یوم آزادی صحافت مگر صحافیوں کیلئے آزادی ایک خواب

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے صحافتی اہمیت کے پیش نظر صحافت کو ملک و قوم کا ہمیشہ چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ صحافت کے شعبہ سے وابستہ افراد نے اپنی نجی لائف سیاسی سماجی اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافتی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دی ہیں۔ با اثر افراد کے خلاف مظلوم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کیا،صحافیوں نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کیلئے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے دہشتگردی اور ملک دشمن قوتوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کیا۔یوکرین کی نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے مطابق، 24 فروری کو یوکرین میں روسی حملے کے بعد سے کم از کم 20 صحافی اور میڈیا کارکن ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ صدر پوٹن کی جانب سے میڈیا اور صحافیوں پر پابندی جنگ سے پہلے عائد کر دی گئی تھی۔ سن 2017 سے تقریباً 90 میڈیا ادارے اور افراد کو غیر ملکی ایجنٹ کا لیبل لگایا گیا ہے اور انہیں گرفتار کرنے یا ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔پورٹرز ودآو?ٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق یہ رجحان سابقہ سوویت یونین کے حلیف ممالک جس میں بیلاروس بھی شامل ہے، میں پایا جاتا ہے۔ بیلاروسی میڈیا آو?ٹ لیٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد کو انتہا پسند عناصر کا لیبل لگا کر ان کے پڑھنے اور شیئر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بیلاروس میں 20 سے زائد میڈیا کارکن اس وقت جیل میں ہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس ان شدید خطرات کی نشان دہی کرتا ہے جن کا صحافیوں اور بہت سے ذرائع ابلاغ کو عالمی واقعات کی رپورٹنگ میں آمریت کی وجہ سے سامنا ہے۔1875سے اب تک ہزاروں صحافی مارے جا چکے ہیں صحافیوں کی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ پچھلے25 سال کے دوران دنیا بھر میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کم ازکم بھی2000سے زائدصحافی اور میڈیا ملازمین ہلاک ہوچکے۔ رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے کا کام 1990ء میں شروع کیا تھا۔ پہلے ہی سال ہلاکتوں کی تعداد40رہی۔ پھر صحافیوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں تیزی آگئی کہ 2010ء سے لے کر آج تک سالانہ 100 صحافی مارے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے صحافیوں کے لیے حالات کار بہتر اور محفوظ بنانے کے وعدوں کے باوجود اس شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو دنیا کے بے شمار ملکوں میں خراب ہوتے ہوئے حالات کار کا سامنا ہے۔ صحافیوں کے قاتل مختلف ملکوں میں نہ صرف سزاو?ں سے باآسانی بچ جاتے ہیں بلکہ میڈیا کارکنوں کو مسلح کارروائیوں کے لیے ’’نرم اہداف‘‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔رپورٹزود آو?ٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سال2010 میں پاکستان آزادی صحافت کے معاملے میں دنیا کے178 ممالک میں 151 ویں نمبر پر تھا اور صحافتی سلامتی کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا ہے۔ سال 2010 میں 16 صحافی دوران فرائض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صحافیوں کو وسائل سے زیادہ مسائل سے دوچار کیاجاتاہے پاکستان کے ہرصوبے اورضلع میں رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کو قاعدہ ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ آج آزاد میڈیا معاشرے کی پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے ایسی طرح صحافی کا معاشی طور پر بھی مستحکم ہونا،اس کی جان کی حفاظت اور اس کی رہائش سے لے کر دیگر مسائل کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔پاکستان میں ہر حکومت نے زبانی حد تک تو میڈیا کی آزادی کی باتیں بہت کی ہیں لیکن صحافیوں پر حملوں میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کبھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے نیا قانون جلد پارلیمان میں لے کر آئے گی جس سے حالات میں بہتری آئے گی۔حکومت پاکستان کے کردار کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی وجہ سے اسے ہر سال یونیسکو کو صحافی کے قتل کے واقعات کی تحقیقات میں ’پیش رفت‘ سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔پاکستان نے گذشتہ تین برسوں میں ایسی کوئی پیش رفت سے یونیسکو کو آگاہ نہیں کیا ہے۔ یہ صورتحال حکومت کی جانب سے اس عزم کے اظہار کے باوجود ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے گی۔رپورٹ کے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ وفاقی و صوبائی سطحوں پر فوری طور پر صحافیوں کے تحفظ کے قانون کو ورکنگ جرنلسٹس اور دیگر فریقین کی مشاورت سے منظور کروائے اور وفاقی و صوبائی سطح پر خصوصی پراسیکیوٹرز تعینات کرے جو ایف آئی آر کے اندراج، تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی میں مدد کرے۔ادھر صحافی مخالف جرائم پر عدم کارروائی کے خلاف عالمی دن کے موقع پر آسٹریلین ہائی کمشنر مارگریٹ ایڈمسن نے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ ’ہم حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں منتخب ہونے والے پاکستان اور اقوام متحدہ کی تمام اراکین ریاستوں کی توجہ صحافیوں کے لیے محفوظ اور قابل اطمینان ماحول کی فراہمی کی طرف دلانا چاہتے ہیں، تاکہ وہ اخلاقی اور آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔پورٹ کے مطابق ملک میں صحافیوں کے خلاف سزا کے خوف کے بغیر حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ قتل یا اقدام قتل کے گذشتہ برس سے اب تک کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہ ملنا پاکستان میں جڑیں پکڑتے ہوئے اس رجحان کی عکاسی کرتا ہے جس میں صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کو استثنیٰ حاصل ہے۔یہ جائزہ رپورٹ صحافی مخالف جرائم پر عدم کارروائی کے خلاف عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔تاہم اب تک مارے جانے والے سو سے زائد پاکستانی صحافیوں کے مجرموں تک قانون کا ہاتھ آج تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گذشتہ ایک سال میں بھی اس بابت صورتحال تبدیل نہیں ہوئی ہے۔محمد جان سلیمانی، رپورٹر - نشانہ بنا کر قتل - قلات، بلوچستان۔ 13 جنوری 2017مور عباس، ٹی وی کیمرہ مین۔ نشانہ بنا کر قتل۔ کراچی (سندھ)۔ 15 فروری 2017لال سحر، رپورٹر۔ منکیرا (بھکر)۔ نشانہ بنا کر قتل۔ تین مارچ 2017بدالرزاق، نامہ نگار۔ نشانہ بنا کر قتل۔ قصور (پنجاب)۔17 مئی 2017بخشیش الہی، بیورو چیف۔ نشانہ بنا کر قتل۔ ہری پور (کے پی)۔ 11 جون 2017رانا تنویر۔ رپورٹر۔ اقدام قتل۔ لاہور (پنجاب)۔ نو جون 2017اگران واقعات کی ایف آئی آر جو درج ہونے کی بات کریں توقارئین پڑھ کرحیران ہوجائیں گے کہ 100 فیصد ایف آئی آر درج ہوئیں مگرسزاکی بات کریں تو صفر اورفالواپ بھی نہیں ہوا۔اگرچہ یہ حملے اور ہلاکتیں ان کے صحافتی کام کی وجہ سے ہوئے لیکن ان چھ واقعات میں سے کسی ایک میں بھی میڈیا ہاو?س یا ریاست نے انصاف کی جانب پہلا قدم یعنی ایف آئی درج نہیں کروائی۔اس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ادارے صرف مال کمانا جانتے ہیں مگراپنے نمائندے کو پروٹیکشن دینی کی باری آئے توسب سے پہلے اعلان لاتعلقی لگا دیتے ہیں حالانکہ اس نمائندے کو سب سے زیادہ اپنے ادارے کی اسی وقت ضرورت ہوتی ہے۔

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 30921 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.