پی ٹی آئی میں میں سب سے زیادہ قابل پڑھی لکھی اور اعلی
عہدیدار پر پرائیوٹ سیکٹر و گورنمنٹ اداروں میں لیکچر دینے والی پاکستان
تحریکِ انصاف کی اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں
مزاری نے حال ہی میں سیاست سے سبکدوشی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سابق
وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ سابق پارٹی
رہنما شیریں مزاری کی سیاست سے کنارہ کشی صرف تحریک انصاف کا نہیں بلکہ
پورے ملک اور اس کی جمہوریت کا نقصان ہے۔
شیریں مزاری عمران خان کی اسلام آباد سے ہونے والی گرفتاری کے ردِعمل میں
ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد گھر سے گرفتار ہونے والے پی ٹی آئی کے اہم
رہنماؤں میں شامل تھیں اور گذشتہ چند روز کے دوران انھیں کئ بار عدالتی
احکامات پر رہا کیا جاتا رہا تاہم ہر بار انھیں جیل کے باہر سے دوبارہ
گرفتار بھی کیا جاتا رہا. بار بار گرفتاریوں کے اسی تسلسل کے دوران شیریں
مزاری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ’وقتی طور پر سیاست سے کنارہ کشی اور
پی ٹی آئی چھوڑنے‘ کا اعلان کیا۔ شیریں مزاری کی گرفتاری سے پہلے بھی تحریک
انصاف کی کابینہ سے اختلاف ہونے پر کافی عرصہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے
تھیں . اس ہی دوران ان کے شوہر کے انتیقال کی وجہ سے اپنے گھر اور بچوں کی
دیکھ بھال میں اپنی زندگی میں مصروف تھیں . تحریک انصاف کے ڈپوٹیشن پر آئے
ہوئے عہدیداران کو شیریں مزاری کا عمل دخل پی ٹی آئی میں ایک آنکھ نہیں
بھاتا تھا. اکثر اخبارات میں ان کی اور پی ٹی آئی کے عہدیداران جب بھی
مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ٹھوس دلائیل کے ساتھ بحث ومباحثہ کرتیں تھیں
کبھی کبھی تو عمران خان کو بھی اُن کی پالیسیوں کی خاموشی پر بھی وہ سکون
میں تھیں . کیونکہ اکثر تحریک انصاف کی مرکزی کابینہ کے کچھ اراکین ان کا
سامنے بات کرنے سے بھی کتراتے تھے. ان کو کئ عرصہ سے بلڈپریشر و ملٹی پل
بیماریوں کی وجہ سے بھی صحت اب ان کو یہ فل وقتی سیاست اجازت نہیں دیتی تھی
ان کی ’صحت بار بار ان کا گرفتاری اور رہائی کے دوران خراب ہوتی رہی اور
جیل میں بقول راوی کے سوائے فرش کے انہیں دوران حراست بیٹھنے اور بیچھانے
کے لیے کوئی چادر اور تکیہ وغیرہ بھی نہ ہونے کی نوید عوام میں باہر آئی
ایمان مزاری ان کی بیٹی اور خاندان والوں نے دوران حراست شیریں مزاری کے
بہت مشکل وقت گزارا۔ رہائی کے بعد شیریں مزاری کی پریس کانفرنس میں ان کے
الفاظ کہ میری ترجیح میری بیٹی اور والدہ ہیں۔کاش ہر سیاستدان جب سیاست کے
میدان میں قدم رکھتا ہے تو اُس کی ترجیح صرف اور صرف اپنی جماعت اور
کارکنان اور عوام ہوتے ہیں مگر جب یہ سیاست میں آتے ہیں تو عوام میں اس طرح
کی انقلابی باتیں کرکے نوجوانوں کو سہانے خواب دیکھا کر سراب کے پیچھے لگا
دیتے ہیں. وہ نوجوان جو ابھی دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے ان کی ٹرک کی بتی
کے پیچھے لگ جاتا ہے. اور یہ انہیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر پتلی گلی سے
نکل جاتے ہیں. ایسا ہی پی ٹی آئی کے ورکروں کے ساتھ ہورہا ہے.وہ نوجوان
کارکنان وہ بچیاں جس جھنڈے اور تنظیم کے نام پر ان بڑے سورماؤں کی آواز پر
نکلے تھے. شیریں مزاری سے پہلے اور بعد میں بھی پی ٹی آئی کے کئی رہنماوں
اور کارکنان نے جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کیا اور اس کا سلسلہ تاحال جاری
ہے تاہم سابق وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری کے پی ٹی آئی سے انخلا کو
جماعت کے لیے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ خیال رہے کہ
شیریں مزاری خود کبھی انتخابی سیاست کا حصہ نہیں رہیں۔ وہ دو مرتبہ پاکستان
کی قومی اسمبلی کی ممبر بنیں تاہم دونوں مرتبہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر
خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی ممبران
میں بھی شمار نہیں ہوتیں۔ انھوں نے عمران خان کی جماعت کو سنہ 2008 میں
اپنایا۔ ایسے میں وہ پی ٹی آئی کے لیے اہم کیسے اور کیوں بنیں؟ شیریں
مہرالنسا مزاری کا تعلق بنیادی طور پر صوبہ پنجاب کے علاقے روجھان کے بااثر
مزاری خاندان سے ہے۔ ان کے والد اور والدہ دونوں سنہ 1980 کی دہائی میں
پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ہ ڈاکٹر شیریں مزاری کے والد
عاشق مزاری سابق بیوروکریٹ تھے جو پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن
نامی ایک ادارے کے سربراہ بھی رہے.۔ شیریں مزاری ڈیفینس اینڈ سٹریٹیجک
سٹڈیز کے شعبے میں اسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ ’ان دنوں
میں پاکستان کی افواج کے کئی افسران کو قومی سلامتی اور سٹریٹیجی کے حوالے
سے تعلیم اور آگاہی کے لیے قائداعظم یونیورسٹی کے ڈی ایس ایس شعبے میں
بھیجا جاتا تھا۔ یہیں سے بہت سے فوج کے اعلٰی افسران ڈاکٹر شیریں مزاری کے
شاگرد بنے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری اسی شعبے کی سربراہ بھی بنیں۔ سنہ 1999 میں
کارگل کی جنگ کے موقع پر ان کی اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی
انتظامیہ سے اختلافات ہوئے۔ ’اس معاملے پر بھی وہ انتہائی قوم پرست بیانیے
کی حامی بن کر سامنے آئیں تھیں۔ اس حوالے سے بعد ازاں انھوں نے ایک کتاب
بھی لکھی۔ اس کے بعد ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام
آباد یعنی آئی ایس ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ تنویر احمد خان کو ہٹا کر
شیریں مزاری کو اس کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ان ہی برسوں میں شیریں مزاری
پاکستان کے سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر ’کشمیر ڈیٹ لائن‘ کے نام سے
ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتی رہیں۔ ڈاکٹر شیریں مزاری سنہ 2009 میں
پاکستان کے قومی سطح کے انگریزی اخبار دی نیشن کی ایڈیٹر بنیں۔ ڈاکٹر شیریں
مزاری کی طرف سے سیاست سے کنارہ کشی کے حالیہ اعلان پر پاکستان کی خواتین
کو بہت رنج ہوا اور حیرت بھی ہوئی تھی۔ ’کیونکہ ان کے بااثر حلقوں میں بہت
گہرے تعلقات ہیں۔ بہت سے فوجی جرنیل ان کے شاگرد ہیں اور وہ خود بھی بہت
مضبوط اعصاب کی مالک ہیں۔ جب شیریں مزاری نے پاکستان تحریکِ انصاف میں
باضابطہ طور پر شمولیت کا اعلان کیا ’کیونکہ اس وقت کی پی ٹی آئی اور اس کی
قیادت کی سوچ اور شیریں مزاری کے خیالات باہم مطابقت رکھتےتھے۔ ڈاکٹر شیریں
مزاری کا اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونا ان کے لیے ایک فطری سا
عمل تھا۔ ابتدا ہی سے شیریں مزاری نے پی ٹی آئی میں اپنی جگہ بنائے رکھی۔
سنہ 2012 میں ایک موقعے پر شیریں مزاری نے قیادت کے ساتھ اختلافات کی وجہ
سے پی ٹی آئی کو چھوڑ دیا تھا۔ انہی دنوں میں انھیں پی ٹی آئی کے سوشل
میڈیا کے حامیوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جس پر ان
کی صاحبزادی ایمان مزاری خاص طور پر بہت نالاں ہوئی تھیں۔‘ تاہم اختلافات
دور ہونے کے بعد شیریں مزاری نے سنہ 2013 میں پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت
اختیار کر لی تھی۔ عام انتخابات کے بعد وہ پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کی مخصوص
نشست پر قومی اسمبلی کی ممبر منتخب ہوئی تھیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں
شیریں مزاری کی اہمیت اس لیے بھی تھی کہ وہ وزیر تھیں جو کہ کابینہ کے
اجلاسوں میں بیٹھتی تھیں اور وہاں وہ بہت سے موضوعات پر فیصلوں کی مخالفت
بھی کرتی نظر آتی تھیں۔ پی ٹی آئی ویسے تو ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس میں
جذبات یا اندھی تقلید زیادہ پائی جاتی ہے۔ شیریں مزاری کے حوالے سے جو
خبریں سامنے آتی تھیں تو ان سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کابینہ میں بعض
معاملات پر اختلافی آواز ہوتی تھیں اور کئی ایسے معاملات پر کابینہ کے دیگر
ممبران سے اختلاف بھی کرتی نظر آتی تھیں. شیریں مزاری خود دانشور تھیں اور
تدریس کے شعبے سے آئی تھیں تو ان کے اندر یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ
’اختلاف اور تکثیریت (پلورل ازم) کو برداشت بھی کرتی تھیں اور اس کی ترویج
بھی کرتی تھیں. ہر پاکستانی مرد و عورت کیا بچے و بوڑھے سب کی یہی ان کے دل
ع زباں پر یہ ہی ان کی محبت و ایثار و قربانی اس طرح کے لوگوں کی پاکستان
کی سیاست کو ضرورت ہے اور انھیں پاکستان کی سیاست میں رہنا چاہیے۔
|