کرناٹک کی نوٹنکی کا اینٹی کلائمکس؟

کرناٹک میں پچھلی بار12 مئی 2018 کو ووٹنگ ہوئی۔ اس میں جملہ 5.06 کروڈ رائے دہندگان میں سے 72.13فیصد نے ووٹ دیا ۔اس پر تقریباً10 ہزار 500 کروڈ روپئے خرچ ہوئے ۔ یہ خطیر رقم ایک انتخابی تماشے کی نذر ہوگئی یعنی ایک ووٹ 2884 روپئے کا پڑا۔ یہ سفید روپیہ ہے اس کے علاوہ جو کالا دھن لوگوں کو شراب پلانے اور دیگر نازونخرے اٹھانے پر صرف ہوا اس کا تو کوئی اندراج ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی ۔ بی جے پی کو 104 ،کانگریس کو 78 اور جنتا دل ایس نے 37 نشستوں پر کامیابی درج کرائی ۔گزشتہ مرتبہ چونکہ کانگریس اور جنتا دل نے مل کر الیکشن لڑا تھا اس لیے انہیں سرکار بنانے کا حق تھا لیکن گورنر صاحب نے بدمعاشی کرکے بی جے پی کے یدورپاّ کی حلف برداری اسی طرح کروادی جیسے مہاراشٹر میں صبح پانچ بجے فڈنویس کی تاجپوشی کردی گئی تھی ۔ اس طرح ایک ایسا شخص وزیر اعلیٰ بن گیا جس کو بدعنوانی کے الزام میں اقتدار چھوڑنا پڑا تھا اور اس کی عمر 76؍سال تھی یعنی اسے مارگ درشک منڈل میں ہونا چاہیے تھا۔یدو رپاّ کو گورنر صاحب نے خریدو فروخت کے لیے ایک مہینے کا وقت دے دیا جسے عدالت عظمیٰ نے ایک ہفتہ میں بدل دیا ۔ اس طرح چھٹے دن یدورپاّ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوکر لوٹ گئے۔ اس کے بعد کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر سرکار بنائی ۔ یہاں بھی بلیک میلنگ ہوئی کم نشستوں والے کمار سوامی وزیر اعلیٰ بن گئے مگر شاہ جی ہمت نہیں ہارے بلکہ اڈانی کے خزانے سےکروڈوں روپئے نکال نکال کر مخالف ارکان اسمبلی کو اپنی جانب رِجھاتے رہے ۔ 14؍ماہ کی انتھک کوشش کے بعد انہیں کامیابی ملی اور کچھ ضمیر فروشوں کی حمایت سے یدورپاّ 26 جولائی 2019 کو پھر سے اقتدار پر فائز ہوگئے ۔
کرناٹک کی ایک روایت تھی کہ وہاں ہر بار سرکار بدل جاتی تھی ۔ پچھلی بار بھی یہی ہوا تھا کہ کانگریس اپنے بل پر تو اقتدار میں نہیں آسکی مگر اس کی حلیف جے ڈی ایس کے ساتھ سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی اس لیے وزیر اعلیٰ ضرور بدلنا پڑا۔ یہ صورتحال بھی مستقل نہیں رہ سکی درمیان میں بی جے پی نے تختہ پلٹ کر یدورپاّ کو وزیر اعلیٰ بنادیا ۔ وہ بھی اپنی مدت کار پوری نہیں کرسکے اور بیچ میں ہی بڑے بے آبرو ہوکر رخصت ہوگئے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ پچھلے پانچ سال شدید عدم استحکام کی نذر ہوگئے۔ یدورپاّ کے بارے اچانک دو سال بعد بی جے پی کو ایسا لگا کہ یہ بزرگ رہنما اگلا انتخاب نہیں جیت سکے گا اس لیے ان کی جگہ ایک مخالف نظریات کے حامل بسوراج بومئی کو وزیر اعلیٰ بنایا حالانکہ بی جے پی اب بھر سے یدورپاّ کے آگے ہاتھ پسارے کھڑی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ عوام کو توقع تھی کہ ایماندار باپ ایس آر بومئی کا بیٹا کم از کم بدعنوان نہیں ہوگا مگر وہ تو چالیس فیصد تک ملوث ہوکر پے سی ایم کے طور پر مشہور ہوگیا۔ دراصل بی جے پی میں جاکر اچھا بھلا آدمی زور و شور سے کھانے کھلانے لگتا ہے اسی لیے لوگ اسے پیار سے اس کو بدعنوان جنتا پارٹی بھی کہہ کر پکارتے ہیں ۔

نئے وزیر اعلیٰ کے سنسکار چونکہ سیکولر تھے اس لیے ان سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بابت بڑی امیدیں وابستہ تھیں مگر سنگھ سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے بسوراج بومئی نے فرقہ پرستی کے میدان میں یوگی ادیتیہ ناتھ کو بھی مات دے دی۔ یہی حالت کانگریس سے بی جے پی میں جاکر آسام میں وزیر اعلیٰ بننے والے بسوا سرما کی بھی ہے کہ مسلمانوں کی دلآزاری میں دیگر بی جے پی وزرائے اعلیٰ سے بہت آگے ہیں لیکن کرناٹک میں تو اے بی پی سروے کے مطابق اب یہ حال ہے کہ صوبے کے 57فیصد عوام تبدیلی چاہتے ہیں ۔ گویا ہزارہا کروڈ روپئے پھونکنے کے بعد عوام کے حصے میں یاس و نامیدی کے سوا کچھ نہیں آیا ۔ الیکشن کمیشن نے پھر سے کرناٹک اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بار یہ معاملہ ایک مرحلہ میں یعنی 10؍ مئی کو نمٹ جائے گا نیز 13؍ مئی کو ووٹوں کی گنتی کی جائے گی ۔آج کل چونکہ ای وی ایم کی مدد سے انتخاب ہوتے ہیں اس لیے اسی دن نتائج کا اعلان ہو جائے گااور پھر نئے سرے سے سیاسی اٹھا پٹخ شروع ہوجائے گی ۔ عوام سانس روک کر اس کھیل کو دیکھیں گے اور سیاستداں دونوں ہاتھوں سے دولت بٹوریں گے۔

چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے اس بار یہ اعلان بھی کیا کہ کرناٹک میں 19-2018 کے مقابلہ پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 9.17 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔یہ ایسے نوجوان رائے دہندگان ہیں جو یکم اپریل تک 18 سال کے ہو کرکرناٹک اسمبلی انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ ایک زمانے میں اچھے دنوں کی امید میں نوعمر ووٹرس مودی جی جھانسے میں آجاتے تھے لیکن اب بیروزگاری سے پریشان یہ نوجوان نوٹا پر تو مہر لگا دیں گے مگر کمل کے قریب نہیں پھٹکیں گے۔ کرناٹک ایک ایسی ریاست ہے جہاں 100 سال سے زیادہ عمر کے ووٹروں کی تعداد 16 ہزار سے زیادہ ہے۔الیکشن کمیشن نے اس بار 80 سال سے زیادہ عمر کے تمام رائے دہندگان کو اپنے گھر سے رائے دہی کی سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیاہے۔ یہ لوگ آن لائن ووٹ دینے سے رہے اس لیے کیا کیا جائے گا کوئی نہیں جانتا۔ حکومتیں عوام سے ووٹ لینے کے لیے جتنی فکر مند ہوتی ہیں اتنا خیال انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کا کریں تو ملک کا نقشہ بدل جائے لیکن موجودہ سیاستدانوں سے یہ توقع رکھنا محال ہے۔

بی جے پی کے رہنماوں کی مقبولیت جب کم ہونے لگتی ہے تو وہ سخت گیر ہندوتوا کی شبیہ کے سہارے اپنی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کی سعی کرتے ہیں ۔ سابق نائب وزیراعلیٰ کے. ایس. ایشورپا نے بھی یہی کیا لیکن ان کا یہ حربہ نا کام رہا اور خود ان کی پارٹی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا ۔ وہ کروبا طبقہ کا بڑا چہرہ تصور کیے جاتے ہیں مگر اب اب نئے چہرے کی تلاش میں ضاری ہے ۔ایشورپا نے سرخیوں میں رہنے کے لیے کئی متنازع بیانات دئیے مثلاً لال قلعہ پر بھگوا پرچم لہرانا، اذان اورحجاب کی مخالفت وغیرہ، لیکن ان کی یہ شعلہ بیانی کسی کام نہیں آئی ۔ایشورپاّ کے خاتمہ کی ابتداء ایک ٹھیکیدار اور بی جے پی لیڈر سنتوش پاٹل کی سال 2022 میں خودکشی سے ہوئی۔ پاٹل نے اپنی خودکشی نوٹ میں ایشورپا کو موت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایشورپاّ کو کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ بعد ازاں انھیں کلین چٹ تو مل گئی مگر نہ وزارت ملی اور نہ ٹکٹ ہی ملا۔ اس طرح کرناٹک کی سیاست سے خس کم جہاں پاک کی مصداق منحوس ایشورپا کا سورج بھی غروب ہوگیا ۔ ۔

بی جے پی کرناٹک میں اس بار بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے دلدل میں ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ اس کے برعکس کانگریس اقتدار میں واپسی کے لیے جارحانہ مہم چلا رہی ہے ایسے میں بی جے پی کے لیے صرف اور صرف رام نام کا سہارا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے رام نومی کا تہوار دھوم دھام سے مناکر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ داوں بھی الٹا پڑگیا۔ ریاست کے بیدر ضلع میں باسواکلیانہ حلقے کے رکن اسمبلی شرانو سلاگر جو ش میں آکر مالا چڑھانے کے لیے رام کی مورتی پر چڑھ گئے ۔ اس سے کانگریسیوں کو مو قع مل گیا اور انہوں نے شرانوسلاگر کے مجسمے پر قدم رکھتے ہوئے تصاویر اور ویڈیوز کو پھیلا کر کہنا شروع کردیا کہ یہ ان کے دیوتا کی توہین ہے۔ اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر بی جے پی کے خلاف تند و تیز سوالات کا طوفان برپا ہوگیا اور رام کی 'بے عزتی' کرنے کا الزام لگا کر تنقید شروع ہوگئی۔ شرانو سلاگر کو گویا مجسمے پر کھڑے ہو کر تصویریں کھنچوا نا مہنگا پڑگیا اور رام کےعقیدت مندوں میں ناراضی پھیل گئی۔

اس واردات کی مدد سے کانگریس نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرکے بی جے پی سے رام کا کارڈ چھیننے کی کوشش کی اور سوال کیا کہ کیا یہی 'ہندوتوا' کے دعویٰ اور رام سے عقیدت ہے؟ کانگریس نے دیگر مثالوں کا حوالہ دے کر یہ الزام لگایا کہ بی جے پی لیڈروں نے پہلے بھی ہندو دیوتاوں کی توہین کی ہے۔ اس معاملے میں اپنا دفاع کرتے ہوئے، سلاگر نے اعتراف کرلیا کہ یہ حرکت پارٹی کارکنوں کی درخواست پر کی گئی ورنہ مجسمے پر پاؤں رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی کو اس کے مذہبی کارڈ سے بھی محروم کردیا جائے تو اس کے پاس کیا بچےگا؟ اس سال راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش بھی انتخاب ہے۔ بی جے پی اگر کرناٹک ہار جاتی ہے تو اس کے قدم اکھڑ جائیں گے اور اس کے لیےاگلا قومی انتخاب جیتنا بے حد مشکل ہوجائے گا۔ آئندہ پارلیمانی الیکشن ’مودانی ‘ پر لڑا جائے گا ۔ گوتم اڈانی کی بدعنوانی سے خود کو الگ رکھنا بی جے پی کے لیے اب ٹیڑھی کھیربن گیا ہے۔ اس لیے کرناٹک کی نوٹنکی کے نتائج ہندوستانی سیاست پر دوررس نتائج مرتب کریں گے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.