نئے ایوانِ پارلیمان کافتتاح نلک وقوم کے لیے ایک خوشی کا
موقع ہے۔ اس سے ساری دنیا میں قومی اتحاد کا پیغام جاسکتا تھا لیکن وزیر
اعظم مودی کی نرگسیت نے اس کا بھی جنازہ اٹھا دیا ۔ ان تقریبات کا اہتمام
اس قدر رعونت بھرے انداز میں کیا گیا کہ کانگریس سمیت 19 حزب اختلاف کی
جماعتیں نئے پارلیمنٹ ہاؤس کی افتتاح کا بائیکاٹ کرنےپر مجبور ہوگئیں۔ ان
سب نے مشترکہ بیان جاری کرکے کہا کہ جمہوریت کی روح کو پارلیمنٹ سے پرواز
کر گئی ہے۔ ان کے نزدیک اینٹ اور گارے سے بنی اس عمارت کی کوئی قدرو قیمت
نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ان لوگوں نے وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے خلاف اپنی
جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ حزب اختلاف کے مطابق گوکہ حکومت
نےجمہوریت کو خطرے میں ڈال کر نئی پارلیمانی عمارت کی تعمیر آمرانہ انداز
میں کی اس کے باوجود وہ اس اہم موقع پر اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھنے کے
لیے تیار تھے لیکن صدر مملکت دروپدی مرمو کا مکمل طور پر نظرانداز کردیا
جانا ایوان کے صدر کی توہین کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام پر حملہ بھی ہے۔ اس
لیے ان کے پاس اس سے دوری بنانے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
حزب اختلاف کے بائیکاٹ نے رنگ میں بھنگ ڈال کر مودی حکومت کو اپنی مدافعت
پر مجبور کردیا ہے مگرزعفرانیوں کو اس میں بھی کامیابی نہیں مل پارہی ہے۔
پہلے تو ان اعتراض کو نظر انداز کیا گیا مگر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو
مرکزی حکومت نے اپنے وزیر ہردیپ سنگھ پوری کو میدان میں اتارا۔ انہوں
کانگریس پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کی عادت ہے جہاں کچھ نہیں ہوتا
وہاں تنازع کھڑا کردیتی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صدر مملکت ملک کا
سربراہ ہے تو وزیر اعظم حکومت کے سربراہ ہیں اور حکومت کی جانب سے ایوان کی
قیادت کرتے ہیں ۔ ان کی حکمت عملی قانون کی شکل میں لاگو ہوتی ہیں ۔ یہ
بیان دلواکر موجودہ حکومت نے اپنے لیے کئی مسائل کھڑے کروالیے ہیں۔ہردیپ
پوری نے صدر کو ملک اور وزیر اعظم کا سربراہ بتا کر دونوں میں تفریق پیدا
کرنے کی کوشش کی مگر یہ ایوان صرف حکومت کا تو نہیں ہے۔ یہ تو ملک کا ایوانِ
پارلیمان ہے جہاں حزب اختلاف اور دیگر ایسی جماعتیں بھی موجود ہیں جن کا
دونوں سے برابر کا فاصلہ ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایوان پارلیمان صرف حکومت کی پالیسی نافذ کرنے کے لیے
ہوتی ہے یا حکومت سے باہر ارکان پارلیمان کے مشورے سے قانون وضع کرکے ان کو
نافذ کرنے کی جگہ ہے۔ اس بیان کے ذریعہ بی جے پی نے اپنے سینے میں دبی ہوئی
آمریت کا اظہار کرکے اس کا برملا اعتراف کرلیا ہے گویا بلی تھیلے سے کود
کر باہر آگئی۔ ہردیپ سنگھ نے یہ دیپ بھی جلایا کہ صدر کسی ایوان کا رکن
نہیں ہوتا اس لیے ان کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آخر صدر کون ہوتا ہے؟ اس کی
تفصیل میں جانے سے قبل انہیں یہ جان لینا ضروری ہے کہ جس حکومتی سربراہ کے
آگے وہ سجدہ ریز ہیں اس کو صدر مملکت برخواست کرکے گھر بھیج سکتا ہے۔ بی
جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تین مرتبہ صدر مملکت کی خدمت
میں اپنا استعفیٰ پیش کرچکے ہیں۔ اس سے قبل حکومت سازی کا دعویٰ بھی انہوں
نے صدر مملکت کے سامنے ہی پیش کیا تھا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی
اقتدار سنبھالنے سے قبل صدرِ مملکت کی خدمت میں اپنا دعویٰ پیش کیا تھا اور
انہیں کے ذریعہ حلف برداری کرکے حکومت کا کاروبار سنبھالا ہے۔
انسان کو اپنے اقتدار کے زعم میں اپنی حیثیت نہیں بھولنی چاہیے اور دوسروں
کے مقام و مرتبہ کا بھی پاس و لحاظ کرنا چاہیے ورنہ ذلت و رسوائی کےسوا کچھ
ہاتھ نہیں آتا اور فی الحال بی جے پی کے ساتھ یہی ہورہا ہے ۔ ہردیپ سنگھ
سے بات نہیں بنی تو وزیر داخلہ کو میدان میں اترنا پڑا لیکن یہ دال ان سے
تو کیا وزیر اعظم سے بھی نہیں گلے گی ۔ قومی آئین کی دفع 19 کے مطابق صدر
مملکت ملک کا اول شہری ہونے کے علاوہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ پارلیمانی
اجلاس کو طلب کرکے خطاب کرنا اس کا فرضِ منصبی ہے۔ وہ ایوان کا ایسا اٹوٹ
حصہ ہے کہ جس کے بغیر پارلیمنٹ نہیں چل سکتی۔ اس حقیقت کا اعتراف نہ تو
وزیراعظم کرتے ہیں اور نہ ان کے ہردیپ سنگھ یا امیت شاہ جیسے اندھ بھگت
کرتے ہیں لیکن ان کی ہٹ دھرمی یا انکار سے حقائق نہیں بدلتے ۔ اس لیے صدر
مملکت کی شرکت کے بغیر نئے پارلیمنٹ ہاؤس کے افتتاح کا فیصلہ غیر
دانشمندانہ ہے۔
وزیر اعظم خود اور ان کے چیلے چاپڑ جانتے ہیں کہ صدر کے نام سے اوپر ان کا
نام نہیں آسکتا اور نہ وہ ان کے آگے پیش قدمی کرنے کے مجاز ہیں ۔ اس لیے
جان بوجھ کر اپنی جھوٹی شان بگھارنے کے لیے صدر کے اعلیٰ عہدے کی توہین کی
گئی ہے جو اس آئین کے منافی ہے جس سے پاسداری کی قسم کھاکر وزیر اعظم نے
اپنا اقتدار سنبھالا ہے ۔ نریندر مودی کے لیے ایسی من مانی کارروائیاں کوئی
نئی بات نہیں مگر یہ شورائیت کی روح کے منافی بلکہ اس کو مسلسل کھوکھلا
کرنے والی ہے۔ نئی پارلیمنٹ کی تعمیر ہندوستان کے لوگوں یا ان کے نمائندہ
ارکان پارلیمان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور نہ اس کے افتتاح کی بابت
رائے لی گئی ۔ یہ عوام کی توہین و تضحیک بھی ہے۔ہردیپ سنگھ پوری نے کانگریس
پر حملہ کرتے ہوئے دو مثالیں پیش کیں مگر اس میں بھی ڈنڈی مار دی یعنی پوری
بات کہنے کے بجائے آدھا فسانہ پیش کیا اورآدھی حقیقت چھپا دی۔
ہردیپ سنگھ بولے 24 اکتوبر 1975 کو سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایوان
پارلیمان سے میں توسیعی عمارت اینکسی کا افتتاح کیا تھا اور 15 اگست 1987
کو سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمانی لائبریری کا فیتہ کاٹا تھا ۔
اس کے بعد وہ بولے اگر کانگریس کا سربراہ یہ کرسکتا ہے تو ہمارا رہنما کیوں
نہیں کرسکتا؟ یہ سچائی ہے مگر پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دونوں عمارتیں پرانے
ایوان پارلیمان کا حصہ تھیں اس لیے ان کا اس نئی عمارت سے موازنہ درست نہیں
ہے لیکن اگر اس اعتراض کو نظر انداز کردیا جائے تب بھی یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ اس عمارت کا سنگ بنیاد 3؍ اگست 1970 کو اس وقت کے صدر مملکت وی وی
گری نے رکھا تھا۔ اس نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھتے وقت رام کووند کو بھلا
دیا گیا تو کم ازکم اس کی بھرپائی صدر مملکت دروپدی مرمو کو بلا کر کی
جاسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ایوان پارلیمان کے دارالمطالعہ کی کہانی
بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ اس عمارت کی بنیاد کا پتھر 15؍ اگست 1987 کو سابق
وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ضرور رکھا مگر اس کا بھومی پوجن 17؍ اپریل 1994
کو اس وقت کے اسپیکر شیوراج پاٹل نے کیا۔ لائبریری کا افتتاح 7 ؍مئی 2002
کو سابق صدر مملکت کے آر نارائن کے دستِ مبارک سے ہوا۔ اس طرح ان تقریبات
میں وزیر اعظم کے علاوہ ایوان کے اسپیکر اور صدر مملکت بھی شامل تھے ۔
ہردیپ پوری کے اوٹ پٹانگ دلائل کے جواب میں کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے
رام رمیش نے ٹوئٹ کیا کہ پارلیمنٹ اور انیکسی میں یہ بنیادی فرق ہے اول
الذکر میں اہلکار کام کرتے ہیں یا لائبریری بمشکل استعمال ہوتی ہے جبکہ
ایوان پارلیمان جمہوریت کا مندر اور مقدس مقام ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’
کیا مودی جی کی کابینہ میں ذہانت کی یہ سطح ہے یااسے بھکتی کی شکتی کہاجائے؟‘
اس سوال کے جواب سے ہر کوئی واقف ہے کیونکہ جس سرکار سربراہ نے سوچنے
سمجھنے کا کام ترک کر رکھا ہو اس کے وزراء کی کیا مجال کہ وہ عقل کا
استعمال کریں؟ اس تنازع نے مودی جی کی نرگسیت کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔
اس عمر میں انہیں ہر موقع کے لیے اپنے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا۔رام مندر
کی سنگ بنیاد اور افتتاح سے لے کر ریل گاڑیوں کو ہری جھنڈی دکھانا بلکہ اب
تو لوگوں کو ملازمت کے تقرر کا خط بانٹنے کا کام بھی انہوں نے اپنے سر لے
رکھا ہے۔
وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی کے علاوہ ہر کام میں
دلچسپی لیتے پھرتے ہیں ۔ کسی ریاست میں انتخاب کا اعلان ہوجائے تو ان پر
جنون سوار ہوجاتا ہے ۔ ان کو نہ جانے کس نے بتا دیا ہے کہ جو دِکھتا ہے وہ
بکتا ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ جو بہت زیادہ دکھائی دینے لگے اس سے لوگ پکنے
لگتے ہیں ۔ کرناٹک میں یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملے مودی جی کے روڈ شو میں
لوگ راہل گاندھی زندہ باد اور کانگریس پارٹی کی جئے کے نعرے لگنے لگے۔ وزیر
داخلہ یہ کہتے سنائی دئیے کہ صرف بائیک ہی بائیک ہے لوگ کہاں ہیں؟ اس عدم
مقبولیت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ من کی بات کے سامعین کی تعداد دن بہ دن
گھٹ رہی ہے۔ لوگ اسے پیسے لے کر بھی سننے کے روادار نہیں ہیں اس لیے انعامی
مقابلہ رکھنا پڑ رہا ہے اور تنقید کرنے والوں کے تبصروں سے بچنے کی
خاطرکمنٹ بکس کو بند کرنا پڑا ہےمگر اس سے بے نیاز اقتدار کے نشے میں دھت
شہرت پسند مودی جی بھول گئے ہیں کہ ؎
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے
جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|