گذشتہ دنوں وفاقی حکومت نے سال 2002 سے مارچ 2023 تک کا
توشہ خانہ ریکارڈ شائع کردیا۔ گذشتہ کئی ادوار سے توشہ خانہ معاملات کی
بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ توشہ خانہ کیا ہے؟ توشہ خانہ کے معاملات آخر
اتنے متنازعہ کیوں ہیں؟ آئیے ان معاملات کی کھوج لگانے کی کوشش کریں۔ توشہ
خانہ یا سٹیٹ ریپازیٹری یہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں ریاستی
حکمران وریاستی افسران کو بیرون ممالک سے ملنے والےقیمتی تحائف جمع کیے
جاتے ہیں۔کسی بھی غیر ملکی دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف
کا اندراج کرتے ہیں اور وطن واپسی پر ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا
ہے۔ یہاں جمع ہونے والے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جاتے ہیں یا کابینہ کی
منظوری سے انھیں فروحت کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوانین کے مطابق اگر کوئی
تحفہ 30 ہزار روپے سے کم مالیت کا ہے تو تحفہ حاصل کرنے والا شخص اسے مفت
میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ جن تحائف کی قیمت 30 ہزار سے زائد ہوتی ہے،
انھیں مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کروا کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سنہ 2020 سے
قبل یہ قیمت 20 فیصد تھی تاہم تحریک انصاف کے دور میں اسے 20 فیصد سے بڑھا
کر 50 فیصد کر دیا گیا تھا۔ توشہ خانہ کا محکمہ کابینہ ڈویژن کے تابع کام
کرتا ہے۔ یاد رہے پاکستان سمیت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی
توشہ خانہ طرز کا محکمہ قائم ہوتا ہے۔ توشہ خانہ سے تحفوں کو خریدنا
پاکستانی قوانین کے مطابق کوئی جرم نہیں ہے۔ مگر حال ہی میں شائع ہونے والی
توشہ خانہ تحائف لسٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد مال مفت دل بے رحم والی مثال
بہت یاد آئی۔ بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف کی مالیت کروڑوں روپے ہو یا
پھر چند ہزار روپے ، ہماری اشرافیہ ان تحائف کو نہیں بخشتی۔ یہاں تک کہ
صدارت اور وزرات عظمی جیسے بڑے عہدوں پر براجمان اشخاص بھی ان تحفوں کیساتھ
بے رحمی کا مظاہرہ کرتے دیکھائی دیئے۔ جسکے ہاتھ جو چیز آئی وہ (معمولی
معاوضہ دیکر) اپنے گھر لے گیا۔ گذشتہ کئی ادوار سے نواز شریف، زرداری سمیت
کئی پاکستانی سیاستدانوں پر توشہ خانہ میں کرپشن کے مقدمات بنائے گئے اور
حال ہی میں عمران خان پر توشہ خانہ مقدمہ زیر سماعت ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کے
لیڈران مخالف سیاسی پارٹی کے لیڈران کو چور، ڈاکو، گھڑی چور، کار چور، توشہ
خانہ چور وغیرہ وغیرہ خطابات سے نوازتے رہے۔ مگر افسوس سال 2002 سے مارچ
2023 کی لسٹ شائع ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کے چیلے و ہمنوا شرمندہ
ہونے کی بجائے اپنے اپنے لیڈروں کی توشہ خانہ لوٹ سیل کی صفائیاں پیش کرنے
کیساتھ ساتھ اپنے لیڈران کا دفاع کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں
انہوں نے ملنے والے تحائف بارے بتایا کہ کس طرح انہوں نے ان تحائف کو کم
قیمت پر گھر لیجانے کی بجائے تمام اشیاء کو توشہ خانہ میں جمع کروا کر ان
تحفوں کی سرعام بولی لگوائی اور اربوں روپے حاصل کرکے قومی خزانہ میں جمع
کروائے۔ کاش اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان حکمران اپنے ازلی بھارتی
ہندو دشمن ہی سے سبق سیکھ لیتے۔ ہم مسلمان ہیں، ہمارے لئے ہدایت و رہنمائی
کے لئے نبی کریم کی ذات اقدس کی تعلیمات منبع نور ہیں، اسی موضوع پر اک بہت
ہی مشہور حدیث مبارکہ ذہن میں آئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ابن الاتیہ کو بنی سلیم کے صدقہ کی وصول یابی کے لیے عامل بنایا۔ جب وہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (وصول یابی کر کے) آئے اور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان سے حساب طلب فرمایا تو انہوں نے کہا یہ تو آپ لوگوں
کا ہے اور یہ مجھے ہدیہ دیا گیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ پھر تم اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھے رہے، اگر تم سچے ہو تو
وہاں بھی تمہارے پاس ہدیہ آتا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا، امابعد! میں کچھ لوگوں
کو بعض ان کاموں کے لیے عامل بناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سونپے ہیں،
پھر تم میں سے کوئی ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ
ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر کیوں نہ وہ اپنے باپ یا
اپنی ماں کے گھر میں بیٹھا رہا تاکہ وہیں اس کا ہدیہ پہنچ جاتا۔ پس اللہ کی
قسم! تم میں سے کوئی اگر اس مال میں سے کوئی چیز لے گا۔) راوی ہشام نے آگے
کا مضمون اس طرح بیان کیا کہ( بلا حق کے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس
طرح لائے گا کہ وہ اس کو اٹھائے ہوئے ہو گا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں اسے
پہچان لوں گا جو اللہ کے پاس وہ شخص لے کر آئے گا، اونٹ جو آواز نکال رہا
ہو گا یا گائے جو اپنی آواز نکال رہی ہو گی یا بکری جو اپنی آواز نکال
رہی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے بغلوں کی
سفیدی دیکھی اور فرمایا کیا میں نے پہنچا دیا؟۔اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت
ہوتا ہے کہ ریاست کو ملنے والے تحائف ریاست کی امانت ہوتے ہیں۔ ناکہ ریاستی
حاکم یا ریاستی افسرکی ملکیت۔کاش ہمارے حکمران یہ ریاستی تحائف معمولی
معاوضہ دیکر گھروں میں لیجانے کی بجائے سرعام بولی لگوا کر ان تحائف کو
مارکیٹ ویلیو کے حساب فروخت کرکے اربوں روپے قومی خزانہ میں جمع کروانے کا
باعث بنتے۔ کاش ہمارے حکمران امانت کےاسلامی تصور و تعلیمات پر صحیح معنوں
پر عمل درآمد کرتے دیکھائی دیتے۔کاش ہمارے حکمران نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی پیروی کرتے ہوئے
قومی وسائل کو امانت سمجھیں۔کاش ہمارے حکمران توشہ خانہ کے چور دروازہ کو
ہمیشہ کے لئے بند کرنے کے لئے نئی قانون سازی کردیں کہ آج کے بعد کوئی
تحفہ ارزاں نرخوں پر فروخت نہ ہوگا۔ اللہ کریم ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
آمین
|