پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ۰۰۰ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ کی حکومت اور الیکشن کمیشن میں کتنی اہمیت

پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے سلسلہ میں ایسا محسوس ہوتا ہیکہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔سپریم کورٹ میں ان دو صوبوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرنے والا پانچ رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔ جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے لئے عمر عطا بندیال کی سربراہی پانچ رکنی بینچ کمرہ عدالت میں آیا۔ چیف جسٹس نے نشست پر بیٹھتے ہی کہا کہ’ پہلے ہمارے دوست جج جسٹس امین الدین خان کچھ کہنا چاہتے ہیں‘۔ جسٹس امین الدین خان جو پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل ججزمیں سب سے جونیئر بتائے جاتے ہیں نے کہا کہ ’’نہایت قابل اخترام چیف جسٹس کی اجازت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوموٹو اختیار اور بینجز کی تشکیل کے حوالے سے جو فیصلہ دیا تھا اُس میں اُن کے ساتھ شامل ہوں، اپنے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہوں اس لئے اس مقدمے کی مزید سماعت سے معذرت خواہ ہوں‘۔ جسٹس امین الدین خان کے بعد جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی مقدمے کی سماعت سے معذرت کرلی۔ ان دونوں معزز ججس کی بینچ کی علحدگی کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے اور اگر ضرور ت پڑی تو مسلح افواج کو بھی بلوا ئیں گے ۔ انتخابات التواء کیس میں جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز واضح ہیں 184/3 کے مقدمات2سے زائد رکنی بینچ سنے گا، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے فریقین وہ ہیں جو حکومتیں چلاتے ہیں ، ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے 3 ایشو پر بات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،سوموار تک فریقین کو سوچنے کا موقع دیا جائے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 2021 کے از خود نوٹس والے عدالتی فیصلے کو پڑھیں ،فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے ،حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے ،سپریم کورٹ کہہ چکی ، چیف جسٹس بینچ بنانے کے ماسٹر ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی نیت من پسند ججز کو ذکر کرنے کی نہیں تھی ، عدالت کے باہر درجہ حرارت بہت زیادہ ہے ،تمام ججز کے لکھے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کسی مقابلہ حسن میں نہیں ، عدالت میں بیٹھتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات کیلئے وسائل ہم فراہم کریں گے ، ضرورت پڑی تو آرمڈ فورسز کو بھی بلوائیں گے ،سپریم کورٹ نے سیکریٹری دفاع ، سیکریٹری خزانہ کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ پیر کے روز تین رکنی بینچ کیا فیصلہ کرتا ہے ۰۰۰ دونوں ریاستوں میں انتخابات کب ہوتے ہیں ۔ حکومت اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ کے فیصلہ کو مانتی ہے یا اگر نہ ماننے کی صورت میں حالات کیا اختیار کرتے ہیں ۰۰۰

اس سے قبل سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن پروگرام کیسے تبدیل کرسکتا ہے، آئین میں واضح ہے پولنگ کی تاریخ کون دے گا، کیاالیکشن ایکٹ کا سیکشن 58آئین سے بالاتر ہے۔ اس سلسلہ میں مزید عدالتی کارروائی آگے بڑھ چکی ہے ۔ 29؍ مارچ کوسپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 20سال سے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ بتایاجاتا ہیکہ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ کمشین کو بتایاگیا تھا کہ فوج کی تعیناتی کے بغیرالیکشن کو سیکوریٹی فراہم کرنا ناممکن ہوگا، اسپیشل سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پر امن انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکتا، سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنارکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہیکہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا پاکستانی حکومت اور فوج ان دہشت گرد تنظیموں کے آگے ناکام ہوچکی ہے۔پاکستانی وفاقی حکومت نہیں چاہتی کے ان دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں اسی لئے کسی نہ کسی بہانے کے تحت انتخابات کو ملتوی کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں اب دیکھنا ہیکہ سہ رکنی بینچ کے فیصلہ مانتی ہے یا نہیں اگر نہ ماننے کی صورت میں حالات بگڑسکتے ہیں۰۰۰

عمران خان ۔ کوئی روک سکے تو روک لو
سابق وزیر اعظم و چیئرمین تحریک انصاف پاکستان عمران خان کے ساتھ عدلیہ کا معاملہ ایک مذاق یا کھیل کی شکل اختیارکرتا جارہا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلائے جانے والے ملک میں ایسا محسوس ہوتا ہیکہ عدالتی نظام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اسلام نے ججس (قاضیوں)کو جو اہمیت و اختیار دیا ہے اور انکے ذریعہ قاضیوں کے فیصلے حق و صداقت کے آئنہ دار ہواکرتے تھے۔ خلیفہ وقت بھی قاضی کے سامنے ملزم کی حیثیت سے پیش ہوتے تو انکے ساتھ بھی وہی معاملہ روا رکھا جاتا تھا جس طرح ایک عام ملزم کے ساتھ ہونا چاہیے۰۰۰ گذشتہ چند برسوں کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی اسلامی ممالک بشمول پاکستان میں عدلیہ حکمرانوں کے اشاروں پر فیصلے صادر کررہی ہیں اور اسی کے ذریعہ سزائیں بھی دی جارہی ہیں۔ عمران خان گذشتہ سال پاکستانی وزیر اعظم کی حیثیت سے ان ہی کے مطابق امریکی سازش کے تحت مستعفی ہوگئے۔وزارتِ عظمیٰ سے علحدگی کے بعد سے عمران خان کو موجودہ متحدہ جماعتوں کی شہباز شریف حکومت میں عدلیہ کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ انہیں مختلف الزامات کے تحت درجنوں کیسز میں ملوث کردیا گیا ہے ۔ اسلام نے عدلیہ کے سامنے بھی حق و باطل کو پیش کرنے اور اگر قاضی وقت انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے تو اس پر بھی ایک عام مسلمان کو کہنے کا حق دیا ہے ۔ عمران خان نے بھی بعض فیصلوں پر شاید ججس یا عدلیہ کے خلاف لب کشائی کی جس کے نتیجہ میں انہیں تحقیر عدالت یا جج کو دھمکانے یا پھر دہشت گردی کا لیبل لگاکر مزید الزامات کے تحت پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان کے خلاف 29؍ مارچ کو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے ہیں۔سول جج ملک امان نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عمران خان کی چہارشنبہ 29؍ مارچ کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں 18؍ اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔عمران خان پر یہ کیس اُس وقت عائد کیا گیا تھا جب 20؍ اگسٹ 2022کو شہباز گل کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد میں ریلی نکالی گئی تھی، اس موقع پر بتایا جاتا ہیکہ عمران خان نے تقریر کرتے ہوئے پولیس افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘‘۔ جبکہ انہوں نے شہباز گل کا ریمانڈ منظور کرنے والی خاتون جج کا نام لیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ وہ نتائج کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس بیان کے بعد اسی روز تھانہ مارگلہ میں عمران خان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا ، عمران خان نے گذشتہ برس 7؍ ستمبر کو خاتون جج کو دھمکیاں دینے کے معاملے پر اپنے دوسرے جواب میں افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ اس وقت انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 19صفحات پر مشتمل جواب نامہ جمع کرایا تھا۔ اس کے جواب میں عمران خان کی جانب سے جج زیبا چودھری سے متعلق کہے گئے الفاظ پر ندامت کا اظہار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2؍ اکٹوبر 2022کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔ اس وقت عمران خان کی جانب ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری سے معافی مانگنے کی پیشکش پر سابق وزیر اعظم کے خلاف فرد جرم کی کارروائی موخر کردی گئی تھی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اﷲ نے ریمارکش دیئے تھے کہ ’’ہمارے لئے توہین عدالت کی کارروائی مناسب نہیں، اگر آپ کو احساس ہوگیا ہے تو ہم آپ کو سراہتے ہیں‘‘۔ اُس وقت عدالتی کارروائی ختم ہونے کے بعد عمران خان نے عدالت کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقی آزادی کی جنگ مافیا کے خلاف لڑرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ :’میں نے جس سے جنگ نہیں لڑنی وہ پاکستان کی عدلیہ ہے‘۔ سابق وزیر اعظم سے جب پوچھا گیا کہ عدالتوں سے آپ کی جان کب چھوٹے گی تو انہوں نے کہا کہ ’فی الحال تو ایسا نہیں لگ رہا کہ جان چھوٹ جائے‘۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ اس کے بعد عمران خان پر مزید مختلف الزامات کے تحت کیسز عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ چہارشنبہ 29؍ مارچ 2023کو دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے تھانہ رمنا میں درج ایک مقدمے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرلی ہے۔ عدالت نے تھانہ رمنا میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کئے گئے مقدمے میں 50ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی ہے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اعظم کو توشہ خانہ کیس میں جس طرح گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی اورادھر اسلام آباد عدالت پہنچنے کے دوران انکے غیاب میں لاہور کے گھر پر پولیس نے جو توڑپھوڑ کی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی اسے دنیا نے دیکھا ہے۔ گذشتہ دنوں عمران خان کو مزید کامیابی اُس وقت ملی جب وہ مینار پاکستان میں جلسہ سے خطاب کرنے پہنچے ۰۰۰ تحریک انصاف کے کارکنوں اور پاکستانی عوام کو مینارِ پاکستان جلسہ گاہ پہنچنے سے روکنے کیلئے سیکوریٹی اہلکار اور پولیس نے وسیع تر بندوبست کیا تھا تقریباً تمام راستے بند کردیئے گئے تھے۔ صرف ایک راستہ کھلا رکھا گیا تھا اس کے باوجود عوام کا جوش و خروش دیکھنے کے لائق تھا ہزاروں کی تعداد میں رمضان المبارک کی رات بھی انکے چاہنے والے نعرے لگاتے رہے اور پاکستانی عوام نے یہ ثابت کردیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہیں اور وہ اصل آزادی پاکستان چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے صدر مملک پاکستانی کی اہانت
پاکستان میں صدر مملکت کی حیثیت موجودہ حکومت کی نظر میں کیا رہ گئی ہے اس بات سے واضح ہوجاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنااﷲ نے صدر عارف علوی کے وزیراعظم شہباز شریف کے نام خط کے جواب میں کہا ہے کہ ’صدر اپنے آئینی دائرے اور اوقات میں رہیں۔‘جمعہ24؍ مارچ کو وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رانا ثنااﷲ نے کہا کہ صدر ،عمران خان سے دہشت گردی کرنے کا جواب لیں اور ان کے حکم پر ’کٹھ پتلی‘ نہ بنیں۔انہوں نے کہا کہ ’آئین اور قانون شکن آئینی عہدے پر مسلط ہے۔ کلمے پڑھتے ہوئے سیاسی مخالفین پہ 15 کلو ہیروئن ڈال دی تھی، اْس وقت انسانی حقوق کہاں تھے۔‘واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط میں لکھا ہے کہ ’وزیراعظم متعلقہ حکام کو بروقت انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔‘ایوان صدر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق خط میں صدر نے کہا کہ ’توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیراعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔‘وزیر داخلہ کی جانب سے صدر مملکت عارف علوی کے عمران خان کا کٹھ پتلی بتایا ہے اس کے بعد پاکستانی عوام اور حکومت کے پاس انکے صدر کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ۔وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے صدر مملکت کے خلاف اہانت آمیز الفاظ کہے جانے کے باوجود عوام اور حکومت خاموش ہے۰۰۰

اسرائیلیوں کے درمیان لڑائی بھی فلسطینیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے
اسرائیلیوں کے درمیان لڑائی بھی فلسطینیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے فیصلوں کے خلاف ہی انکی کابینی رفقاء خلاف ہوگئے ہیں ۔ وزیر اعظم کے خلاف عوام کا احتجاج مزید زور پکڑتا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی متنازع عدالتی اصلاحات میں تاخیر نے پورے ملک میں افراتفری مچا رکھی ہے جسے ناقدین طاقت کے حصول کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔عرب نیوز کے مطابق وزیراعظم نے 30؍ اپریل کو پارلیمنٹ کے دوبارہ اجلاس تک قانون سازی روک دی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’جب بات چیت کے ذریعے خانہ جنگی سے بچنے کا موقع ہے تو میں بطور وزیراعظم مذاکرات کے لیے وقت نکال رہا ہوں۔‘نیتن یاہو نے مزید کہا کہ وہ عدالتی اصلاحات نافذ کرنے کے لیے پْرعزم ہیں لیکن انہوں نے ’وسیع پیمانے پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش‘ پر زور دیا۔اس اعلان کے بعد اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین کے سربراہ نے ایک عام ہڑتال ختم کر دی جس سے اسرائیل کی معیشت ٹھپ ہونے کا خطرہ تھا۔اس سے قبل ہزاروں اسرائیلی شہری ڈرامائی انداز میں باہر نکل آئے اور مظاہرے کی تحریک میں مزید شدت دیکھنے میں آئی جس کا مقصد اصلاحات کو روکنا تھا۔افراتفری کی وجہ سے ملک کا بیشتر حصہ بند کر دیا گیا تھا۔ مرکزی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی پروازیں روک دی گئی جبکہ شاپنگ مالز اور یونیورسٹیوں کے دروازے بند ہیں۔غیر ملکی مشنز کے سفارت کاروں نے کام بند کر دیا ہے اور ہسپتال کا طبی عملہ صرف ہنگامی سروسز فراہم کر رہا ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے عدالتی نظام میں ترامیم مسترد کرنے کی وجہ سے اتوار کو اچانک اپنے وزیر دفاع کو برطرف کر دیا تھا۔وزیر دفاع کی برطرفی کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور ایک مرکزی شاہراہ کو بھی بند کر دیا۔نیتن یاہو کا یوٹرن تناؤ کو کسی حد تک کم کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ’تاخیر کافی نہیں ہو گی۔‘منتظمین کے مطابق ’قومی مظاہرے اْس وقت تک شدت اختیار کرتے رہیں گے جب تک کہ قانون کو مسترد نہیں کر دیا جاتا۔‘اسرائیل کے عرب شہریوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کو نظرانداز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کی جمہوریت پہلے ہی مقبوضہ مغربی کنارے پر اس کی فوجی حکمرانی اور خود اسرائیل کے اندر ہونے والے امتیازی سلوک سے داغدار ہے۔‘ایک سینیئر فلسطینی رہنما نے عرب نیوز کو بتایا کہ وہ اسرائیل کے اندر بحران کو گہرا ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ’ہم نیتن یاہو کی مخالفت کی حمایت نہیں کرتے بلکہ دونوں فریقین کو کمزور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دونوں فریقین مقابلہ کریں گے کہ کون فلسطینیوں کو زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘اْن کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ میں اصلاحات کا معاملہ اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد مغربی کنارے کو کنٹرول کرنا ہے۔‘حالیہ ہفتوں میں عدالتی نظام میں ترامیم کے حوالے سے اسرائیل کی فوج کے اندر بھی عدم اطمینان اضافہ ہوا ہے جو ملک میں سب سے مقبول اور قابل احترام ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ جنگی ہوابازوں سمیت اسرائیل کی ریزور فوج نے بھی رضاکارانہ ڈیوٹی سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ نئی سخت گیر حکومت کی جانب سے متعارف کیے گئے اقدامات سے سپریم کورٹ کمزور اور عدالتی نگرانی محدود ہو جائے گی اور سیاستدانوں کو مزید اختیارات ملیں گے۔اور ان ہی اختیارات کا فائدہ اٹھاکر فلسطینی عوام پر مزید ظلم و زیادتی کی جاسکتی ہے اور انکی املاک کو مزید لوٹا جاسکتا ہے ۔

پاکستان قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات بل 2023منطور کرلی
عدلیہ میں آئے دن ججسز کی جانب سے بینچس کی تشکیل کا معاملہ ہو یا ازخود نوٹسس ۰۰۰ مسائل کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے اور ایسا محسوس ہورہا ہیکہ حکومت بھی عدلیہ سے ڈرو خوف کھائی ہوئی ہے کیونکہ عمران خان ابھی تک کسی بھی کیس میں حراست میں نہیں لیا جاسکا ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کو یقین تھا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کسی بھی صورت میں گرفتار کرلئے جائیں گے لیکن رانا ثناء اﷲ کا خواب ،خواب ہی رہ گیا۔خیر ۰۰۰ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات (سپریم کورٹ کارروائی ، قواعد و ضوابط) بل 2023مرحلہ وار منظور کرلیا گیا۔ پاکستانی جیونیوز کے مطابق ترمیمی بل (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ) میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے او راپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائے گا جب کہ کمیٹی میں چیف جسٹس او ردو سینئر ترین ججز ہونگے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہوگا۔آئین کی آرٹیکل 184/3کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر تین یا اس سے زائد ججز کا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ہوگا جبکہ بینچ کے فیصلے کے 30دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے ، دائر اپیل 14روز میں سماعت کیلئے مقرر ہوگی، زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کیلئے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کیلئے درخواست دینے کے 14روز کے اندر کیس سماعت کے لئے مقرر ہوگا۔بتایا جاتا ہے کہ اس بل کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو راحت مل سکتی ہے۰۰۰

 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255619 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.