حالیہ دنوں متعدد ممالک کے رہنماؤں نے چین کے دورے کیے
ہیں اور چینی صدر شی جن پھنگ سمیت دیگر اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔اس
دوران دوستانہ مصافحے، وسیع تر اتفاق رائے اور ٹھوس نتائج کے ساتھ، موسم
بہار میں بیجنگ کی گہری سفارتی مہم نے عالمی برادری کو بات چیت، امن اور
تعاون کا ایک واضح اور حوصلہ افزا پیغام بھیجا ہے، جو بڑھتی ہوئی غیر یقینی
صورتحال اور خطرات سے دوچار دنیا کے لئے انتہائی اہم ہے۔ مارچ کے اواخر سے
اپریل کے اوائل تک اسپین، ملائیشیا، سنگاپور، فرانس اور یورپی یونین (ای یو)
کے رہنماؤں نے چین کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مستحکم کرنے کے لیے بیجنگ کے
دورے کیے۔
بیجنگ کا مصروف سفارتی ایجنڈا ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب عالمی معیشت
مسلسل افراط زر اور سست نمو کے تخمینوں کے ساتھ مایوس کن نقطہ نظر سے دوچار
ہے۔ عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ اگر پالیسی سازوں کی جانب سے پرعزم
اقدامات نہیں کیے گئے تو عالمی معیشت کے لیے ایک "کھوئی ہوئی دہائی" کا
سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اس تناظر میں حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والی بوآو
فورم فار ایشیا کی سالانہ کانفرنس سے لے کر تیسری چائنا انٹرنیشنل کنزیومر
پروڈکٹس ایکسپو تک، چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی اور اعلیٰ معیار کے کھلے پن
کی جستجو سے نہ صرف اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عالمی معیشت کی بحالی
اور تحفظ پسندی کی لہروں کے درمیان عالمی سرمایہ کاروں کو بھی اپنی جانب
راغب کیا گیا ہے۔ویسے بھی چین نے 2023 میں اپنی اقتصادی ترقی کا ہدف
تقریباً 5 فیصد مقرر کیا ہے جو عالمی معاشی بحالی کے لیے بھی ایک توانا
پیغام ہے کیونکہ عالمی شرح نمو میں کمی اور بین الاقوامی تجارت میں سست روی
کی وجہ سے معاشی بحران اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک کو متاثر کر رہا ہے۔ ان
چیلنجز نے دنیا کے کئی ممالک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بھی متاثر کیا ہے
جبکہ چین دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے مثبت شرح نمو برقرار
رکھی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کے تعاون اور عملی کردار کی بدولت ایشیا
میں علاقائی اقتصادی انضمام گزشتہ برسوں کے دوران مضبوط ہوا ہے ، علاقائی
معیشتوں کے مابین تجارتی انحصار نسبتاً اعلی سطح پر پہنچ چکا ہے اور آسیان
اور چین تجارت اور مینوفیکچرنگ کے مراکز کے طور پر کردار نبھا رہے
ہیں۔دوسری جانب چین کی جانب سے اعلیٰ معیار کے کھلے پن اور چینی جدید کاری
کی غیر متزلزل کوششوں سے دیگر دنیا بالخصوص چین کے ہمسایہ ممالک کی ترقی کے
نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
اسی طرح ایک ذمہ دار بڑے ملک کی حیثیت سے چین کی مفید اسپرنگ ڈپلومیسی کی
مزید بات کی جائے تو تازہ ترین مثال سعودی عرب اور ایران کے مابین برسوں کی
مخاصمت کے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی ہے جس کے لئے چین نے کامیاب ثالث کی
سہولت فراہم کی ہے ، جو مشرق وسطی کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک بہت
بڑی پیش رفت ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ میں مشرق وسطیٰ کے دونوں ممالک
کے درمیان مصافحہ ، مذاکرات اور امن کی فتح کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے اچھی
خبر ہے جو امن کے فروغ میں چین کے تعمیری کردار کو ظاہر کرتا ہے۔روس۔
یوکرین تنازع کے حوالے سے چین نے حقائق کی بنیاد پر اپنا موقف اور پالیسی
بیان کی ہے، معروضیت اور انصاف کو برقرار رکھا ہے اور ہمیشہ فعال طور پر
امن مذاکرات کو فروغ دینے کی حمایت کی ہے۔چین نے تنازع کو ختم کرنے کے لئے
12 نکاتی تجویز بھی پیش کی ، اور بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے تنازع کو
ختم کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا ہے۔چین کا موقف بالکل واضح ہے کہ ہمیشہ
انصاف کے لئے کھڑا رہا جائے،تمام متعلقہ فریقوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی
چاہئیں اور سیاسی تصفیے کے لیے حالات پیدا کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی
چاہئیں۔وسیع تناظر میں چین آج بھی اپنی سفارت کاری میں امن و استحکام کے
لیے کوشاں ہے اور چاہتا ہے کہ ایک ایسی دنیا کی تعمیر کی جائے جہاں ترقی و
خوشحالی ہر ایک کے مقدر میں ہو اور کسی بھی تنازع کے باعث عوام کو مصائب نہ
برداشت کرنے پڑیں ، یہی ایک مثبت اور تعمیری سوچ کے حامل چین کا خاصہ ہے۔
|