شرد پوار :عصرِ جدید کی سیاست کا منفرد بازیگر

شرد پوار عرصۂ درا ز تک انتخابی سیاست کے علاوہ کرکٹ کی سیاست بھی کرتے رہے۔ ابھی ابھی ان کا ایک بہت آسان سا کیچ چھوٹا اور انہیں پھر سے ایک لائف مل گئی لیکن عام طور سے اس کے بعد کھلاڑی زیادہ دیر ٹِک نہیں پاتا ۔ ویسے عمر کے82؍ ویں پائیدان پر صحت کے شدید مسائل سے برسرِ پیکار کھلاڑی سے سنچری کی توقع کرنا خام خیالی ہے۔ اب جبکہ شرد پوار اپنے طویل کیرئیر کی اننگز پوری کرنے جارہے ہیں ان کی شروعات پر نظر ڈال لینا اہم معلوم ہوتا ہے۔ اس کو جاننے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں بلکہ ان کی سوانح حیات ’اپنی شرطوں پر ‘ کا غائرمطالعہ کافی ہے۔ اس کتاب کا عنوان کچھ ادھورا سا لگتا ہے ۔ اسے پڑھ کریہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ’ اپنی شرطوں پر‘کیا؟ تو اس سوال کا جواب ہے اپنی شرائط پر مصالحت اور یہی شرد پوار کی 64 سالہ سیاسی زندگی کا مرکزی موضوع ہے۔ ان میں 24 سال وہ پارٹی کے صدر بنے رہے۔ چارمرتبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے اور دوبار مرکزی وزیر بھی بنائے گئے ۔ راجیو گاندھی کی موت کے بعد پوار وزیر اعظم بنتے بنتے بچے ۔

شر دپوار نے جو موقع پرستی اور خودغرضی کی سیاست کی کوبس ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مشترکہ حکومت میں عام طور پر جس پارٹی کے ارکان اسمبلی زیادہ ہوتے ہیں اس کا وزیر اعلیٰ ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کی تاریخ میں صرف ایک بار 2004 میں این سی پی کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں ۔ اس وقت کانگریس کے ساتھ الحاق کرکے الیکشن لڑا گیا گیاتھا۔ این سی پی نے 71 اور کانگریس 69 نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ این سی پی کےچھگن بھجبل وزیر اعلیٰ بنائے جاتے لیکن ان کو نائب بنایا گیا ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اتفاق سے اس سال مرکز میں یو پی اے کی سرکار بن گئی وہاں پر این سی پی کے صرف ۶؍ ارکان پارلیمان تھے۔ ان میں سے شرد پوار اور پرفل پٹیل مرکزی وزیر بن گئے اوراس کے لیے ’اپنی شرطوں پر‘ والی سیاست کے مدنظرریاست میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ قربان کردیا گیا ۔

مہاراشٹر بی جے پی کا ایک ایسا مضبوط قلعہ تھا جو ایمرجنسی کے بعد ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں بھی محفوظ رہا لیکن اس میں پہلی بار شیوسینا اور بی جے پی کے اقتدار میں لانے کا بنیاد سبب بھی شرد پوار کی ایک چال تھی جو الٹی پڑ گئی۔ ممبئی میں فرقہ وارانہ فساد کے بعد نرسمھا راو نے شرد پوار کو کمزور کرنے کے لیے ان کے سامنے یہ شرط رکھی کہ یا تو وہ وزیر اعلیٰ بن کر جائیں یا شنکر راو چوہان کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ تھی ان دونوں میں سے ایک کی قیادت کے بغیر اگلا اسمبلی انتخاب جیتنا ناممکن ہے۔ شنگر راو چوہان کے وزیر اعلیٰ بن کر آنے کا مطلب یہ تھا شرد پوار کی جڑ کٹ جاتی ۔ اس لیے وزارت دفاع کا اہم عہدہ چھوڑ کر وہ دہلی سے ممبئی آگئے لیکن تلوار ہنوز لٹک رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنی پارٹی کے خلاف چالیس باغی امیدوار کھڑے کردیئے۔ انہیں توقع تھی کہ وہ جیت جائیں گے۔ کانگریس کو حکومت سازی کے لیے ان کی حمایت درکار ہوگی اور شرد پوار کو وزیر اعلیٰ بنانے کی شرط پر ساتھ دیں گے لیکن ہوا یہ کہ کانگریسیوں کے ساتھ باغی بھی ہار گئے اور شیوسینا و بی جے پی کی سرکار بن گئی ۔ اس انتخاب میں شرد پوار کا یہ جملہ کہ’ہمیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے‘ بھی انہیں مہنگا پڑا اور رسوا ہوگئے۔

شرد پوار کو اسی وقت ریٹائر ہوجانا چاہیے تھا مگر اپنی سبکدوشی کا اعلان انہوں حال میں دوسری آپ بیتی بعنوان’ لوک ماجھے سنگاتی‘ یعنی ’میرے رفیق کار‘ کے رسمِ اجراء کی تقریب میں کیا۔ اس سے قبل پوار نے گوتم اڈانی سے ملاقات کی ۔ اجیت پوار کے بیٹے نے گوتم اڈانی کو بارامتی کے سامراج کی سیر کرائی ۔ یہ سب ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب کانگریس پارٹی اڈانی کے معاملہ میں سرکار پر زبردست دباو بنا نے میں کامیاب ہوگئی تھی ۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تفتیش پر اصرار کیا جارہا تھا ۔ ایسے میں پہلے تو شرد پوار نے اس کی ضرورت سے انکار کیا ۔ اس کے بعد کسی فردِ واحد یعنی اڈانی کو نشانہ بنانے کی مخالفت کی اور پھر اسے ملاقات کا شرف عطا کرکے اس دباو کو کم کرنے کی مذموم کوشش کردی ۔ حزب اختلاف کے بھیشم پتامہ شرد پوار کی ان حرکات کو سمجھنے کے لیے سیاسی مبصرین اندھیرے میں تیر چلا رہے تھے مگر ان سارے سوالات کا جواب نئی کتاب کے عنوان نے دے دیا۔ابتداء میں شرد پوار کے رفیق کار عوام ہوتے ہیں مگر بالآخر یہ سلسلہ کارپوریٹ کی رفاقت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ شرد پوار کی سیاست ان دومخالف سروں کو جوڑنے کی بھول بھلیاں کا دوسرا نام ہے۔ کانگریس کے اندر اور باہر ان کا سیاسی رسوخ مالی وسائل کی فراہمی پر قائم رہا اور وہ دھن دولت کارپوریٹ کی دنیا کے بڑے سرمایہ داروں اپنے مفادات کے عوض فراہم کرتے رہے ۔ عوام اور سرمایہ داروں کے درمیان اب وہ آگ اور کھائی کی مانند پھنس چکے ہیں۔ ان کی حالت پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا پار نکلنے نہ دیا

ملک بھر میں شرد پوار کی شبیہ ایک کسان رہنما کی ہے مگر سچائی یہ ہے کہ انہیں سیاست کا ذوق وراثت میں ملا۔ ان کی والدہ شاردا بائی نے 1938 میں کانگریس کے ٹکٹ پر پہلا بلدیاتی انتخاب لڑا اور بلا مقابلہ کامیاب ہوگئیں۔ یہ سلسلہ 14؍سالوں تک جاری رہا لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ کانگریس پارٹی کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق کی بابت سنجیدہ نہیں ہے تو وہ 1947 میں کسان مزدور پارٹی (پی ڈبلیو پی ) میں چلی گئیں۔ شاردا بائی کے نو بیٹوں میں سے دو سیاست میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک اپنی ماں کے ساتھ پی ڈبلیو پی میں چلا گیا اور دوسرا کانگریس میں آگیا کیونکہ اقتدار کی کنجی کانگریس کے ہاتھوں میں تھی ۔ وہ دوسرا بیٹا شرد پوار تھا یعنی ’ پُوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے لگے تھے‘۔شر د پوار کی دلچسپی کسان مزدوروں کے حقوق سے زیادہ اقتدار کے حصول میں تھی اس لیے انہوں نے’ اپنی شرطوں پر‘1958میں کانگریس کا ہاتھ تھام لیا ۔

شرد پوار کے بڑے بھائی وسنت راو کو 1960 کے اندر پی ڈبلیو پی نے اپنا امیدوار بنایا اور وہ کانگریسی امیدوار کیشو راو جیدھے سے ہار گئے ۔ کیشو راو کا دو سال بعد انتقال ہوا تو ضمنی انتخاب ہوا۔ اس وقت تک کا نگریس شرد پوار کو یوتھ ونگ کی ذمہ داری تفویض کرچکی تھی ۔ اس بار ایک طرف وسنت راو پوار اور دوسری جانب کیشو راو کے بیٹے گلاب راو تھے ۔ شرد پوار کے لیے ایک جانب بھائی اور دوسری طرف پارٹی تھی۔ انہوں نے اپنے بھائی کے خلاف زبردست مہم چلائی اور اسے شکست فاش سے دوچار کردیا۔ اس محنت کا انہیں یہ انعام ملا کہ 1967 میں پہلی بار کانگریس نے اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا ۔ اس کے بعد لگاتار 14 مرتبہ انہوں نے اپنی کامیابی کا پرچم لہرایا۔ اسی نشست پر ان کےبعد ان کا بھتیجا اجیت پوار کامیاب ہوتا ہے۔ اس کامیابی کی ایک وجہ تو ان کا سیاسی ڈی این اے ہے دوسرے یہ کہ جب وہ صرف تین دن کے تھے تو ان کی والدہ کو انہیں بلدیہ کی ایک اہم نشست میں ساتھ لے جانا پڑا تھا غالباً وہیں سے سیاست کا وائرس ان میں سرائیت کرگیا اور ضعیف العمری کے باوجود وہ ہنوز تندرست و توانا ہے۔

شرد پوار نے کانگریس کا دامن تو پکڑا مگر حسبِ سہولت اس کو جھٹکتے بھی رہے۔ جنتا پارٹی کے زمانے میں پہلی بار وہ مہاراشٹر کے صوبائی انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر اس کو اقتدار سے محروم رکھنے کی خاطر دو حصوں میں منقسم کانگریسی یکجا ہوگئے اور کانگریسی وزیر اعلیٰ مسلط ہوگیا ۔ اس موقع پر شرد پوار نے پہلی بغاوت کی اور جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر ترقی پسند محاذ بنایا نیز وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یہ ان کی پہلی ابن الوقتی تھی مگر جنتا پارٹی کے بکھر جانے پر وہ اپنی مادرِ تبظیم کانگریس میں لوٹ آئے۔ 1996میں پہلی بار اٹل بہاری وجپائی نے حلف لیا اور تیرہ دنوں میں سرکار گرگئی۔ 1998 میں وہ پھر سے اقتدار میں آئے مگر تیرہ ماہ کے بعدپھر سے سرکار گر گئی۔ 1999 میں جب وہ تیسری وزیرا عظم کے عہدے پر فائز ہوے توشرد پوار کو اندیشہ ہوا کہ اب کانگریس پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے کانگریس سے دوسری بار بغاوت کی اور راشٹروادی کانگریس پارٹی بنائی۔ یہ دراصل سونیا گاندھی کی غیر ملکی شہریت کے خلاف بی جے پی کے ذریعہ پھیلائے جانے والے طوفانِ بدتمیزی کا اثر تھا جو شرد پوار نے خود کو قوم پرست ثابت کرنے کی سعی کی ۔ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔

2004 میں شرد پوار متحدہ ترقی پذیر محاذ یعنی یو پی اے میں لوٹ آئے۔ یہ ان کی بے بصیرتی تھی جو انہوں نے کانگریس پارٹی سے بغاوت کی۔ اس کی قیمت انہیں یہ چکانی پڑی کہ ایک سابق وزیر دفاع کو وزیر زراعت کے عہدے پر قانع ہونا پڑا۔ شرد پوار اگر کانگریس سے بغاوت کرنے کی حماقت نہیں کرتے تو بعید نہیں کہ منموہن سنگھ کے بجائے ان کو وزیر اعظم بنایا جاتا لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے شرد پوار کو اپنے اس فیصلے پر ضرور افسوس ہورہا ہوگا۔ اس مرتبہ بھی اگر مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور ای ڈی کے چھاپوں کا خوف نہ ہوتا تو بعید نہیں کہ وہ جاتے جاتے اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کرکے سیاست کو الوداع کہتے ۔ کانگریسی عقائد کے حامل شردپوار کے لیےنظریاتی طور پر بی جے پی کے ساتھ جانا کفر و فسق سے کم نہیں ہے مگر مجبوریوں نے ان کی یہ حالت بنا رکھی ہے کہ ؎
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.