پہلی بات تو یہ ہے کہ عوامی احتجاج میں شر پسند عناصر کا
اداروں کیخلاف تشدد آمیز رویہ غیر مناسب تھا اور ایک تکلیف دہ تھا۔ جو نہیں
ہونا چاہیے تھا مگر۔
1. اسی قوم نے ان سب کو مقتدر بنایا
2. عزت و تکریم بخشی
3. اپنا پیٹ کاٹ کر انکو پالا
4. ہر مشکل میں انکا ساتھ دے کر انکو شیر بنائے رکھا اور کبھی شکوہ تک نہیں
کیا ۔
اگر دوسرے پہلو کو دیکھیں تو اس قوم کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹریٹ کیا گیا ۔
انہیں انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا
1.خوراک
2.صحت و تعلیم
3.انصاف و روزگار
4.بہو بیٹیوں کی عزتوں کو اچھالا گیا
5.اگر کبھی اپنے حکومتی نمائندوں تک رسائی کیلئے احتجاج کیا تو انہی اداروں
نے اس قوم سے انکا بولنے کا حق چھینا۔
ا۔ انکی املاک کو توڑ پھوڑ کیا گیا
ب۔ مار پیٹ کی گئی
ج۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا
د۔ خاموش رہنے کیلئے ڈرایا دھمکایا گیا
ر۔ ارشد شریف جیسے محب وطن اور شہیدوں کے وارث کو شہید کر کے ظلم و بربریت
کی مثال قائم کرکے اس قوم کی آواز بند رکھی گئی
ہ۔ زلزلے و سیلاب یا جنگیں ہوں 1965, 1971 یا کارگل ہو سب ادارے بہتر سے
بہتر کھڑے کر دئیے اس قوم نے۔
اگر نہیں کھڑی ہو سکی تو خود یہ قوم۔ جو آج تک روٹی کپڑا اور مکان جیسے
بنیادی ضروریات میں پھنسی ہے۔
اداروں کی اور قائدین کی عزت و تکریم کی پامالی پہ نوحہ گری سب نے کی ۔
کیا کسی نے اس قوم کی عزت و تکریم پہ نوحہ گری کی
اگر نہیں کی تو کیوں نہیں کی؟
کیونکہ بھیڑ بکریاں بنائے رکھا جنکی نہ عزت ہے ، نہ کوئی حقوق بس ذبح ہونا
لکھا ہے اور ہوتے رہینگے ۔
(لکھاری: عبدالماجد)
|