات، دو طرفہ تجارت، انسانی امداد جیسے معاملات زیر غور لائے گئے۔ دوحہ قطر میں طالبان اور بھارت کے مابین سفارتی رابطہ قائم ہوا ۔ طالبان کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے کے بعد بھارت نے اپنا سفارتخانہ بند کر دیا۔ طالبان سے پہلے بھارت افغان فورسز کی تربیت کے ساتھ اسلحہ بھی فراہم کرتا رہا ۔ بھارت نے افغانستان پر اثر انداز ہونے کی لاکھ کوشش کی مگر افغان عوام نے کبھی بھی بھارت کو پاکستان پر ترجیح نہ دی۔ بھارت اب بھی یہی چاہتا ہے مگر پاکستان اور افغان عوام کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں ہیں۔پاکستانی اور افغان حکام کے درمیان سرحد پار تجارت اور پیدل چلنے والوں کی نقل و حرکت کو بہتر بنانے اور سہولت فراہم کرنے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق ظاہر کرتا ہے کہ یہ دونوں برادر ممالک ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ اس اتحاد کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555258 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More