معاشی بدحالی ۔۔ سیاسی اژدہام ۔۔ عافیہ کا پیغام

پاکستان کی سیاست کا درجہ حرارت ان دنوں نقطہ عروج کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے، سیاستدانوں کی گرفتاریاں، وفاداریاں تبدیل کرنا اور سیاست سے دستبرداری کی وجہ سے ملکی ہیجانیت میں بھی بتدریج اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی ایک زیرک سیاستدان ہیں اور ہمیشہ سے اپنےسیاسی اثرو رسوخ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں سیاست ایک انڈسٹری بن چکی ہے تو ایسے میں پرویز الٰہی اور ایسے دیگر کئی سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاست کو ایک انڈسٹری کی طرح ہمیشہ اپنے فائدے کیلئے استعمال کیا ہے۔

چوہدری خاندان کا گجرات کی سیاست میں بہت اہم کردار رہا ہے ۔ جہاں تک مسلم لیگ (ق) کاتعلق ہے تو ماضی کی حکمراں جماعت سے وابستہ کچھ لوگوں کا اپنا ووٹ بینک ہے جس کی وجہ سے ان کے چند اہم لوگ اپنی سیٹیوں پر کامیاب رہتے ہیں۔

پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی بھی گجرات میں اپنا ایک مخصوص ووٹ بینک رکھتے ہیں تاہم معروضاتی حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنا سیاسی مستقبل پی ٹی آئی میں زیادہ محفوظ دکھائی دیتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ گجرات کی سیاست سے ہٹ کر پنجاب کی سیاست میں پی ٹی ٹی کے ووٹ بینک کے ذریعے داخل ہوسکتے ہیں۔

پاکستان میں ان دنوں پریس کانفرنس اور سیاست سے دستبرداری کا ایک الگ ہی موسم چل رہا ہے تاہم کسی بھی پارٹی کے مرکزی عہدے پر براجمان شخصیت کو یک جنبش قلم ہمیشہ کیلئے منظر نامے سے ہٹادینا تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے۔

جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو آج کے دور میں کرپشن کے معنی و مفہوم گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں تبدیل ہوچکے ہیں اور اب کرپشن سے بنائی دولت کے نشان ملک و بیرونِ ملک سرمایہ کاری اور جائیدادوں کی شکل میں مل ہی جاتے ہیں صرف کڑیوں کو جوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں ایک طرف تو سیاسی افراتفری جاری ہے تو دوسری طرف ایک بار پھر اقوام متحدہ نے بھوک اور بدحالی کا گھنٹا بجادیا ہے کیونکہ دنیا میں بھوک کی شرح بتدریج بڑھتے بڑھتے فاقہ کشی میں بدلتی جارہی ہے ، خوراک کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

دووقت کی روٹی کا حصول مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے اور لوگوں نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا ترک کرکے روٹی کے حصول کی کوشش تیز کردی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کی انتہا کو چھوچکی ہے ، بیرونی قرضے 131 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں اور اندرونی قرضہ جات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں جس کی وجہ سے معیشت مخدوشیت کی سرحدوں کو پار کرتی جارہی ہے۔

ملک میں بیروزگاری اور بدحالی بڑھتی جارہی ہے اور ایسے میں حکومت کئی غیر فعال اداروں کے لاکھو ں ملازمین پر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ملنے والے ٹیکس کا پیسہ بے دریغ خرچ کررہی ہے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ کرنا مقصود تھا لیکن معیشت پر بوجھ بنے کچھ حکومتی ادارے جونک کی طرح خاموشی سے معیشت کاخون چوس کر معاشی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔

بھوک اور افلاس سے پریشان لوگ روز اپنی زندگیاں ختم کررہے ہیں لیکن ہمارے اخراجات کم ہوکر نہیں دے رہے۔ پاکستان میں سالانہ اربوں ڈالر پام آئل اور چائے جیسی چیزوں پر اڑادیئے جاتے ہیں تاہم اگر فضول خرچی اور بے جا اسراف روک دیا جائے تو معاشی استحکام تک رسائی ممکن ہے۔حالات سے تنگ آکر اپنی جان دینے والوں کے حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے:


تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہِ اُمید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم


حالات کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو عوام کے حالات اور انتہاکو پہنچی مہنگائی سے شائد کوئی سروکار نہیں لیکن اب بھی وقت ہے کہ حکمران عوام کی حالت زار پر ترس کھائیں اور معاشی بحالی کیلئے اقدامات اٹھائیں۔

وزیراعظم پاکستان شہبازشریف بطور وزیراعلیٰ ہمیشہ متحرک نظر آتے تھے ، یہ درست ہے کہ گٹھ بندھن کی سرکار کی وجہ سے شائد انہیں آزادانہ طور پر اقدامات اٹھانے میں مشکل درپیش ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ معاشی بحالی کیلئے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے عوام کو ریلیف مل سکے کیونکہ اب بھی اگر معیشت کیلئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ایسا بحران سر اٹھائے گا جس کو روکنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوگا۔

جہاں ان دنوں سیاست کا محاذ بے انتہا گرم ہے وہاں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا سمجھی جاسکتی ہے، یہ خبر تمام اخباروں کی زینت بنی جس کی وجہ سے اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔

یہ درست ہے کہ ماضی میں عافیہ کیلئے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکا تاہم یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عافیہ صدیقی کو امریکا کے مروجہ قوانین کے تحت سزا دی گئی اور افسوس کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا قانون و معاہدہ نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا معاہدے ہوتا تو عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس لانا ممکن ہوسکتا تھا۔

اب بھی اگر پاک امریکامجرمان کی حوالگی کا معاہدہ ہوجائے تو شاید کوئی صورت نکل سکتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ کہ اگر حکومتی سطح پر صدارتی معافی کیلئے کوشش کی جائے تو شاید عافیہ صدیقی کیلئے امریکا کی قید سے نکل کر پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لینا ممکن ہوجائے۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38471 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More