عمران خان کی گرفتاری کو پاکستان کے لیے ایک ’خطرناک سے
بھرا لمحہ‘ کہہ سکتے ہیں ۔ اس وقت حالات تیزی سے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں
کیونکہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے سپورٹر میں ان کی بے پناہ
مقبولیت کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ سیاسی پولرائزیشن اور معاشی بحران کی اس
گھڑی میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ عمران
خان کی اس طریقے سے گرفتاری کو درست نہیں کہہ سکتے ہیں . مہذہب معاشرہ میں
ایسے صیح نہیں کہا جاسکتا . عمران کو بغیر کسی موثر وجوہات کے کسی بڑے
سیاسی رہنما کو گرفتار کرنا، سیاست میں کشیدگی کی بنیاد بنتا ہے. اور یہاں
سے ہی سیاسی جماعتوں اور حکمراں وغیرہ میں کشیدگی کا باعث بنتا ہے. اگر کسی
کیس میں تفتیش درکار ہو، تو بغیر گرفتار کیے یہ عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ اور
یہ دنیا بھر میں اس کا طریقہ کار یہ ہی ہے.پاکستان کے درد دل اور محب وطن
عوام اس طرح کی کاروآئی پر بہت پریشان ہیں کہ اس سے مزید ملک میں کشیدگی
اور افراتفری پھیلانے کے علاوہ اور کیا مقصد ہو گا؟ جنہوں کی ایماء پر اتنی
بڑی ملک اور دنیا کی شخصیت عمران خان کو جس طرح کی کاروائی کرتے ہوئے
گرفتار کیا گیا مہذہب و جمہوری معاشرے میں اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں
ملتی . پی ٹی آئی چیرمین عمران خان کے خلاف ابھی تک حکمراں اور یا کوئی بھی
ادارہ ایسا مقدمہ ثابت نہیں کرسکا جس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں، نہ ہی وہ
کہیں بھاگ رہے تھے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے عہدیداران و رفقاء بھی
کہتے ہیں کہ ’اس گرفتاری کی وجہ کچھ لوگ جو مُلک سے باہر اور مُلک میں
بیٹھے لوگوں کے انتقام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔پی ٹی آئی کے چیرمین عمران
خان کی گرفتاری کے بعد جس طرح لاہور اور مُلک کے دیگر شہروں کے جو مناظر
پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل اور انٹرنیشنل میڈیا پر آرہے ہیں اور جس طرح کے
تبصرہ کیے جارہے ہیں اس سے تو ایسا نظر آرہا ہے ’یا تو انقلاب آ چکا ہے یا
کچھ بہت برا ہونے جا رہا ہے .
عمران خان کی گرفتاری اس بات کا اندازہ تو عام آدمی لگا سکتا ہے کہ پاکستان
میں طاقت کا مرکز کہاں ہے۔ جو کام سول حکمراں نہ کراسکے کرنے والوں نے
منٹوں میں وہ کر دکھایا جو حکومت پچھلے چند مہینوں میں بار بار کرنے میں
ناکام رہی۔ وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کے اپنے دور میں سیاستدانوں کی
گرفتاریوں کی طرح، اس گرفتاری کا تعلق کرپشن سے بہت کم ہے ایسا لگتا ہے کہ
حکمراں اور اسٹیبلیشمنٹ نے اب فیصلہ یہ ہی کرلیا ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی
وہ قیادت جو مذاکرات اور گفت و شنید پر یقین رکھتی ہے اُن کے گرد گھیرا تنگ
کرکے گرفتار کرلیا جائے. شائد اس سے پی ٹی آئی کی نمبر تھرڈ و فورتھ لیڈر
شپ کو آزاد چھوڑدیا جائے. اس سے پی ٹی آئی کے ورکروں اور کارکنان میں
جذباتی عناصر کو اشتعال دلا کر اُنہیں اس طرف موڑ دیا جائے جس پر پی ٹی آئی
کی قیادت اُس ابھی نہیں جانا چاہتی تھی. کیونک پاکستان میں مورثی سیاسی
جماعت جن میں مسلم لیگ (ن) ، پی پی، جمعیت علمائے اسلام ، عوامی نیشنل
پارٹی، اور دوسری پے رول پر تانگہ پارٹی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ عمران اور
اس کی جماعت پاکستانی سیاست اور الیکشن میں ہو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہی
ہے یہ وراثتی سیاسی جماعتیں ان کو پی ٹی آئی اور اس جماعت کا چیرمین ایک
آنکھ بھی نہیں بھاتی کیونکہ وہ ان کی وراثتی اولاد کا سیاست اور اقتدار میں
روکاؤٹ اور یہ ہی طاقت کے مرکز کے محور ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح کی سیاسی
جماعت اور ان کے لیڈر کو اپنی لائین پر نہ چلنے پر اُن سیاسی جماعتوں اور
لیڈران کو میچ سے ریڈ کارڈ دیکھا دیکھا کہ گراونڈ سے باہر بیٹھادیتے ہیں .
یہ تھرڈ مُلک میں جن میں افریقن، ایشین،اور خاص کر اسلامی مُلک میں یہ عام
ہے جس کی مثال سوڈان، مصر، لیبیا، عراق، ، یمن، صومالیہ وغیرہ میں پاکستان
کی ہی طرح کھیل کھیلا جاتا ہے. اس کی وجہ یہ جماعت اور ان کے لیڈران عوام
کے دل کی باتیں کرتے ہیں . اور ملک کو ترقی کی ٹریک پر ڈالنے کی شروعات
کرتے ہیں . جبکہ ان کے خلاف ملک کی وراثتی جماعتیں اور وہ پڑوسی ممالک جن
کے مفادات کو ضرب لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے وہ بھی اس کار خیر میں دستانے پہن
کر ان دیکھے چہروں کو پے رول پر سامنے لیکر آتے ہیں جو سوائے ان کے مفادات
کے کیے کام کرتے ہیں . چاہے ملک میں حالت کس ہی نہج پر جائیں. اس خطہ میں
جو پاکستان اپنی آزادی کے پہلے پندرہ سالوں میں جس تیزی سے اُبھر کر دنیا
میں ایک مقام بنارہا تھا . کس طرح سے محلاتی سازیشوں نے آج اس مُلک کو کدھر
پہنچادیا معاشی، تعلیمی ،سیاسی، داخلی و خارجی غرض ہر میدان میں پیچھے
ہوگیا یہ نوبت پہنچ گئی کہ ایتھوپیا جیسے مُلک کی فلائٹ کی شروعات پر ہمارے
حکمراں بھنگڑے ڈال رہے ہیں. اور ہمارے آس پاس ملک جن کو پیچھلی دہائیوں میں
وہ کدھر تھے اور ہمارا ملک کس پوزیشن پر یہ جعلی وراثتی حکمرانوں ہمیں کہاں
لاکر کھڑا کردیا آج ہمارے ملک کے حصے بکھرے کرنے کی نظریں ہمارے دشمن گاڑے
بیٹھے ہیں. اس کا واحد حل ہماری عدالتیں اور الیکشن کمیشن بہادرانہ فیصلے
کرکے ملک کو جرنل الیکشن میں لیکر جایں اور مُلک کو اس مشکل صورتحال سے
نکال کر بہتری کی طرف لیکر جائے. اس ہی میں اس مُلک کی اور ہماری عوام کی
بہتری اور خوشحالی کی طرف قدم پہلا قدم ہوگا.
|