تین سو میل لمبی اور پچاس میل چوڑی سابقہ ریاست بہاولپور
کے درویش صفت نواب الحاج صادق محمد خان عباسی خامس کو اس دنیا سے رخصت ہوئے
58 سال ہو چکے ہیں ۔انہوں نے 24 مئی 1966ء کو لندن میں وفات پائی ۔ 28 مئی
1966 ء کو ان کا جسد خاکی کراچی سے بذریعہ ٹرین ڈیرہ نواب لایا گیا جہاں سے
قلعہ دراوڑ کے شاہی قبرستان میں چھ پاکستانی جرنیلوں نے کندھا دے کر 19
توپوں کی گونج میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کا جسد خاکی لحد میں اتارا
۔آپ 20 ستمبر 1904ء کو بہاولپور میں ہی پیدا ہوئے ۔آپ نے اپنی تعلیم کا
آغاز 1915ء میں ایچی سن کالج لاہور سے کیا ۔1921ء کو تعلیم مکمل کرکے آپ
بہاولپور واپس چلے گئے ۔اسی سال حکومت برطانیہ نے آپ کو سی وی او کے خطاب
سے نوازا۔8 مارچ 1924ء کو وائسرائے اور گورنر جنرل ہند نے ایک عظیم الشان
دربار میں ریاست بہاولپور کی حکومت کے تمام اختیارات کی ذمہ داری آپ کے
سپرد کی ۔ریاست کے فرائض سنبھالنے کے بعد آپ نے ہر محکمے میں کافی اصلاحات
کیں ۔آپ نے اپنی ریاست میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا ۔لاہور میں ہونے
والے انجمن حمایت اسلام کے جلسے کی صدارت نواب آف بہاولپور نے کی ۔ڈاکٹر
علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے خطاب میں نواب آف بہاولپور کو خوش آمدید کہا۔اس
موقع پر اپنے خطاب میں نواب آف بہاولپور نے انجمن حمایت اسلام کے لیے ایک
لاکھ روپے عطیے کا اعلان کیا ۔اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور انجمن
حمایت اسلام کے لیے مستقل بنیادوں پر چندے کو جاری رکھا گیا ۔اس سے پہلے
نواب صادق محمد خان عباسی کے عہد حکومت میں مرزا قادیانی نے جب نبوت کا
دعوی کیا تو جسٹس محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج ریاست بہاولپور نے 7فروری 1935ء
کو اپنے تاریخی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر اور خارج اسلام قرار دیا ۔22
جنوری 1935کو نواب صاحب فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ارض مقدس گئے تو آپ کے
ساتھ چار سو افراد کا ایک قافلہ بھی تھا جنہیں آپ نے مفت حج کی سعادت بخشی
۔ نواب آف بہاولپور کے ساتھ حج کرنے والوں میں بطور خاص حفیظ جالندھری بھی
شامل تھے ۔حج کی ادائیگی سے واپسی پر ذاتی گاڑیوں کا جو بیڑا آپ کے استعمال
میں رہا وہ تمام گاڑیاں شاہ نجد اور شاہ حجاز کو عطیہ کردیں ۔ریاستی عوام
کے لیے آپ کا عظیم کارنامہ ستلج ویلی پروجیکٹ کی تکمیل تھا ۔ جس کے ذریعے
دریائے ستلج پر تین مقامات پر بند باندھ کر نہریں نکالی گئیں ان میں ہیڈ
سلیمانکی ، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند شامل ہیں ۔اس کارنامے کی بدولت چولستان
کا وافر حصہ جو پہلے لق دق صحرا تھا، پانی کی فراہمی سے آباد ہونے لگا
۔بنجرزمین فصلوں کا سونا اگلنے لگی۔چنانچہ اجناس کی خرید و فروخت کے لیے
منڈی صادق گنج ، منڈی رحیم یار خاں ،منڈی لیاقت پور ،منڈی حاصل پور ،منڈی
صادق آباد ،منڈی یزمان ،منڈی ہارون آباد اور منڈی فورٹ عباس کا قیام عمل
میں آیا جس سے عوام کو روزگار کے وافر مواقع میسر آئے۔1920ء میں ریاست
بہاولپور کا ریونیو 40 لاکھ روپے تھا جو 4 کروڑ تک جاپہنچا۔بعدا زاں
صدرپاکستان کی حیثیت سے ایوب خان نے دریائے ستلج کا پانی بھارت کو دے دیا
جس سے ریاست بہاولپور کی زراعت اور معیشت پر گہرا اثر ہوا۔نواب آف بہاولپور
اور حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے تعلقات کی ابتداء 1920ء کو اس وقت
ہوئی ، جب قائد اعظمؒ آپ سے ملنے قصرالشمش واقع ملیر کراچی پہنچے ۔10اگست
1947کو سب سے پہلے ریاستی فوج کی فرسٹ انفنٹری بٹالین نے قائد اعظم ؒ
کوسلیوٹ کیااور گارڈ آف آنر پیش کیا ۔ نواب آف بہاولپور کے دوررس کارناموں
میں بہاولپور سمہ سٹہ ریلوے لائن کی تعمیر بھی شامل ہے جو 1926ء میں بچھائی
گئی ۔یہ بغداد اسٹیشن سے ہوتی ہوئی بہاولنگر تک جاتی ہے ۔102میل طویل ریلوے
لائن کے ذریعے بہاولپور سے بہاولنگر کا سفر بذریعہ ٹرین پانچ گھنٹوں میں طے
کرلیا جاتا تھا ۔مناسب دیکھ بھال اور توجہ نہ ہونے کی بنا پر بہاولنگر سے
فورٹ عباس اور بہاولنگر سے بہاولپور تک کی ریلوے ٹریک اور تنصیبات اس قدر
خستہ حال ہوکر اپنی اہمیت کھو چکی ہیں کہ یہاں ریل کا نیا نٹ ورک تعمیرکرنے
کے لیے بہت بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی ۔ ریلوے سسٹم کی بربادی کی وجہ
سے اس کا علاقے کی ترقی وخوشحالی پر بہت برا اثر پڑا ہے ۔تمام ریاستی شہروں
کے ساتھ ساتھ کراچی اور لاہور میں بھی بہاولپور بنک کی شاخیں موجود تھیں جو
پاکستان سے الحاق کے بعد نیشنل بنک آف پاکستان میں ضم ہوگئیں۔ہندوستان کی
تقسیم کے وقت بھارت سے الحاق کے لیے نواب آف بہاولپور پر بہت دباؤ
تھا۔بھارت کی جانب سے نہری پانی ، چینی اور کپڑے کا لالچ دیا جارہا تھا
جبکہ جواہرلعل نہرو نے نواب آف بہاولپورکو بھارت سے الحاق کرنے کے عوض ایک
ارب روپے دینے کی پیش کش بھی کی تھی لیکن نواب صاحب نے اپنے ولی عہد نواب
محمد عباس خان عباسی کے مشورے سے ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستان کے ساتھ
کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ قیام پاکستان کے بعد بھی نواب آف بہاولپور نے
استحکام پاکستان کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا ۔نواب آف
بہاولپور نے فوری طور پر قائداعظم ؒ کو سات کروڑ روپے کی خطیر رقم کا چیک
پیش کیا جب حکومت ہند نے پاکستان کے حصے کے 100کروڑ روپے دینے سے انکار
کردیا تو نواب آف بہاولپور نے گیارہ کروڑ روپے نقد اور 12 ہزار ٹن گندم ،
قائد اعظم کی خدمت میں پیش کی۔اس کے ساتھ ہی ریاستی فوج کو پاکستانی فوج
میں ضم کردیا گیا ۔ اسی طرح نواب آف بہاولپور نے پاکستان ایئر فورس کے جنگی
طیاروں کی خرید کے لیے بلینک چیک بھی دیا ۔میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف موجودہ
بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی نواب آف بہاولپور کی استحکام پاکستان کے لیے
خدمات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔یاد رہے کہ ریاست بہاولپور کی بنیاد
1748عیسویں اور 1162ہجری کو امیر بہاول خان اول نے رکھی تھی ۔جہاں آجکل
بہاولپور کا شہر آباد ہے، وہاں پہلے سوڈہا کی جھوک کے نام سے ایک چھوٹا سا
گاؤں ہوا کرتا تھا ۔امیربہاول خان اول کی جاگیر اٹھارویں صدی کے درمیان
جنوب میں کوٹ سبزل احمد پور لمہ تحصیل صادق آباد سے لے کر شہر فرید( جس کا
موجود نام چشتیاں منڈی ہے)تک پھیل چکی تھی ۔اب ایک ایسے مقام کی ضرورت تھی
جہاں ریاست کا دارالخلافہ تعمیرکیا جائے ۔سب کے مشورے سے سوڈہاکی جھوک کے
نام قرعہ نکلااس زمانے میں یہیں شہر بہاولپور کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔
کیاہی اچھا ہو اگر نواب آف بہاولپور کی خدمات کے حوالے سے ایک چھوٹا مضمون
تیارکرکے تعلیمی نصاب کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلیں
بھی اپنے محسن کی خدمات کو اچھے الفاظ میں یاد رکھیں ۔
|