میری کہانی میری زبانی
اس واقعے کا تعلق پختونخوا کے علاقے سے ھے۔
وہ گاؤں کی ایک خوبصورت حسین وجمیل لڑکی تھی۔اس گاؤں کا ہر نوجوان اپنے دل
میں یہی سوچ رکھتا تھا۔کہ اس کی شادی اس لڑکی سے ہوجائے۔کئ نوجوان اسی
سہارے جی رہے تھے۔لیکن لڑکی آپنے کزن شاہ صاحب سے منسوب تھی۔شاہ صاحب کوئی
اچھی شکل وصورت کا شخص نہ تھا۔اس کا رنگ سیاہی مائل تھا۔اور اسکے چہرے اور
بدن پر بہت سارے داغ تھے۔اسکی آواز خوفناک اور چال بے ڈھنگی بے ڈولی اور
ہٹا کٹا صحت مند آدمی تھا۔اور اسکے ساتھ ہی اس میں آپنے علاقے کی روایات کو
اجالنے کا جزبہ بھی تھا۔شاہ صاحب کی بہت بڑی خوبی یہ تھی۔کہ وہ ایک مہمان
نوازی کا دوست شخصیت کا مالک تھا۔دوستوں کا دوست تھا اور دشمنوں کو معاف
کیا کرتا تھا۔اور ہر کسی مان رکھتا تھا۔جب شاہ صاحب تھکا ہوا ڈیوٹی سے آتا
تھا۔تو افس میں اسکے دم سے رونق رہتی تھی۔
شاہ صاحب کیونکہ پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔اور بزرگوں کی ہر بات کی
پاسداری رکھنا ہر غیرت مند پٹھان کا کام اور اولین ترجیح اور فرض ہوتا
ہے۔لڑکی اور شاہ صاحب کی شادی ہو گئ۔اور بزرگوں کی بات رہ گئ۔لیکن گاؤں کے
کئ نوجوانوں کی خواہش کے گلے گھونٹ دیئے گئے۔کسی نے کہا کہ ایک خوبصورت اور
حسین عورت کی شادی ایک بد شکل شخص کے ساتھ بے جوڑ شادی کی بندھن میں باندھی
گئی۔
تو کسی نے اظہار خیال کیا۔
کہ شاہ صاحب رات کی طرح کالا ہے۔اور لڑکی دن کی طرح روشن اور خوبصورت ھے۔
کہنے والوں نے بہت کچھ کہا۔لیکن ان لوگوں کی باتوں سے لڑکی شاہ صاحب سے جدا
کسی حال میں نہیں کی جا سکتی تھی۔اور وہ لڑکی شاہ صاحب ہی کی رہی۔بہت سے
لوگ باتیں کرکے خاموش ہوگئے۔اور جوں جوں دن گزرتے گئے سب لوگ یہ باتیں بھول
گئے۔
لڑکی شادی کے بعد ایک نیک سیرت اور وفادار بیوی ثابت ہوگئی۔لڑکی شاہ صاحب
سے بہت محبت کرتی تھی۔یعنی شاہ صاحب کے کپڑے جوتے شادی سے پہلے کی نسبت اب
زیادہ صاف ستھرے رہنے لگے تھے۔
شاہ صاحب کے پگڑی کے دونوں سرے خوبصورت پھولوں سے سج گئے۔شاہ صاحب بلکل
کوئی نشہ نہیں کرتا تھا اور شاہ صاحب کی بیوی اقصی کو سگرٹ پینا بہت
تھا۔اور سگرٹ کا پورا بھتہ بارات والے دن آپنے ساتھ لائی تھی۔اورساتھ میں
سگرٹ رکھنے کیلئے خوبصورت سا ڈبہ ساتھ لائی تھی۔شاہ صاحب یہ سب دیکھ کر
حیران و پریشاں ہوگیا۔کہ نئ نویلی دلہن اپنے شاہ صاحب کو کہتی ہے کہ اپ
سگرٹ پینا شروع کر دے کیونکہ آپ سگرٹ پیتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ٹائم گزرتا
گیا۔ایک دن شاہ صاحب اپنے دفتر چلے گئے اور ڈیوٹی سٹارٹ کیں۔جب شاہ صاحب نے
اپنے جیب سے سگرٹ کا وہ خوبصورت ڈبہ نکلتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی
شہزادہ تخت پر بیٹھا حسین اور خوبصورت ڈبے سے سگرٹ نکلا تو ایسا لگتا تھا
جیسے سونے کے سگار سے کش لگا رہا ہو۔اور یوں شاہ صاحب کا وقار شادی کے بعد
بہت گیا۔ایک دن شاہ صاحب کسی کام سے بیرونی ملک چلا گیا۔شاہ صاحب کی اہلیہ
اقصی بہت پردہ دار اور نرم مزاج نرم دل کی مالک تھی۔اگر کوئی بھی فقیر شاہ
صاحب کے گھر آتا تھا تو شاہ صاحب کی اہلیہ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی
تھی۔اور حرام کو حرام اور حلال کو حلال کھنے والی خصیت کے مالک تھی۔شاہ
صاحب نے اپنے اہلیہ کو پہلے سے سمجھایا تھا۔کہ میرے بھائی آپکے اپنے بھائی
ہیں اور میری ماں کی خصلتوں کو اپناؤ۔شاہ صاحب کی اہلیہ اقصی نے بلکل ویسے
ہی کیا۔اور شاہ صاحب کے چھوٹے بھائیوں کو وہ اپنے چھوٹے بچوں کی طرح مانتی
تھی اور ہر بات میں ماں کی طرح شاہ صاحب کے بھائیوں کو سمجھاتی تھی اور
اپنے سسر اور ساس کی ماں باپ کی طرح تابعداری کرتی تھی جیسے اقصی کے اپنے
ماں باپ ہو۔شاہ صاحب کے بہن بھائی ماں باپ جو بھی بات ہوتی تھی تو شاہ صاحب
کی اہلیہ اقصی کو ضرور مشورے میں شامل کرتی تھی۔ایک دن اقصی بی بی شاہ صاحب
کے انے کا انتظار کر رہی تھی۔کہ شائد شاہ صاحب کو اب چھوٹیاں ملی ہوگی اور
ڈیوٹی ختم کرکے وہ وطن واپسی کریگا۔اب وہ گھر میں شاہ صاحب کا انتظار کر
رہی تھی اور دالان میں اپنے بستر میں دبکی خیلات کی جھالریں بن رہی
تھی۔اسکی سوچ میں شاہ صاحب رچا ہوا تھا۔ایک صحت مند اور دلیر جوان جسکی
پگڑی کے شملے کی جھالر کی بلائیں لے رہی تھی۔اور جسکے ہاتھ میں سگرٹ کی
حسین اور خوبصورت ڈبی تھی۔جس پر طرح طرح کے سٹار میڈل کی طرح جھلملا رہی
تھی۔بس اسی خواب میں وہ مگن تھی۔
کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور شاہ صاحب کی اہلیہ اقصی کو یوں محسوس
ہوا کہ اسکے حسین خیلات کی جھالر مکل ہوکر ایک دستک کی صورت اختیار کر گئ
ہو۔دروازے پر بڑی نرمی سے دستک ہوئی۔وہ لحاف کو پرے پھینکتے ہوئے بغیر جوتا
پہنے دروازے کے پاس پہنچی۔دستک پھر ہوئ۔لیکن یہ دستک بلکل اجنبی تھی۔۔۔وہ
دروازہ کھولتے کھولتے جھجک کر رہ گئی۔دیکھا کہ شاہ صاحب بہت بری حالت میں
زخمی ہوتے ہوئے گھر کے دروازے پر اپنی اہلیہ اقصی کے پاؤں میں گر پڑا۔ اقصی
کو شاہ صاحب سے بہت محبت تھی اور ہر بات پر شاہ صاحب کو۔میں صدقے میں قربان
کہا کرتی تھیں۔جیسے کوئی ماں آپنے بجے کو کہتی ہے۔اقصی نے فوراً شاہ صاحب
کو بہت تکلیف سے اٹھایا۔اور کسی کو کچھ نہ کہا اتنی حمت اور حوصلے والی
لڑکی تھی۔شاہ صاحب کا علاج معالجہ شروع ہوا اور اقصی بی بی دن رات شاہ صاحب
کے خدمت کیسآتھ ساتھ قرآن مجید کی تلاوت بھی خوب کیا کرتی تھی۔شاہ صاحب کو
بھی اپنی اہلیہ سے بہت محبت اور پیار تھا اور اپنے ہاتھوں سے اپنی اہلیہ کو
کھانا کھلاتا تھا۔اور جب شاہ صاحب چائے یا کوئی بھی مشروبات استعمال کرتا
تھا تو پہلے اپنی اہلیہ کو آگے کرتا تھا کہ پھلا گھونٹ آپ کرے پھر باقی
مجھے دے دیں۔تو شاہ صاحب کی بہت ایسی کہانیاں بھی ہیں۔جو شاہ صاحب نے اپنی
اہلیہ یعنی بیوی کو اپنے بدن کے خون سے وہ تحریریں لکھی گئی ہیں۔یعنی شاہ
صاحب اپنی بیوی کیلئے جو بھی لکھتا تھا وہ اپنے خون سے لکھتا تھا۔تب شاہ
صاحب کو سکون ملتا تھا۔دونوں میاں بیوی خوب محبت میں مگن تھے۔لیکن شاہ صاحب
کو اجانک پینک اٹیک ہونا شروع ہوگئے۔اور اقصی بی بی سے اپنے میاں کے یہ
حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اور دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی۔اخر شاہ صاحب
خوب بیماریوں میں مگن ہو گئے۔اور ایک حسین پھول کو سیاہ بھنورے میں دن بدن
بدلتی رہی اور شاہ صاحب کو اپنی اہلیہ اقصی کی جوانی اور اسکی محبت پر رحم
نہ آیا کیونکہ اسکے لیے اپنا وطن عزیز تھا۔اب شاہ صاحب اپنی ڈیوٹی کی خاطر
اپنی اہلیہ اقصی کی وہ جوانی کی خوشیاں اس سے چھین لیں۔
اور اب بھی شاہ صاحب اور اسکی اہلیہ اقصی دونوں میں محبت وہ یادیں وہ
تابعداری دونوں میں مخلصی قائم ہیں اور اللّہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رکھیں آمین
یا ربّ العالمین۔۔
|