پاکستان کا وجود 1947میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل
میں آیاتا کہ مسلمان اپنے الگ وطن میں رہ کر اپنے مذہب کے مطابق آزاد زندگی
گزار سکیں اورایک ایسی ریاست تشکیل دے سکیں جس میں اقلیت کو بھی اپنے مذہب
کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہوگا۔لیکن ناجانے یہ سب خواب کیوں ادھورے رہ
گئے جو ہمارے بڑوں نے دیکھے تھے اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی
جانوں کا نذرانہ دیا مگر افسوس ان جانوں کے نذرانے کی قدر نہ کی گئی۔یہاں
پر ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم یہاں کسی اقلیت کو آزاد زندگی گزارنے کا حق دینا
تو دور کی بات کسی دوسرے فرقے کے لوگوں کو پسندتک نہیں کرتے۔المیہ یہ کہ
سندھ میں آئے روز کو ئی یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ ہندو لڑکی کو اغوا کیا
گیا اور مسلمان کرکے نکاح کر لیا گیا اور بطور ثبوت مسلمان ہونے کا
سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا جاتا ہے کیا یہ ظلم نہیں ہے کیا ان اقلیتوں کو زندگی
گزارنے کا کوئی حق نہیں ۔کیوں ان کو جبراََ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا
جاتا ہے کیوں اس متشدد ذہنیت کو اسلام کے نام سے جوڑا جارہا ہے۔کیوں
مسلمانوں کو نبی اکرم ﷺکا وہ فرمانا یاد نہیں کہ اگر کسی غیر مسلم کے ساتھ
ظلم ہوا تو میں کل قیامت اس کے ساتھ ہوں گا۔ یہ سب اسلام کی من مانی تشریح
کا نتیجہ ہے جس نے فرقوں کو جنم دیا ہے اور پاکستانی قوم کو تقسیم کیا ہوا
ہے۔یہاں پر مسلمان ہی اسلام کے نام پر اپنے مسلمان بھائی کا گلا کاٹنے کو
تیار بیٹھے ہیں جیسے کے پاکستانیوں میں برداشت کا مادہ ہی ختم ہوگیا
ہے۔کیوں مسلمان مسلمان کو کافر کہہ رہا ہے یہ سند کس نے کسی کو دی ہے جب کہ
کسی کے ایمان کو جانچنا تو خدا کا کام ہے جو کہ مسلمان یہاں پر کر رہے ہیں
کیوں یہاں ایک دوسرے کی مقدس ہستیوں کو گالیاں دی جاتی ہیں کیا کو ئی ہے جو
اپنے زندگی اپنے گریبان میں جھانک کر گزارنا چاہتا ہو۔کم علمی اور تحقیق نہ
ہونے کی وجہ سے لوگ ہجوم کی شکل اختیار کر گئے ہیں یہاں پر بڑی آسانی سے
مذہب کا چورن بیچ کر اپنے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں کیونکہ یہاں سوچ کے
عنصر کا وجود نہیں ہے کہ کون یہاں کیا کہہ رہا ہے اس کے کہنے سے معاشرے پر
کیا اثر پڑے گا۔جو جس کو مانتا ہے وہ اسے حق سمجھ لیتا ہے اور باقی سب کو
باطل قرار دے دیتا ہے۔ یہاں پر اسلام پر عمل کرنے کی بجائے زیادہ دکھاوے پر
ترجیح دی جاتی ہے۔مساجد جو کہ ایک مسلم ریاست میں ایک ویلفئیر سنٹر کی
حیثیت رکھتی ہیں جب کہ پاکستان میں زیادہ تر مساجد میں منبر پر بیٹھ کر
نفرتیں بانٹی جاتی ہیں۔ایک زمانہ تھا لوگ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے
تھے مگر اب تو ہر کوئی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ہر طرف نفرت اور
غصے کا لاوا ابھر رہا ہے۔سیاست بھی تقسیم کا شکار ہے جس میں اسلام کو بطور
ہتھیار اپنے سیاست چمکانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی ہورہا
ہے۔ہمارے یہاں اسلام بطور رسم و راج کی شکل میں رہ گیا ہے جو کہ اسلام کی
بنیادوں کے خلاف ہے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے مفادات سے آگے نکل کر ان
سب خرافات کو ٹھیک کر سکے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں کیسے
عملی جامہ پہنائیں جس بنیاد پر اس کا وجود قیام عمل میں آیا تھا؟ہمیں سب سب
سے پہلے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھنا ہوگا کیونکہ برداشت مثبت زندگی کا
لازمی جزو ہے جو کسی بھی عمل کو مکمل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ایک دوسرے
کی بات کو سننا ہوگا دلائل کی بنیاد پر بات کرنی ہو گی اور رومانوی اور
افسانوی زندگی سے باہر آنا ہوگاکیونکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ہمیں فرقہ
پرستی سے نکلنا ہو گا کیونکہ ہم سب کا مرکز خدا کی ذات ہے جس کو نبی اکرم ﷺنے
ہمیں متعارف کروایا تھا تو پھر لڑائی کیسی؟ہمیں اقلیتوں کوبرداشت کرنا ہوگا
اور ان کے مذاہب کا احترام کرنا ہوگا۔ہمیں اپنی ذات سے نکل کرمعاشرے کا
سوچنا ہو گا اور خصوصاََ معاشرے کے نچلے طبقے کو اوپر لانے کے لئے مشترکہ
محنت کرنا ہوگی۔اس کے علاوہ مساجد کو عبادات کے ساتھ ساتھ فلاح کے ادارے
بنانا ہوگا اور نفرتوں کے بیجوں کو مٹانا ہو گا۔ایک وقت تھا کہ مسجد نبوی ﷺمیں
بیٹھ کر 22لاکھ مربع میل کی حکومت چلائی جاتی تھی اسی طرز پرہمیں مساجد کو
معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ہمیں ایک متحدہ پاکستان
کی طرف بڑھنا ہوگا جس میں عدم مساوات کا تصور بھی نہ ہو اور ہر ایک کو آزاد
پرسکون زندگی گزارنے کا ماحول میسر ہو۔اور آخر میں علامہ اقبال ؒکے اس شعر
کے ساتھ کہ شاید کچھ بدل جائے
بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے
|