آزاد جموں وکشمیر کے 15ویں وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے
حلف اٹھانے کے فوری بعد گڈ گورننس کے تحت نظم و نسق میں بہتری لانے کے لئے
ایسے اقدامات کا آغاز کیا ہے جن پر خطے سے دلچسپی رکھنے والے مبصرین تبصرے
کر رہے ہیں ۔سب سے پہلے انہوں نے خود سے شروعات کرتے ہوئے اپنی سیکورٹی اور
پروٹوکول سے متعلق قابل عمل ہدایات جاری کیں۔ سروسز و جنرل ایڈمنسٹریشن
ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ سرکیولرز میں کہا گیاہے کہ وزیراعظم کے
دورہ کے موقع پر فورسز کی تعیناتی اور پروٹوکول اقدامات کو نظر انداز کرتے
ہوئے صرف ضروری سیکورٹی انتظامات کئے جائیں گے۔ سائرن یا ہوٹرز بجانے
سمیت،یا روٹ کھولنے کا کوئی بھی ایسا طریقہ جس سے عوام کو تکلیف پہنچتی ہو
، پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی گئی۔کسی ضلع کے دورہ یا تقریب میں شرکت
کے دوران روٹ پر کوئی اضافی ٹریفک پولیس تعینات نہ کی جائے گی۔ وزیراعظم کے
دورے کے موقع پر انتظامیہ کے افسران اور دیگر محکمہ جات کے عہدیدار اپنی
جائے تعیناتی پر معمول کے فرائض سر انجام دیں گے۔ وہ بغیر خصوصی اجازت
وزیراعظم کے پروٹوکول میں شامل ہوں گے اور نہ ہی کسی استقبالیہ میں شریک ہو
سکیں گے۔
گورننس کوفیصلہ سازی کے اس عمل سے تعبیر کیا گیاہے جس کے ذریعے فیصلوں کو
نافذ کیا جاتا ہے۔ گورننس کا اطلاق کارپوریٹ، بین الاقوامی، قومی، یا مقامی
گورننس سمیت معاشرے کے دیگر شعبوں کے درمیان معاملات پر بھی ہو سکتا ہے۔گڈ
گورننس دراصل ایک ماڈل ہے جس کی توجہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے
حکومتوں اور گورننگ باڈیز کی ذمہ داری پر مرکوز ہے۔ گڈ گورننس ایک وسیع
اصطلاح ہے۔ اس میں ریاست کی صلاحیت اور بیوروکریسی کی خودمختاری بھی شامل
ہے۔ اچھی حکمرانی کا تصورجان و مال کا تحفظ، صحت، تعلیم، پانی، معاہدوں کا
نفاذ، ماحولیات کا تحفظ اور مناسب اجرت حاصل کرنے تک محدود نہیں۔ بلکہ اچھی
حکمرانی کا اندازہ عوامی خدمات کی موثر انداز میں فراہمی، غریبوں اور
پسماندہ طبقات کی شراکت بھی ضروری ہے تا کہ اس بات کی ضمانت ملے کہ شہریوں
کو حکومت، اسٹیبلشمنٹ پر چیک اینڈ بیلنس کا موقع مل رہا ہے۔ شہریوں اور ان
کی املاک کے تحفظ اور آزاد عدلیہ کے نظام کے وجود کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔
جب بیوروکریٹس اپنے کام اپنے مفاد کی بجائے عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے
ہوئے انجام دیتے ہیں۔یہ گڈ گورننس ہی ہے جو انسانی حقوق اور قانون کی
حکمرانی کے احترام کو یقینی بناتی ہے، جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے؛ عوامی
انتظامیہ میں شفافیت اور صلاحیت کو فروغ دیتی ہے۔وزیراعظم کے ابتدائی
اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے
یا برقرار رکھنے کے مواقع دینا چاہتے ہیں۔امید ہے کہ وہ سرکاری اداروں، نجی
شعبے، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو عوامی اور ادارہ جاتی اسٹیک ہولڈرز کے
سامنے جوابدہ بنانے پر بھی توجہ دیں گے۔اگر معلومات عوام کے لئے قابل رسائی
ہوں اور قابل فہم بھی ہوں تو اس سے شفافیت پروان چڑھتی ہے۔جوابدہی کا نظام
بھی اس میں شامل ہے۔
قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے، پبلک سیکٹر کی کارکردگی اور جوابدہی کی
بہتری ، بدعنوانی سے نمٹنے پر زور دیا جا رہا ہے۔بدعنوانی کی وجہ غیر موثر
حکمرانی ہے۔وزیراعظم شاید ایک ایسا ماحول بنا رہے ہیں جو عوام کی مضبوط اور
مساوی ترقی کو فروغ دے۔
اچھی حکمرانی کی اہم خصوصیت سرکاری اداروں کی غیر جانبداری ہے۔یہی وجہ ہے
کہ وزیراعظم ترقیاتی فنڈ کے 100 فیصد استعمال کو یقینی بنانے، ترقیاتی
منصوبوں کی بروقت تکمیل،ان کا آڈٹ کرانے کی ہدایات جاری کر رہے ہیں تاکہ
منصوبے زمین پر نظر آئیں اور عوام ان سے مستفید ہوں۔وہ سالانہ ترقیاتی
پروگرام 2022-23 کے ترقیاتی فنڈز، ورک پلان کی تیاری،مختلف ایکٹ کا جائزہ
لینے، ایکٹ کے ذیلی قوانین میں ترامیم اور اس کی بہتری کے لئے تجاویز مرتب
کرانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ مختلف قوانین اور قانونی حیثیت کا جائزہ
لینے کے لئے ذہین افسران پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔وزیراعظم نے
عوامی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبے تجویز کرنے کی ہدایات جاری کی
ہیں۔وزیراعظم کی ہدایات پرسرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں نظم و نسق میں
بہتری اور اوقات کار کی پابندی یقینی بنانے کے لئے بایومیٹرک نظام نصب کرنے
اور اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کیا جا رہا ہے۔وزیراعظم ترقیاتی فنڈز
میں صوابدیدی کوٹہ ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیز کی
تشکیل نو اور قوانین میں مناسب ترامیم کے لئے چیف سیکرٹری جامع تجاویز تیار
کر رہے ہیں جس کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جائے گی۔ وزیراعظم نے سرکاری
آفیسران کی جانب سے نائب قاصدوں و لوئر سٹاف سے گھروں میں خدمات لینے کی
روایت ختم کرنے کی ٹھان لی ہے۔ وہ تمام سرکاری نائب قاصد و لوئر سٹاف کو
اپنے اپنے دفاتر میں حاضر کر کے رپورٹ طلب کی ہے۔ قومی نوعیت کے منصوبہ جات
کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے اور اس نوعیت کے منصوبہ جات کی تکمیل کو
یقینی بنانے سے عوام الناس اس کے ثمرات سے مستفید ہوں گے۔ ٹھیکہ جات کے
الاٹمنٹ سے متعلق وزیراعظم شفافیت یقینی بنارہے ہیں۔ گڈگوورنس کے حوالے سے
اقدامات
وزیراعظم کے احکامات پر فوری عمل درآمد کیلئے محکمہ سروسز اینڈ جنرل
ایڈمنسٹریشن کے جاری کردہ نوٹیفکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گڈ گورننس ان کی
ترجیحات میں سر فہرست ہے۔ سول سیکریٹریٹ سمیت تمام ڈویژنل،ڈسٹرکٹ آفیسران
دفتری اوقات کار کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں۔انتظامی و پولیس آفیسران
دفاتر میں بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب یقینی بنارہے ہیں۔اہم دفاتر کوبائیو
میٹرک سسٹم سے وزیراعظم سیکرٹریٹ اور چیف سیکرٹری آفس کے ساتھ منسلک کیا جا
رہا ہے۔ اس کا طریقہ کار خودکار نظام میں موجود ہو گا۔تمام انتظامی و پولیس
آفیسران سے کہا گیا ہے کہ وہ ڈیوٹی کے ایام میں اپنے اسٹیشن پر موجود رہیں
۔وہ چھٹی کے استفادہ کے لئے بالا آفیسران کی تحریری اجازت سے اسٹیشن
چھوڑسکیں گے۔انتظامی و پولیس آفیسران الوداعی تقریبات کے اہتمام و شرکت سے
گریز کریں گے اور کفایت شعاری و سادگی اپنائیں گے۔سرکلر کے مطابق پرائس
کنٹرول کمیٹیز کی تشکیل نو اور قوانین میں مناسب ترامیم کے لئے چیف سیکرٹری
کی جامع تجاویز اور رپورٹ سے ظاہر ہو گا کہ حکومت کیسے بہتری کی جانب بڑھ
رہی ہے۔محکمہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، چیف سیکرٹری آفس،منصوبہ بندی و
ترقیات،فنانس،بورڈ آف ریونیو،محکمہ قانون وانصاف،پارلیمانی امور و انسانی
حقوق کو فائنل ٹریکنگ سسٹم اور فائلز کی الیکٹرانک ٹرانسمیشن کی سہولت کے
ذریعے وزیراعظم سیکرٹریٹ سے منسلک کرنے کے منصوبے پر کام کر رہی
ہے۔وزیراعظم نے محکمہ خوراک میں بہتری لانے اور اسے جدید تقاضوں کے مطابق
ڈھالنے کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے، اس نے اپنی سفارشات تیار کرنے کے
منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے۔کمیٹی کے چیئرمین موسٹ سینئر وزیر کرنل(ر)
وقار نور ہیں۔ایک نوٹیفکیشن کے مطابق اس کے ممبران میں وزیر حکومت راجہ
فیصل ممتاز راٹھور،ممبر اسمبلی چوہدری اظہر صادق،سیکرٹری مالیات،سیکرٹری
قانون ،پارلیمانی امور و انسانی حقوق،سیکرٹری خوراک و فوڈ اتھارٹی،سیکرٹری
سماجی بہبود زکوۃ و عشر،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریجنل ڈائریکٹر اور
چیف سٹیٹیٹیکس و پلاننگ شامل کئے گئے ہیں۔وزیراعظم قومی نوعیت کے منصوبہ
جات کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرانا چاہتے ہیں۔وہ منصوبہ جات کی تکمیل کو
یقینی بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت کے بعدمظفرآباد میں
جاریہ منصوبہ جات شاہ سلطان برج،سی ایم ایچ فلائی اوور،کیل تا تاوبٹ
روڈ،میرپور کے رٹھوعہ ہریام برج اور مختلف اضلاع کو ملانے والے پل ، شونٹر
کشمیر ہائی وے کے منصوبوں کو فاسٹ ٹریک پر لایا جا رہا ہے۔ ٹھیکہ جات کے
الاٹمنٹ میں شفافیت کو یقینی بنانے سے نہ صرف محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں شفافیت
آئے گی بلکہ دیگر محکمہ جات بالخصوص ڈیویلپمینٹ اتھارٹیز بھی اس سسٹم کو
اپنائیں گی اور اس کے فوری نفاذ پر توجہ دیں گے۔وزیراعظم کی ہدایت پر
ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات کی سربراہی میں سنٹرل ڈیزائن آفس کی تنظیم نو
اور بہتری کے لئے اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔سرکاری محکمہ جات
میں بدوں استحقاق گاڑیوں کے استعمال پر پابندی کے حکم کے بعد کمشنر
مظفرآباد ڈویژن نے بدوں استحقاق سرکاری گاڑیوں کی ضبطگی شروع کر دی ہے۔
پولیس، انتظامیہ اور ٹرانسپورٹ پول کے آفیسران اس سلسلے میں معاونت کر رہے
ہیں۔
وزیراعظم کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے انتظامیہ اور پولیس
ٹرانسپورٹ پول کے آفیسران کی نشاندہی پر کارروای عمل میں لائی جا رہی ہے۔گڈ
گورننس، خدمت خلق اور مسائل کے فوری حل پر یقین رکھنے اورکرپشن کے مخالف
افسران وزیراعظم کے احکامات پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے کمر
بستہ ہیں۔ ریگولر بنیادوں پرنگرانی اور کارکردگی رپورٹ تیار کی جا رہی
ہے۔یہ سب گڈ گورننس کے تحت کیا جا رہا ہے۔ سرکاری اداروں کا عوامی معاملات
کو بخوبی انجام دینا ، عوامی وسائل کا نظم و نسق ،کرپشن اور بدعنوانی سے
پاک معاشرہ اور قانون کی حکمرانیہی گڈ گورننس کی بنیادی شرائط ہیں۔
|