ملک میں فی الحال اڈانی اور اس کے حواری بھاجپائیوں کے
سوا ہر کسی کو بدعنوان گردانا جاتا ہے لیکن قدرت کا کرنا یہ ہے کہ کوئی دن
ایسا نہیں گزرتا کہ جب بی جے پی کا ایک نہ ایک کرپشن سامنے نہ آتا ہو۔
بلڈوزر بابا کے اترپردیش میں ان کے چہیتے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو ایک
وائرل ویڈیو کی تحقیقات کا حکم دینا پڑا ہے کیونکہ اس میں آئی پی ایس افسر
انیرودھ سنگھ مبینہ طور پر رشوت کا مطالبہ کرتے ہوئے سناتی دے رہے ہیں۔ اس
ویڈیو کی تصدیق کرنے کا کام مودی جی کی کرم بھومی وارانسی کے پولیس کمشنر
کودیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو تقریباً دو سال پرانا ہے جب انیرودھ سنگھ وارانسی
میں ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے پر تعینات تھے۔ بدعنوانی کے باوجود
ان کوترقی دےکر دیہی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی حیثیت سے میرٹھ بھیجا گیا۔ اس
طرح بی جے پی اپنے لوگوں کو بدعنوانی کے الزامات سے نہ صرف بچاتی بلکہ
نوازتی بھی ہے۔ انیرودھ سنگھ کی بیوی آرتی سنگھ بھی آئی پی ایس افسرہیں
یعنی بدعنوانی کی ڈبل انجن گاڑی رواں دواں ہے۔ آرتی سنگھ پر فلیٹ کے مالک
کو کرایہ ادا نہیں کرنے کا الزام لگا لیکن سرکاری تفتیش نے انہیں بے قصور
پایا۔ بعید نہیں کہ تین دن کےبعد انیرودھ کو بھی کلین چٹ مل جائے۔ بی جے پی
والےاول تو گرفتار نہیں ہوتے اور اگرپکڑے جائیں تب بھی ان کو سزا نہیں ہوتی
۔ ای ڈی اور سی بی آئی وغیرہ ان کے قریب پھٹکنے کی ہمت نہیں کرتےیا ان کے
ذریعہ مجرموں کو بچانے کا کام لیا جاتاہے ۔
اس تناظر میں سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری شیوپال سنگھ یادو کا یہ
الزام درست معلوم ہوتا ہے کہ بدعنوانی میں ڈوبی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی
میعاد کار میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ایک طرف شیوپال یادو کا یہ
بیان اور دوسری جانب راجناتھ سنگھ کا ایوان پارلیمان میں راہلُ گاندھی سے
معافی مانگنے مطالبہ بہت عجیب لگتا ہے۔ ایوان پارلیمان کو چلانا حزب اقتدار
کی ذمہ داری ہے مگر افسوس کہ فی الحال وہ ایوان کی کارروائی میں روڈا ڈالنے
اور ہنگامہ آرائی میں پیش پیش رہتی ہے۔ ایوان کے اندر بجٹ سیشن کے باقی
نصف کی شروعات میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں راہل گاندھی پر
لندن میں ہندوستان کی توہین کرنے کا احمقانہ الزام لگا کر ہنگامہ برپا
کردیا۔ انہوں نے ایوان کے تمام اراکین سے راہل کی مذمت کرنے اور انہیں
پارلیمان کے سامنے معافی منگوانے کی دہا ئی دی۔ ایوان بالا کے اندریہی ناٹک
قائد ایوان پیوش گوئل نےکیا اور راہل گاندھی پر تنقید کی ۔ اس ہنگامہ آرائی
کے سبب دونوں ایوانوں کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی ۔ اس خلل اندازی کی مکمل
ذمہ داری بجٹ پر بحث سے بھاگنے والی بی جے پی پر ہے۔
پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں شور شرابہ کرنے سے بات نہیں بنی تو مرکزی
وزیر گری راج سنگھ نے راہل گاندھی کو پر اعتاض کیا کہ انہوں نے لندن میں یہ
کہہ کر لوک سبھا کی توہین کی ہے کہ پارلیمان کو ایوان میں بولنے کی اجازت
نہیں دی جاتی۔ گری راج نے اس تلخ حقیقت پر ایوان کے اسپیکر کو راہل کے خلاف
کارروائی کرنے کی گہار لگائی لیکن اس جرم کا ارتکاب تو خود بی جے پی والے
کرتےہیں وہی سزا کے حقدار ہیں ۔ گری راج چاہتے ہیں کہ جمہوریت کی توہین
کرنے کے سبب راہل پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا جائے۔ یہ عجب تماشا ہے کہ پہلے
تو لوگوں کو عملاً بولنے سے روکا جائے۔ ان کو ثبوت پیش کرنے کے لیےنوٹس دے
کر ڈرایا جائے۔ لفظِ اڈانی کو غیر پارلیمانی قرار دے کر حذف کیا جائے۔ اس
کے بعد غداری کا مقدمہ چلا کر جیل میں بھیجنے کی دھمکی دی جائے ۔ یہ سب اگر
دھاندلی نہیں تو کیا ہے؟ اس پر یکطرفہ تماشا یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی
سلب کرنے والوں کا سربراہ اعلان کرے کہ ہماری جمہورت کو کوئی نقصان نہیں
پہنچا سکتا حالانکہ وہ خود اور ان کے ساتھی کھلے عام عوام اور ان کے
نمائندوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔
شیوپال یادو نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ ای ڈی اور سی بی
آئی کے چھاپے صرف حزب اختلاف کے رہنماوں پر ہی کیوں پڑ رہے ہیں؟ لالو کنبہ
پر چھاپے ماری پر احتجاج کرتے ہوئے شیوپال سنگھ یادو نے کہا کہ موجودہ
سرکار کو صرف اپوزیشن کے لوگ ہی گھپلے باز اور بے ایمان نظر آتے ہیں جبکہ
حقیقت میں بی جے پی کےرہنماوں سے بڑا کوئی بدعنوان نہیں ہے۔ انہوں نے بی جے
پی کےسبھی رہنماوں کو بدعنوان قرار دیا جو درست ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے
سکریٹری سینا رام یچوری نے بھی شیوپال یادو کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے کہا
کہ موجودہ حکومت تمام مرکزی ایجنسیوں کو اپنے سیاسی ہتھیار کے طور پر
استعمال کر رہی ہے۔ اس طرح آئینی نظام کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ کوئی
مجرم ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں، ایجنسیاں اپنا کام کریں گی لیکن
لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے ایجنسیوں کا استعمال غلط ہے۔
سیتا رام یچوری کی مانند کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے مودی حکومت پر
اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا غلط استعمال کر کے
جمہوریت کا قتل کرنے کا الزام عائد کردیا ۔ انہوں نے سوال اٹھا یاکہ ’’مودی
حکومت کی ایجنسیاں اس وقت کہاں تھیں جب بھگوڑے ملک سے کروڑوں روپے لے کر
بھاگ رہے تھے؟ اڈانی کا نام لیے بغیر انہوں نے پوچھا کہ جب بہترین دوست کی
دولت آسمان کو چھوتی ہے تو اس کی تحقیقات کیوں نہیں ہوتی؟ کھڑگے نے توقع کا
اظہار کیا کہ عوام اس آمریت کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ان کے اپنے صوبے
کرناٹک میں بہت جلد ریاستی انتخاب ہونے والے ہیں وہاں پتہ چل جائے گا عوام
بدعنوانی کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ کھڑگے کے مطابق 14 گھنٹوں تک مودی جی
کا نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو کے گھر پر ای ڈی بھیج کر ان کی حاملہ بیوی
اور بہنوں کو ہراساں کرنا مذموم حرکت ہے ۔ لالو پرساد یادو کے تئیں یکجہتی
کا اظہار کرتے ہوئے کھڑگے بولے وہ بوڑھےاور بیمار ہیں، تب بھی مودی سرکار
نے ان کےساتھ انسانیت سے نہیں پیش آتی ۔ای ڈی نے جب بہار کے کئی شہروں میں
بھی لالو پرساد یادو کے خاندان اور آر جے ڈی لیڈروں کے ٹھکانوں پر چھاپے
مارے تو کھڑگے کو کہنا پڑا اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔
ملک میں ایک طرف تو اڈانی کے اوپر بدعنوانی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں
اور دوسری جانب منیش کو جس معاملے میں پھنسایا جارہا ہے اس کا موازنہ کیا
جائے تو ہنسی آتی ہے۔ کیجریوال نے نومبر 2021 میں شراب کی جونئی حکمت عملی
بنائی جس کا مقصد دہلی سے شراب مافیا کا خاتمہ ، سرکاری آمدنی میں اضافہ ،
شرابیوں کی شکایت دور کرنے کے لیے ہر وارڈ میں شراب کی دوکانوں کی یکساں
فراہمی بتایا گیا۔نرم ہندوتوا کے حامی کیجریوال کو شرابیوں کی یہ خیرخواہی
مہنگی پڑ گئی۔ اس نئی پالیسی کو لے کر22 جولائی 2022 کو دہلی کے ایل جی وی
کے سکسینہ نے منیش سسودیا کے خلاف سی بی آئی کو تفتیش کی اجازت دے دی۔ سی
بی آئی تو خیر ضابطوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگا رہی ہے لیکن بی جے
پی والے غلط طریقہ سے شراب کے ٹھیکیداروں کے 144 کروڈ معاف کرنے کی بات
کررہے ہیں۔گزشتہ سال 19؍ اگست کو سی بی آئی نے ایکسائز محکمہ میں چھان بین
کے دوران کوئی مشین پکڑی۔ اس سے دستاویز کو کسی اجنبی نیٹ ورک پر بھیجنے کا
پتہ چلا ۔ ایک افسر کی اطلاع کے مطابق اس نیٹ ورک کو امسال وسط جنوری میں
سسودیا کے دفتر سے برآمدکیا گیا۔ اس کے اندر سے زیادہ تر فائلوں کو نکال
دیا گیا تھا مگر سی بی آئی ان کا پتہ لگا لیا۔
سی بی آئی کی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ کمیٹی کی تجویز کردہ ۶ فیصد
کمیشن کو بارہ فیصد کردیا گیا۔ اس بابت سسودیا نے کسی جانکاری کا انکار
کردیا اور تفتیش میں مدد نہیں کی نیز کئی موبائل ضائع کردیئے۔ یہ سارا
معاملہ دنیش اروڑا نامی ایک تاجر کے عآپ کو بیاسی لاکھ چندہ دینے سے سامنے
آیا ۔ اس سے متعلق شک ہے کہ اس کو چونکہ سسودیا نے فائدہ پہنچایا اس کے
عوض یہ امداد ملی۔ اتنی رقم تو مہاراشٹر کے ایک رکن اسمبلی کو خریدنے اور
ملک بھر کی سیر کرانے پر خرچ ہوگئی ہوگی اوراڈانی کو جو دیا گیا وہ تو اس
سے کروڈ گنا زیادہ ہے ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت کی یہ سختی حیرت انگیز
ہے۔ مہاراشٹرکے ایکناتھ شندے کی طرح بی جے پی نے منیش سسودیا پر ڈورے ڈالنے
کی کوشش کی مگروہاں آپریشن لوٹس ناکام ہوگیا۔ وہ اگر کامیاب ہوجاتا تو صرف
ایک آدمی کے ٹوٹ جانے سے کیجریوال بے دست و پا ہوجاتے لیکن اب ان ذمہ
داریوں کے بہت سارے لوگوں میں منقسم ہوجانے سے خطرہ کم ہوگیا ہے۔ بہت سارے
لوگوں کو خریدنا اور ڈرانا آسان نہیں ہوتا۔
مودی جی کی یہ پیشنگوئی سچ ہوتی جارہی ہے کہ ای ڈی نے پورے حزب اختلاف کو
متحد کردیا ہے۔ شیوسینا (یوبی ٹی) کے رکن پارلیمان سنجے راوت نے سوال کیا
تھا کہ کیا بی جے پی کے اندر سب ہمالیہ سے آئے ہوئے سادھو سنت ہیں؟ اب
انہوں نے مہاراشٹر کے اندرایک زعفرانی سنت کا انکشاف کیا ہے۔ سنجے راوت کے
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی راہل کُل کی بھیما کوآپریٹیو شوگر
فیکٹری پانچ سو کروڈ کی ہیرا پھیری ہوئی مگر ای ڈی اس کی جانب نہیں جاتی۔
راہلُ کُل نے کسی بنک کا نہیں بلکہ غریب کسانوں کے ساتھ غبن کیا ۔ اس بابت
راوت نے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو خط لکھ کر 17شکایتیں کرکے سی بی
آئی جانچ کا مطالبہ کیا لیکن اگر وہ تفتیش کرے بھی تو کلین چِٹ دینے کے
علاوہ کچھ اور کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ موجودہ سرکار میں بی جے پی کےبدعنوان
حامیوں کے ساتھ سنت مہاتما جیسا سلوک ہوتا ہے۔شیو سینا (ادھو) کے رکن
پارلیمان سنجے راوت نے منیش سیسودیا کے خلاف کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے
کہا تھا کہ مرکزی حکومت اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
سنجے راوت نے بی جے پی سے دھمکی آمیز انداز میں کہا تھاکہ، "جس طرح بی جے
پی اپوزیشن کے رہنماؤں کو گرفتار کر رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ مستقبل میں جب
بی جے پی کے رہنما اقتدار سے باہر ہوں گےاورانہیں بھی اسی طرح ستایا یا
گرفتار کیا گیا تو ان کی مدد کرنے کے لیے کون آئے گا؟‘‘ اقتدار کے نشے میں
چور بی جے پی کے لیے یہ سوال بے معنیٰ ہے لیکن جب نشہ اترے گا تو سب پتہ
چلا جائے گا۔
|