کرناٹک میں شکست کے بعد مودی سرکار کی عقل کسی قدر ٹھکانے
آئی تو سب سے پہلے کشتی ایسو سی ایشن کے سربراہ برج بھوشن سنگھ کی چھٹی کی
گئی حالانکہ اس کو ہنوز جیل نہیں بھیجا گیا مگر یہ علامتی اقدام بھی احتجاج
کرنے والی خواتین پہلوانوں کی ایک جزوی فتح ہے۔ کرناٹک میں جب وزیر اعلیٰ
کی کرسی کا تنازع سلجھا اور حلف برداری کی تیاری شروع ہوئی تو سرکار کو
احساس ہوا کہ اب سپریم کورٹ کے چیٖف جسٹس سے پنگا لینامہنگا پڑے گا کیونکہ
آئندہ سال اپریل میں مودی جی کی کرسی تو جاسکتی ہے لیکن ڈی وائی چندر چوڈ
کو کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔ مودی جی کے اقتدار سے ہٹتے ہی وہ شیر ہوجائیں گے
اور پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اپنی ہتک کا انتقام لینے کے لیے کوئی کسی بھی
حد تک جاسکتاہے ۔ اس لیے پیش بندی کے طور پر کرن رجیجو کی بلی دے کر عدلیہ
کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی گئی ہے۔ سابق وزیر قانون کرن رجیجو کی برخواستگی
کے اگلے ہی دن اڈانی کو سپریم کورٹ کی جانب ملنے والی جزوی کلین چٹ اس بات
کا واضح اشارہ ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان کوئی سودے بازی ہوئی
ہےورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ اڈانی-ہنڈن برگ معاملہ میں نے سپریم کورٹ کے
ذریعہ تشکیل شدہ ماہرین کی کمیٹی کو 173 صفحات پر مشتمل سیبی کی تحقیقاتی
رپورٹ میں اڈانی گروپ کی کوئی کوتاہی نظرہی نہیں آتی لیکن جب اقتدار عدلیہ
کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔
اڈانی معاملے تو سمجھنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی فطرت کو ہے۔ اس
استحصالی نظریہ کا نصب العین منافع خوری ہے ۔ اپنے مقصدِ حقیقی کے حصول کی
خاطر یہ کسی حرام و حلال اور جائزو ناجائز طریقہ ٔ کار میں تفریق کا قائل
نہیں ہے ۔ اس کے اندر جب سیاسی عزائم جنم لیتے ہیں تو وہ دولت کے بل بوتے
پرظلم و سفاکی کے ذریعہ عام لوگوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔
تجارت کی غرض سے ہندوستان آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی اس کی ایک مثال ہے جس
نے پورے ملک کو غلام بناکر برطانوی سامراج کے حوالے کردیا۔ بہت سارے لوگ
اسے اگلے وقتوں کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں مگر آج بھی مختلف
انداز میں یہ سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ کی مشہور صحافیہ نومی کلین نے عراق سے
اپنی زمینی رپورٹنگ میں یہ پردہ فاش کیا ہے کہ کس طرح حملے کے صدمے کو غیر
ملکی کارپوریشنز کے مفاد میں استعمال کیا گیا۔ جنگ کے ذریعہ کسی ملک کو
تباہ کرنے کے بعد تعمیر نو کے نام پر ہونے والےمعاشی استحصال کو انہوں نے
"آفت سرمایہ داری" کے لقب سے نوازہ ہے۔ یہ معاملہ صرف جنگ جدال تک محدود
نہیں ہے سونامی اور کترینہ سیلاب جیسی آسمانی آفات کے بعد سری لنکا اور
نیو اورلینز میں بھی یہی کیا گیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ استحصالی ذہنیت
اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتی ۔ کسی قدرتی آفت سے لوگ ایشیا میں تباہی سے
دوچار ہوں یا امریکہ یہ دونوں سےبلا تفریق فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔
کورونا کی وباء اس کی بدترین مثال ہے کہ جس میں ایک طرف تو عام آدمی دانے
دانے کا محتاج ہوگیا اور دوسری جانب دولتمند لوگوں کے وارے نیارے ہوگئے۔
عوام کو سرمایہ دارانہ استحصال سے محفوظ رکھنے کی خاطر حکومت کو اس پر کڑی
نگاہ رکھنی پڑتی اور بوقتِ ضرورت لگام بھی کسنی ہوتی ہےلیکن کرونی کیپٹلزم
میں صورتحال بدل جاتی ہے۔ کرونی کے معنی یارِ غار یا لنگوٹیا یار کے ہوتے
ہیں ۔ اس میں سرمایہ دار اور اقتدار ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت کرکے عوام کا
استحصال کرنے لگتے ہیں۔ اس کی ایک روشن ترین مثال اڈانی ہے ۔ وزیر اعظم کے
ساتھ اس کے رشتے جگ ظاہر ہیں ۔ ملک کے عدلیہ نے بھی چونکہ اقتدار کے ساتھ
ساز باز کررکھی ہے اس لیے وہ بھی اڈانی جیسے سرمایہ داروں کا ہمنوا بنا ہے۔
ایسے میں سیبی جیسے سرکاری اداروں کی کیا مجال کے ان کے خلاف کوئی رپورٹ
لکھیں ۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ابھے منوہر سپرے کی صدارت
میں تشکیل شدہ کمیٹی نے اسٹاک مارکیٹ پر ہنڈن برگ رپورٹ کے اثرات کا جائزہ
لیا۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ کے کام کو بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش
کیں۔ کمیٹی کے مطابق ہنڈن برگ رپورٹ کا اسٹاک مارکیٹ پر زیادہ اثر نہیں
ہوا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ پورے اسٹاک مارکیٹ سے متعلق تو
تھی ہی نہیں۔ اس لیے اس پر اثرات کا جائزہ ہی بے معنی مشق ہے۔ اس تبصرے پر
ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی کہاوت صادق آتی ہے۔
ہنڈن برگ کی رپورٹ اڈانی حصص کے بارے میں تھی ۔اس رپورٹ نے مذکورہ گروپ کے
مالی حیثیت کو دنیا میں تین سے تینتیس نمبر پہنچا دیا۔ اب اگر کوئی کہتا ہے
کہ وہ کوئی خاص اثر نہیں تھا تو اسے ہٹ دھرمی کے سوا کیا کہا جائے؟ رپورٹ
میں اڈانی گروپ کے اندر بہتری کا ذکر ہے ۔ یہ دعویٰ اگر درست ہوتا تو دنیا
بھر کے سرمایہ داروں کی فہرست میں وہ دوسرے یا پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہو تا
لیکن ایسا تو نہیں ہوا ۔ اس لیے یہ سراسر کذب بیانی ہے۔سرکار کی خوشنودی کے
لیے اس طرح کا نامعقول بیان سپریم کورٹ کی رپورٹ سمیت کوئی بھی دے سکتا ہے
لیکن اس کا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہوگا ۔ مذکورہ رپورٹ میں اعتراف کیا
گیا ہے کہ اڈانی گروپ نے سرمایہ کاروں کا اعتماد جیتنے کے لیے فوری طور پر
کئی اقدامات کیے اور اس کا اثر بھی ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی ضرورت
ہی کیوں پیش آئی؟پہلے اگر کوئی خاطر خواہ اثر ہوا ہی نہ ہوتو اس کو زائل
کرنے کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ اسے نظر انداز کردیا جاتا؟؟ہنڈن برگ رپورٹ کے
سبب اڈانی گروپ کو اپنے 20,000 کروڑ روپے کے ایف پی او یعنی فالو اپ پبلک
آفر کو منسوخ کرناپڑا تھا ۔ گوتم اڈانی نے اعلان کیا تھا کہ کمپنی نے اسٹاک
مارکیٹ میں زبردست ہلچل اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے پیش نظر سرمایہ کاروں
کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ایف پی او سے
وصول کی گئی رقم سرمایہ کاروں کو واپس کرکے اس سے متعلق لین دین بند کر
دیاتھا۔
سپریم کورٹ کی کمیٹی نےتسلیم کیا کہ سیبی کی تحقیقات جاری ہیں اور اس نے
مزید وقت مانگا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ حتمی رپورٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود
اس اعلان کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اب تک کی تحقیقات میں اڈانی گروپ کے
خلاف کوئی کیس بنتا نظر نہیں آ رہا ہے ؟ کہیں یہ آگے چل کر کسی ناانصافی
کو قابلِ قبول بنانے کے لیے ماحول سازی کی ناپاک کوشش تونہیں ہے؟ اس سے یہ
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آگے بھی اگر یہی سرکار رہے اور اڈانی گروپ کے سر
پر اس کا آشیرواد موجود ہوتو سیبی کی مجال نہیں کہ وہ اڈانی کی بدعنوانی
پر انگشت نمائی کرسکے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ کی کمیٹی میں بھی جرأت نہیں
ہوگی کہ وہ کسی ناقص رپورٹ کو کمیٹی کے منہ پر دے مارے ۔ اس قضیہ کاسب سے
تشویشناک پہلو اڈانی سے منسلک 13 غیر ملکی اداروں کا ہے جو مشکوک انداز میں
اس کی ڈوبتی ناو کو پار لگا دیتے ہیں۔ فی الحال یہ کہا جارہا ہے کہ ان بے
نامی کمپنیوں کی معلومات ہنوز موصول نہیں ہوئی ہیں ۔ یہ اعتراف بھی کیا گیا
ہے کہ 2018 کے اندر قوانین میں تبدیلی کی وجہ سے سیبی کو بیرون ملک سے
معلومات اکٹھا کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ2018 میں نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا
کا نعرہ لگا کر عالمِ وجود میں آنے والی مودی سرکار ملک میں برسرِ اقتدار
تھی۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے آئین میں تبدیلی کرکے بدعنوان لوگوں
کو پکڑنے کا کام آسان بنانے کے بجائے مشکل کیوں بنادیا؟ کیا یہ حرکت
نادانستہ طور پر ہوگئی یا اڈانی جیسے خیر خواہان کو بچانے کے لیے جان بوجھ
کر کی گئی؟ یہ کون سی دیش بھگتی ہے جس میں ملک لوٹنے والے سرمایہ داروں کی
آسانی کے لیے آئین میں ترمیم کی جاتی ہے؟ عصر حاضر میں ملٹن فریڈمین نے
آزاد منڈی کے معاشی انقلاب کا جو نہایت مقبول فلسفہ پیش کیا تھا نومی کلین
نامی امریکی صحافیہ نے معاشی "شاک ٹریٹمنٹ" یا اقتصادی جھٹکے کانظریہ پیش
کر کے اس کی تائید کی ہے۔ وطن عزیز میں اڈانی کے حوالے سے ان جھٹکوں کو
محسوس کیا جارہا ہے اور حکومتِ وقت سرمایہ داروں کو تحفظ و تعاون فراہم
کررہی ہے ۔ عالمی معیشت کے تناظر میں یہ کوئی غیر متوقع صورتحال نہیں
ہے۔گودی میڈیا فی الحال یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ گوتم اڈانی نے
اپنی کھوئی ہوئی ساکھ پھر سے بنالی ہے لیکن یہ ایک فریب سے کم نہیں کیونکہ
اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو کرن رجیجو کو بھینٹ چڑھا کر ان کے لیے عدالت سے
کلین چٹ نہیں حاصل کی جاتی۔ کرن رجیجو جیسے ناکارہ اور بدزبان وزیر کی
قربانی کے عوض مودی سرکار کا عدالتِ عظمیٰ سے اڈانی کو چھڑا لینا کوئی
گھاٹے کا سودہ نہیں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بار گاندھی جی کو چتور
(ذہین) بنیا کہا تھا لیکن شاہ جی کی اس چتورائی (مکاری) کے آگے چانکیہ بھی
فیل ہے۔ اس لیے اڈانی کے مرگھٹ پر کرن رجیجو کی بلی میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|