مسئلہ یہ ہے کہ

یہ مضمون اپنے شہر کو انتظامی لحاظ سے صاف ستھرا اور پر امن بنانے کے حوالے سے ہے

مسئلہ یہ تھا کہ شارق کا شناختی کارڈ بنوانا ہے.!

یہ مطالبہ پچھلے کئی ہفتوں سے دھیمے سروں میں چل رہا تھا لیکن اب جبکہ اس کی اٹھارویں سال گرہ میں چند دن رہ گئے تھے اس کی ہر بات اس سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہورہی تھی.. اصل میں اس کی بات بھی درست تھی! شناختی کارڈ کی اسے فوری ضرورت یوں تھی کہ جہاں بھی جاؤ اس کی طلب ہوتی اور اسے یہ کہتے ہوئے شر مندگی سی ہوتی جب طلبگار اس کے ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے شبے کا اظہار کرتا ۔۔۔

لیکن جب گھر میں اس کو یہ سننا پڑا کہ اسی دن بنوانا کوئی ضروری نہیں ہے تو اس نے منطق گھڑی کہ میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا مجھے آفس معلوم ہے..اس بات پر ابو کا دماغ گھوم گیا کہ تم نے کیا سمجھ رکھا ہے تم جاؤگے اور جھٹ پٹ بنوالوگے؟. درجنوں چیزیں چاہیئں اور پھر وہ کسی قابل اعتبار فرد کو بلائیں گے.

یہ بات سن کر صبا کو چھیڑنے کا موقع مل گیا.. ہاں تم تو شکل سے ہی ناقابل اعتماد لگتے ہو.... بات دبے سے کہی تھی مگر شارق تک پہنچ گئی. ابھی میدان جمانے کا موقع نہیں تھا لہذا خاوش رہا ۔ ابو نے نرمی سے کہا. دوچار دن رک جاؤ.. اس دوران انکشاف ہوا کہ عظمیٰ آپا کے شناختی کارڈ کی میعاد بھی ختم ہورہی ہے ۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ دونوں کام ساتھ ساتھ ہوگا۔

دودن بعد شارق ابو ، امی اور عظمٰی آپا کی ہمراہی میں نادرا آفس پہنچا تو سڑک پر لمبی قطار دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ گئیں ۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ گیٹ پر نادرا کے کارکنان اس کا استقبال کریں گے ! بے چارہ بچہ ! جسمانی اور طبعی لحاظ سے کتنا ہی بڑا ہوگیا تھا مگر ابھی اسکول کی سطح پر ہی تھا کہ کالج کا پورا زمانہ تو کرونا کی وجہ سے آن لائن پڑھائی پر گزرا تھا ۔

اندر جاتے ہوئےابو شارق کو قطار میں لگنے کا کہہ کرخود ٹوکن لینے کاؤنٹر کی طرف بڑھے۔ عظمی ٰ آپا کو معمر شہری ہونے کے باعث فوری اندر بلوا لیا گیا ۔ شارق چونکہ گیٹ سے بھی باہر تھا ۔ اس لیے وہ اس بات سے لا علم رہا ۔ وہ تو جب کارندے نے اس کے نام کا اعلان کیا تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کردفتر میں داخل ہونے لگا ۔ لیکن پیچھے سے لوگوں نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہ تو دھاندلی ہے ! وہ ان سب کے احتجاج کو نظر انداز کرتا ہوا اندر پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ سہولت اس کے لیے نہیں ۔ ابو کو تو عملے نے مہذب انداز میں منع کردیا لیکن شارق کو تو باقاعدہ جھڑکی سننی پڑی جب احتجاج کرنے والے گروپ کی شکل میں دفتر کے دروازے پر شور مچا رہے تھے۔ ابو اور شارق باہر نکلے تو ان کو کچھ سکون ملا۔

حسب توقع عظمیٰ آپا بہت جلد ی فارغ ہوگئیں لیکن شارق کے لیے تو ابھی ہنوز دلی دور است والا معاملہ تھا ! چنانچہ طے یہ پایا کہ اسے چھوڑ کر بقیہ لوگ واپس چلے جائیں اور اس وقت آئیں جب اس کی باری آنے والی ہو ، لیکن عظمیٰ آپا اس کی دلجوئی کے لیے وہیں رک گئیں ، یہ اور بات ہے کہ وہاں بھانت بھانت کے لوگوں سے باتیں کرنے کا بہترین موقع وہ بھلا کیسے ضائع کرسکتی تھیں ! اور یوں بہت جلد انہوں نے یہاں بھی اپنے گرد خواتین جمع کر لی تھیں ۔جن سے گفت و شنید کر کے کئی لوگوں سے روابط بنالیے تھے اور حسب عادت ان کے مسائل سے آگاہ ہوکر کچھ نہ کچھ حل بھی پیش کر رہی تھیں ۔

ایک لڑکا جو اپنے والد کے ساتھ شناختی کارڈ کے لیے آیا ہو اتھا اس کا مسئلہ یہ تھا کہ والدہ کا کارڈ بھی مانگا جا رہا تھا جبکہ اس کی ماں علیحدگی اور دوسری شادی کے بعد رابطے میں نہیں تھیں ۔ عظمیٰ آپا نے صرف ہمدردی نہیں کی بلکہ اس لڑکے سے ماں کا فون نمبر لے کر بات کرکے تعاون کی درخواست تجویز دی۔ جس کے لیے وہ لوگ بہت مشکور تھے۔ یہ سب دیکھ کر شارق دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بحث و مباحثہ کر کے اپنی بھڑاس نکال رہا تھا۔ گرمی کی وجہ سے ویسے ہی نڈھال تھا۔ اتنے میں ایک فیملی نے جس کی دستاویزات نامکمل تھیں اپنا ٹوکن شارق کو دینے کا عندیہ دیا جو شارق نے بخوشی قبول کرلیا اور یوں وہ اپنی باری سے بہت پہلے اپنی کاروائی مکمل کرسکا۔ یہاں اس کو عظمیٰ آپا کی بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ نیکی کا اجر صرف آخرت میں میں نہیں ملے گا بلکہ دنیا میں بھی مل جاتا ہے کیونکہ اللہ سریع الحساب بھی ہے ! یہ ضروری نہیں کہ ہم جس کے ساتھ نیکی کریں وہی بدلہ دے ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین ہفتے بعد شارق کو شناختی کارڈ موصول ہوگیا ۔ اب اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا کہ اس کا شمار بھی معتبر شہری میں ہوگیا ہے گویا دوسروں پر انحصار کم سے کم ہوگا ۔ جہاں اور جو پڑھنا چاہے گا وہ پڑھ سکے گا ! ڈرائیونگ لائسنس مل جائے گا اور سب سے بڑھ کر ووٹ دے سکے گا لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کی نہ صرف ذمہ داری بڑھ گئی ہے بلکہ مصائب میں اضافہ ہوگیا ہے ! مثلا جب تک اس کے پاس کارڈنہیں تھا اسے کہیں دور جانا ہوتا تو اسے چھوڑنے لانے کی ذمہ داری کسی اور کے پاس ہوتی اورقریب میں سفر کے لیے سائیکل ہوتی ۔ ذرائع نقل و حمل کے ضمن میں شارق نے نصابی کتب میں جو سواریاں پڑھی تھیں ان میں سے چنگجی رکشوں کا ذکر ضمنا ہی تھا مگر فی الحال تو صرف یہ ہی اس کی دسترس میں تھی۔ موٹر سائیکل پر جامعہ جانے کا خواب ابھی تک ا دھورا تھا کیونکہ یہ تو ہنوز بڑے بھائی کے زیر استعمال تھی۔

جہاں تک پڑھائی کا معاملہ تھا، بڑے بھائی یاسر اور عرفان بھائی کے تجربے کے بعد شارق سے کسی کو کوئی امید نہ تھی! کیا مطلب ؟ دونوں ناکارہ نکلے ! جی نہیں ! وہ دونوں تو شاندار نمبروں سے انجینئر نگ یونیورسٹی میں داخل اور اپنی مرضی سے نئی ٹیکنالوجی پڑھ رہے تھے ! جی جی ! یہ ہی بات تھی ! پھر کیا ہوا ؟ وہ ٹیکنالوجی ہی متروک ہوگئی۔ اب کیا کرتے ؟ عرفان نے تو کسی اور مضمون میں داخلہ لے لیا تھا جبکہ یاسر نے ملازمت ڈھونڈنی شروع کر دی تھی ۔بہت دنوں تک جوتیاں چٹخانےکے بعد آجکل وہ بائیکیا کا کام کر رہا تھا جس کےلیے موٹر سائیکل ضروری تھی ۔ تو جب اتنا شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھنے والوں کی یہ صورت حال تھی تو شارق جیسے طالب علم کے لیے کیا ارمان یا مواقع ہوتے خیر اپنی مارک شیٹ کے بل بوتے پراس کا داخلہ شعبہ جر میات میں ہو ہی گیا تھا ۔ جس پر صبا نے اسے جاسوس کا لقب دے دیا تھا ۔ جوابا اسے نفسیاتی کا خطاب مل چکا تھا کیونکہ وہ شعبہ نفسیات میں تھی۔ گویا اب جامعہ میں داخل تینوں لڑکیوں یعنی ہبہ، ماہا ، صبا کے بعد شارق بھی اس کلب کا حصہ بن گیا تھا جو جامعہ کے ہزاروں طالب علموں کی طرح پوائینٹ کی بسوں کے ذریعے پہنچتا تھا ۔ سفری مشکلات تھیں کہ بڑھتی ہی جارہی تھیں چنانچہ ان کی گفتگو اسی کے گرد گھومتی تھی ۔

آج کھانے پر وہ سب اسی موضوع پر اپنے دکھڑے سنانے میں مصروف تھے کہ عظمیٰ آپا بول پڑیں ۔

" ۔۔۔۔۔ایک ہمارا زمانہ تھا ۔ سو سے زیادہ بسیں ایک وقت میں جامعہ سے نکلتی تھیں ۔۔۔۔۔۔" انہوں نے تائیدی نظروں سے بہن کو دیکھتے ہوئے کہا ۔

" ہیں ۔۔۔؟؟ " وہ سب بیک وقت بول اٹھے۔ "۔۔۔۔۔یہ انتظام کون کرتا تھا ؟۔۔۔" شارق نے پوچھا

"۔۔۔طلبہ یونین ہوتی تھی ۔۔۔! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔" عظمیٰ آپا کی تفصیلات وہ سب آنکھیں پھاڑے سن رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' ۔۔۔ہر شعبہ کی الگ الگ بھی یونین ہوتی تھی کہ وہاں کے مخصوص معاملات چلا سکے ۔۔۔۔" جیساکہ بلدیاتی نظام ہوتا ہے کہ ہر محلے کی ایک یونین ہو ۔۔۔۔۔۔"

"۔۔۔ اچھا یعنی ہمارے تمام شہری مسائل کے لیے بلدیاتی انتخاب ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔" سب نے متفقہ طور پر یہ بات کی بنا کسی جھگڑے کے !

اگلے چند دنوں میں بلدیاتی انتخاب کی باز گشت سنائی دی جس پر ان نئے نویلے ووٹرز کی دلچسپی دیدنی تھی اور جوش و خروش میں مزید اضافہ ہوا جب یاسر نے بطور کونسلر انتخاب لڑنے کو فیصلہ کیا۔ سیاسی گہما گہمی عروج پر تھی جب یوم انتخاب سے چند گھنٹے پہلے اسے طوفانی بارش کی پیشن گوئی کے باعث ایک ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان ہوا۔ سب بہت تلملائے مگر اس دن واقعی اتنا جل تھل تھا کہ گھر سے نکلنا واقعی ناممکن تھا ۔ اور یوں اس التوا پر سب نے شکر ادا کیا ۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سےمیمیز اور لطیفے بن رہے تھے۔ مگر پورے ملک میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب آگیا تھا ۔ اور انتخابی مہم چھوڑ چھاڑ سب امدادی سر گرمیوں میں لگ گئے ۔ اور یوں انتخاب ایک دفعہ پھر التوا کا شکارہوگئے ۔ اور پھر یہ سلسلہ ایک دفعہ پھر دہرایا گیا! گویا التوا کی ہیٹ ٹرک ہوچکی تھی ۔

نوجون ٹولہ انتخاب سے مایوس ہوچکا تھا۔ اور آج اس بیزاری کے عالم میں یہ ہی بات کر رہے تھے۔ سب اپنی بھڑاس زور و شور سے نکال رہے تھے۔ ایسے میں عظمیٰ آپا اپنے موبائیل کی تلاش میں آ نکلیں جو اس وقت جبران کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے بحث کا رخ موڑ دیا یہ کہہ کر کے !

" ۔۔انتظام اور خدمت اقتدار سے مشروط تو نہیں ہے ۔۔۔۔؟ " سب پر تجسس ہو کر سوچ میں پڑگئے ۔

" بھئی جو کام تمہیں کونسلر بن کر کرنا ہے اس سے پہلے ہی شروع کردو ۔۔۔ بظاہر تو وہ یاسر سے مخاطب تھیں لیکن سامعین میں سب شامل تھے

''۔۔۔۔محلے کی صفائی ستھرائی، مسائل ، پارک کی بحالی وغیرہ پر اہل محلہ کو یکجا کر کے کچھ نہ کچھ کار کر دگی دکھاؤ ۔۔۔۔۔" یہ ان کی گفتگو کا نچوڑ تھا ۔ انہوں نے ماحول کی صفائی اور آگہی کے متعلق بہت سے مفید مشورے ، معلومات اور رہنمائی دی جو ان سب میں امید کی لہر بن کر دوڑ گئے !

آپ کے خیال میں کیا تجاویز اورعملی کام ہوسکتے ہیں ؟؟
 

Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80532 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.