ایران کے اسکولوں میں طلبہ کو زہر دیئے جانے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ


ایران میں معصوم بچوں کو زہر دینے کا معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے، زہر دینے کے واقعات عالمی سطح پر تشویش کا باعث بن رہے ہیں اور مغربی ممالک میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پارلیمانی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے رکن محمد حسن اسفاری نے پیر6؍ مارچ کو آئی ایس این اے نیوز ایجنسی کو بتایاکہ ملک کے 25صوبوں کے تقریباً 230اسکول بچوں کو زہر دیئے جانے کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکول کی 5000سے زائد لڑکیاں اور لڑکوں کو زہر دیا گیا۔ زہر کی قسم اور وجہ جاننے کے لے مختلف ٹیسٹ کئے جارہے ہیں ، ابھی تک استعمال کئے جانے والے زہر کی قسم کے حوالے سے کوئی خاص معلومات نہیں مل سکی ہیں۔ مقدمات کی تحقیقات کرنے والے ایک قانون ساز کے مطابق نومبر کے آخر سے اب تک ایرانی ا سکولوں کے ان پانچ ہزار سے زائد بچوں میں زیادہ تر طالبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پراسرار زہر خورانی کے واقعات نے ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور حکام سے کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ درست حجاب نہ کرنے کی وجہ سے 22 سالہ ایرانی کرد مہسا امینی کی گرفتاری اور حراست میں ہلاکت کے بعد ملک گیر مظاہروں کے آغاز کے فوراً بعد بچوں کو زہر دینے کا پہلا کیس رپورٹ ہوا تھا۔اس کے بعد سے زہر دیئے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا اور ایران کے درجنوں اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔ زہر کی نوعیت کس طرح کی ہے اس سلسلہ میں تفصیلات کا انکشاف تو نہیں ہوا البتہ ا سکولوں کے احاطے میں 'ناخوشگوار' بدبو پھیلتی ہے جس کے بعد طلباء میں سانس کی قلت سے متلی اور چکر آنے کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، کچھ طلبہ کے ہسپتال میں علاج کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے زہر دیئے جانے والے واقعات پر کہا کہ ’ایران میں اسکولوں کی طالبات کو زہر دینا ناقابل معافی جرم ہے۔‘آیت اﷲ علی خامنہ ای نے ایران کے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکام طلبہ کے اس (زہر والے) مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ یہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس جرم کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔‘ اس حوالے سے بعض سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ یہ حملے لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف مذہبی گروپس کی جانب سے ہو سکتے ہیں۔طالبات کو زہر دینے کے واقعات کا آغاز گزشتہ برس نومبر میں ایران کے وسطی شہر قْم سے ہوا اور پھر یہ ملک کے 31 میں سے 25 صوبوں میں پھیل گیا۔اس کے بعد کچھ والدین نے اپنی بچیوں کو اسکولوں سے نکال دیا اور انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے۔اب دیکھنا ہیکہ حکومتِ ایران ان زہر دینے والے مجرموں کو کس طرح پکڑنے کامیاب ہوتی ہے اور انہیں کس طرح کی سزا دی جاتی ہے۔اگر ان تشویشناک واقعات کے خاطیوں کوجلد از جلد گرفتارنا کرنے کی صورت میں ایرانی حکومت کے خلاف ملک و بیرون ملک انتشاری کیفیت میں مزید اضافہ ہوگا۰۰۰

کیا واقعی ایران اتنا طاقتور ترین ملک ہے جو روس کو ہتھیار پہنچا رہا ہے
روس اور ایران کے درمیان تعلقات نے پھر عالمی سطح پر موضوعِ بحث بنادیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران کے خلاف کسی نہ کسی طرح کا دباؤ برقرار رکھا جائے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسکائی نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے خفیہ طور پر روس کو یوکرین جنگ کیلئے کروڑوں گولیاں اور لاکھوں گولے فراہم کیے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع نے چینل کو بتایا کہ جنوری میں روسی پرچم والے دو جہاز بحیرہ کیسپین کے پار ایران سے روس گئے جن میں تقریباً 100 ملین گولیاں اور توپ خانے کے تین لاکھ گولے، راکٹ، مارٹر گولہ بارود، کیولر جیکٹ اور ہیلمٹ تھے۔ روس نے اس سارے اسلحے کی ادائیگی رقمکی صورت میں کی ہے۔ یہ خبر ان الزامات کے بعد سامنے آئی ہے کہ گزشتہ سال تہران نے ماسکو کو ہزاروں مسلح ڈرون فراہم کیے تھے، جو یوکرین میں استعمال ہو چکے ہیں۔اسکائی نیوز کے ذرائع کے مطابق دو جہازوں کے مالکان کی شناخت موسیٰ جلیل اور بیگی کے نام سے ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ چینل کی طرف سے تبصرہ کیلئے رابطہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے دو مال بردار بحری جہاز یوکرین کے جنگی زون میں بھیجے، جن میں تقریباً 200 نئے شپنگ کنٹینرز تھے جن میں یوکرین میں روسی لڑائی کیلئے گولہ بارود تھا۔ان خبروں میں کتنی سچائی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایران دشمن ممالک کے لئے پاور فل اور خطرناک ہے ۔اسی کے پیشِ نظر ایران کو جتنا ممکن ہوسکتا ہے معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۰۰۰

سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان مضبوط تعلقات کے لئے وزرائے خارجہ کی ملاقات
سعودی عرب کی شاہی حکومت جس طرح مملکت کو عالمی سطح پر سب سے نمایاں کرنے کیلئے کوشاں نظر آتی ہے ۔ ویژن 2030کے تحت ولیعہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان مملکتِ سعودی عرب میں جہاں اپنی عوام (مرد و خواتین) کو روزگار سے مربوط کرنے کیلئے مختلف ترقیاتی منصوبوں کو عملی شکل دے رہے ہیں ، وہیں مملکت کے ساتھ دنیا کو معاشی اعتبار سے جوڑنے اور مضبوط بنانے کیلئے سرمایہ کاری کے وسیع تر ذرائع پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح سعودی شہریوں کو دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع بھی فراہم کررہے ہیں۔ عالمی سطح پر کسی بھی ملک سے دشمنی کو بڑھاوا دینے کے بجائے دوستی کو ترجیح دیتے ہوئے انکے ساتھ تعلقات بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اسی سلسلے میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے پیر6؍ مارچ کو لندن میں اپنے برطانوی ہم منصب جیمز کلیورلی سے ملاقات کی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے سعودی عرب اور برطانیہ کے درمیان تاریخی شراکت داری کے پہلووں اور تمام شعبوں میں انہیں مضبوط بنانے اور ترقی دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے اثرات علاقائی اور بین الاقوامی پر ہونے والے اثرات اور اس سلسلے میں کی جانے والی پیشرفت اورکوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا۔انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اور مشترکہ مفادات کے شعبوں میں تعاون بڑھانے، موجودہ رابطہ کاری اور مشاورت کی سطح کو بڑھانے کے مواقع پر بھی بات چیت کی گئی۔اس ملاقات کے دوران برطانیہ میں متعین سعودی سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے بھی شرکت کی۔

امیر ممالک کی جانب سے غریب ممالک کا بلند شرح سود کے ذریعہ شکار
غریب ممالک کو امیر ملکوں کا بلند شرح سود کے ذریعہ شکار بنانے کا مسئلہ اب عالمی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگتریس نے دنیا کے امیر ملکوں کو غریب ممالک کے شہریوں کی مشکل ہوتی زندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امیر ممالک اور توانائی کی بڑی کمپنیاں غریب ملکوں کا شرح سود بڑھاکر ’’شکار‘‘ کررہی ہیں۔ہفتہ کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل گوتریس نے کہا کہ دنیا میں 40سے زائد ایسے ممالک ہیں جو انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر ملکوں کو سالانہ 500ارب ڈالر کے ساتھ دوسروں کی مدد کرنا چاہیے کیونکہ یہ ملک کیپٹل مارکیٹ سے بلند شرح سود کے باعث باہر رکھے جارہے ہیں اور توانائی کی بڑی کمپنیاں ریکارڈ منافع کمارہی ہیں۔ انتونیو گتریس نے اسے ’’شیطانی چکر‘‘ قرار دیا جس میں غریب ملکوں کی معیشت پھنس چکی ہے اور اس کے باعث ان ممالک میں صحت اور تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش میں رکاوٹ آتی ہے۔سربراہی اجلاس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر انتونیو گوتریس نے کہا کہ غریب ملکوں کی ’معاشی ترقی ایک مشکل مرحلہ ہے ایسے وقت میں جب وسائل کی کمی ہے، قرضے بڑھ رہے ہیں اور عالمی وباکورونا سے نمٹنے میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے غیرمنصفانہ ردعمل کا سامنا ہے۔‘ غریب ترین ممالک نے طویل عرصے تک شکایت کی کہ انہیں کووِڈ ویکسین میں اْن کا مناسب حصہ نہیں ملا۔ امیر ملکوں کی توجہ یورپ اور شمالی امریکہ پر مرکوز تھی۔ دنیا کے 46 سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کا سربراہی اجلاس عام طور پر ہر 10 سال بعد ہوتا ہے لیکن 2021 کے بعد سے کورونا وائرس ووبائی امراض کی وجہ سے اس کے انعقاد میں دو بار تاخیر ہوئی ہے۔دوحہ میں منعقدہ اجلاس میں دو غریب ترین ممالک افغانستان اور میانمار شریک نہیں ہوئے کیونکہ ان ممالک کی حکومتوں کو اقوام متحدہ کے ارکان تسلیم نہیں کرتے۔واضح رہے کہ اس جلاس میں دنیا کی کسی بھی بڑی معیشت کے رہنما نے شرکت نہیں کی۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہی کے شکار ممالک کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور جو امداد دی گئی وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔’ایندھن سے منسلک کمپنیاں بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں جبکہ دنیا میں لاکھوں افراد دو وقت کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں۔‘گتریس نے کہا کہ غریب ترین قوموں کو ’ڈیجیٹل انقلاب‘ میں پیچھے چھوڑا جا رہا ہے اور یوکرین کی جنگ نے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔اب دیکھنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی جانب سے کئے جانے والی تقریر کا امیر ممالک کے رہنماؤں پر کیا اثر پڑتا ہے اور ان میں سے ایسے کتنے امیر ممالک ہونگے جو اپنے ان غریب ممالک کی بہتری کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوگا۰۰۰

ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف سعودی عرب اور عرب ممالک کا کلیدی رول
ماحولیاتی تبدیلیوں نے عالمی سطح پر تشویشناک حالات پیدا کردیئے ہیں۔ ان حالات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اسکے ذمہ دار ترقی یافتہ او رخطرناک ہتھیاروں کا استعمال کرنے والے ممالک ہی ہوسکتے ہیں۔ موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور تشویشناک حالات کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی نیندیں اڑگئیں ہیں۔ زمینی اور آسمانی آفات کو جانچنے اور اس پرقابو پانے کی کوششیں ہورہی ہیں لیکن کیا اس میں انہیں کامیابی ہوسکتی ہے؟ خیر ۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے کہا ہے کہ موسمیاتی اور سمندری تبدیلیوں کے باعث ماحول کے لئے خطرات برقرار ہیں تاہم اس حوالے سے انہوں نے اقوام متحدہ کی کاوشوں اور عرب ممالک کی مدد کو سراہا۔عرب نیوز کے مطابق 1995 سے اقوام متحدہ کے تحت ہر سال ماحولیاتی کانفرنس ’کوپ‘ کا انعقادعمل میں لایا جاتا ہے جس میں سے چار کانفرنسز عرب ممالک میں منعقد ہو چکی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اس سال کوپ 28 دبئی میں منعقد ہوگی ۔جان کیری نے اقوام متحدہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی خطے کے دیگر ممالک کی جانب سے ملنے والی حمایت کو سراہا۔’گزشتہ سال متحدہ عرب امارات میں ماحول اور حیاتیاتی ایندھن کے مسائل پر پہلی علاقائی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں 11 علاقائی ممالک نے شرکت کی تھی۔ ‘جان کیری نے کہا کہ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا تھا جس میں عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری کی سطح پر رکھنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی اور 2030 تک کرنے والے اقدامات پر زور دیا گیا۔’عرب امارات خود بھی اپنی موجودہ کوششوں کا ایک بہت بڑا حصہ قابل تجدید ذرائع کی تحقیق اور ترقی پر خرچ کر رہا ہے۔‘جان کیری نے کہا ’میں جانتا ہوں کہ سعودی عرب ایک بہت بڑا سولر فیلڈ تیار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جو گرین ہائیڈروجن پیدا کرے گا۔ جبکہ بحرین، کویت اور دیگر ممالک بھی اس حوالے سے سوچ رہے ہیں۔‘امریکی نمائندہ خصوصی نے ماحولیاتی خطرات کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مزید کرنے کی ضرورت ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی حقیقت ماضی کی تہذیبوں کے مٹنے کا بھی سبب بنی۔انہوں نے کہا کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں دنیا نے اہم موقعے کھوئے۔’درجہ حرارت بڑھنے کے باعث سمندی برف غائب ہو رہی ہے، آلودگی اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث حالات تشویشناک رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔‘جان کیری نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے معاملے پر عرب ممالک کی دلچسپی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسے ممالک کی شمولیت انتہائی اہم ہے جو تیل اور گیس سے واقف ہیں اور اپنی کمیونٹی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.