ملک کی مخدوش سیاسی صورتحال اس وقت اپنے نقطہ عروج تک
پہنچنے والی ہے اور ایسے میں عدالتی بحران جلتی پر تیل کا کام کررہا ہے،
پاکستان کے عوام کو ایک امید ہوتی تھی کہ شائد اعلیٰ عدلیہ ان کے دکھوں کا
مداوا کرسکتی ہے لیکن آئینی بحران نے عوام کی رہی سہی امیدوں پر بھی پانی
پھیر دیا ہے۔
پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں پہلے 9، پھر5، پھر 4 اور
پھر3 رکنی بینچ نے پوری دنیا کو پاکستان پر نکتہ چینی کا موقع دیا اور آج
دنیا ہمارا مذاق اڑارہی ہے۔
ملک میں مہنگائی اپنے تمام ریکارڈ توڑ چکی ہے، غریب دووقت کی روٹی کیلئے
محتاج ہوچکا ہے لیکن ملک میں جاری تفرقہ بازی سے قوم تقسیم در تقسیم ہوتی
جارہی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے تمام منظر نامے کا بخوبی احاطہ کرکے اس بات
کی طرف اشارہ دیا ہے کہ اس قسم کے واقعات ملک و قوم کیلئے انتہائی تشویشناک
نہیں بلکہ بھیانک ہوتے جارہے ہیں۔
سپریم کورٹ ہو یا کوئی بھی قومی ادارہ جس کے فیصلے پورے ملک پر اثر رکھتے
ہوں ایسے ادارے کو انا سے بالاتر ہوکر بردباری اور تحمل سے فیصلے اور
اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ لوگوں میں تفرقہ نہیں بلکہ اتفاق پیدا ہو۔
جہاں تک سوموٹو نوٹس کا تعلق ہے تو آرٹیکل 184/3 کے اصول وضوابط کو مد نظر
رکھنا بھی بیحد ضروری ہے۔ازخود نوٹس لینے سے پہلے پٹیشن اور درخواست گزار
کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حساس معاملات میں بہت پھونک
پھونک کر قدم اٹھانا چاہیے لیکن افسوس کہ اہم مسائل کو انا کی بھینٹ چڑھایا
جارہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور
کرلیا گیا ہے جس کو اگر صدر مملکت منظور نہیں بھی کرتے تو بھی 10 روز میں
یہ قانون نافذ العمل ہوجائیگا۔نئے قانون کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات میں
کافی کمی آئیگی کیونکہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ توہین عدالت
یا ازخود نوٹس کی صورت میں یہ بل منظور ہونے کے بعد حکومت کا کافی مدد مل
سکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مخالفین ان
سے خوفزدہ ہیں ، عمران خان کے مخالفین کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر عمران خان
2 تہائی اکثریت سے اقتدار میں آگئے تو ان کیلئے زندگی تنگ کردی جائیگی اور
جب تک یہ تاثر قائم رہتا ہے اس وقت تک سیاسی استحکام مشکل ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کا یہ بیان کہ یا عمران خان رہیں یا ہم
رہیں گے، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مخالفین عمران خان کے رویئے سے پریشان
ہیں اور ہرممکن کوشش کی جارہی ہے کہ الیکشن کو کسی نہ کسی طرح آگے بڑھایا
جائے کیونکہ گزشتہ روزپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کو فنڈز
دینے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا
جس سے لگتا ہے کہ حکومت کا فی الحال الیکشن کروانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کے ان مخدوش حالات میں کچھ پس و پیش کے بعد الیکشن
کا اعلان کردیا جائے کیونکہ ہمیں یہاں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
پاکستان کے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے اور جب تک ملک
میں سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معیشت کی دگرگوں صورتحال بہتر ہونا مشکل
ہے۔
یہ درست ہے کہ قومی سلامتی کونسل ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے متحرک
ہے لیکن جب تک سیاسی عدم استحکام کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا تب تک
بہتری کی امید کرنا آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
آئی ایم ایف سے قرضے لینے سے پہلے اس کا طریقہ کار سمجھنا ضروری ہے کیونکہ
قرضوں کے پروگرام کے پس پردہ کئی سیاسی، سماجی، علاقائی اور جغرافیائی
عوامل ہوتے ہیں۔امریکا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو پس پردہ سیاسی اور
عسکری مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
ماضی میں ہم افغانستان میں امریکا کی جنگ میں اتحادی رہے جس کی وجہ سے
عالمی مالیاتی ادارہ ہماری طرح ٹیڑھی نظروں سے دیکھنے سے گریز کرتا تھا
لیکن اب وہ حالات نہیں رہے ۔
ملک کے حالات جس زبوں حالی کی سمت گامزن ہیں ایسے میں ممکن ہے کہ
سیاستدانوں اور حکمرانوں کو سنگینی کا ادراک ہوچکا ہوگا جیسا ہم نے دیکھا
کہ چند ماہ قبل سری لنکا میں جب معاشی بحران آیا تو لوگوں نے سیاستدانوں
کو گھروں سے نکال کو جو حال کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان میں بھی حالات اس نہج پر پہنچتے نظر آرہے ہیں جہاں عوام کے ہاتھ
اور حکمرانوں و سیاستدانوں کے گریبان ہونگے، ہمیں سری لنکا جیسے حالات سے
بچنے کیلئے سب سے پہلے ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا ہوگا
کیونکہ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہوگا معاشی استحکام بھی نہیں آئیگا اور
اگر حالات ایسے ہی رہے تو آنےوالی تباہی کو سنبھالنا بہت مشکل نہیں بلکہ
ناممکن ہوسکتا ہے ۔
اقتدار اور سیاست کے ایوانوں میں موجود ذمہ داران کو عقل کے ناخن لینا
ہونگے اور ملک کو سنبھالنے کیلئے صدق دل سے کوشش کرنا ہوگی ورنہ ہمیں سری
لنکا سے بھی بدتر حالات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
|