بلاول بھٹو زرداری کا دورہ بھارت‎‎

پاکستانیو تمھارا کیا بنے گا۔ بلاول ابھی بھارت میں ہی تھے کہ یہاں بحث چھڑ گئی کہ جے شنکر نے ہمارے وزیرِ خارجہ کو ہاتھ نہیں ملایا اور بلاول نے بھی انھیں ہاتھ جوڑ کر نمستے کہا۔ محض اس بات کا مزاق اڑانے والوں کا دماغ بالکل خالی ہے۔

ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بلاول کے اس دورے سے پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات اور رابطوں پر کیا اثر پڑا۔

کیا بلاول نے پاکستان کی نمائندگی بہتر انداز میں کی؟

لیکن آفرین ہے اس صحافی پر جس نے بلاول سے یہ سوال پوچھا کہ کیا آپ کو جے شنکر کے ساتھ ہاتھ ملانے کا موقع ملا

میری ذاتی رائے یہی ہے کہ بلاول بہتر ہوم ورک کر کے نہیں گئے تھے، بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ اور اتنے قریب جا کر بھی دو طرفہ رابطے بحال نہ کرنا دونوں ممالک کے وزراء کی ناکامی ہے۔

جہاں تک بات میڈیا کی ہے تو میں سمجھتا ہو بلاول زرداری نے بہترین انداز میں تمام سوالوں کے جوابات دیئے اور بھارتی وزیرِ خارجہ کو بھی منہ توڑ جواب دیئے۔

بھارت میں بیٹھ کر کلبھوشن یادیں کا ذکر کرنا، اور indirectly مودی کو گجرات کا قصاب کہنا قرارے جوابات تھے۔

بہت سارے سوالات ہوئے، سوال چاہے دہشتگردی کے متعلق تھا یا ممبی حملوں کے متعلق۔ پاکستان کے گرتے زرِمبادلہ کا پوچھا گیا ہو یا انتخابات کا، بلاول تسلی بخش جوابات دینے میں کامیاب رہے۔

کچھ لوگ اس دورے کو کوئی اور ہی رخ دے رہے ہیں۔ اور یہاں تک بول رہے ہیں کہ بلاول کو جانا ہی نہیں چائیے تھا اور کچھ لوگ انٹرن وزیرِ خارجہ تک کا لقب دے رہے ہیں۔ مگر ان عقل کے اندھوں سے میں کہنا چاہوں گا کہ یہ 2011 کے بعد کسی بھی پاکستانی وزیرِ خاکہ کا پہلا دورہ بھارت تھا، کیوں نہ جاتا؟ یاد رہے شنگھائی تعاون تنظیم کی آدھی رکنیت وسطی ایشیا میں ہے۔ جہاں پاکستان تجارت اور ہمسائے ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لئے گہری روابط قائم کرنے کی امید رکھتا ہے۔ اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ روابط اور خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے اور اس کے مفادات کو آگے بڑھانے کا بھی بہترین موقع تھا۔

آخری بات
بھارتی وزیرِ خارجہ کا رویہ واقعی قابلِ مزمت ہے۔ لیکن اس بات پر پاکستانی پاکستانی وزیرِ خارجہ کا مزاق اڑانا کہ ائیر پورٹ پر کون لینے آیا اور ہاتھ کیوں نہیں ملایا، دوران گفتگو اور گروپ فوٹو جے شنکر نے بلاول کو اگنور کیا، اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔ ہمیں overall فوائد دیکھنے چائیے۔ بلاول کا یہ دورہ پاکستان کے لئے علاقائی ضرورت تھا، دو طرفہ نہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں SCO میں وہ تمام ممالک شامل ہیں جن کے ساتھ پاکستان گہرے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
از قلم حمزہ احسان

 

Hamza Ehsan
About the Author: Hamza Ehsan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.