ترک پاکستان ممالک اور سیاستدانوں میں فرق

پاکستان کو اآزاد ہوئے 76سال ہونے کواآئے مگرہماراملک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے بجائے یاتوگرے لسٹ میں ہونے کے خطرات یاڈیفالٹ کاخطرے سے لاحق رہتاہے ہے آزادی سے لے کراب تک کوئی ایساسیاستدان یامعاشی ٹیم نہیں ملی جوملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے بھارت بھی ہمارے ساتھ ہی اآزاد ہواتھا لیکن زادی حاصل کرنے کے بعد آج وہ کہاں جا پہنچا ہے آبادی کے لحاظ سے نمبر ون ہو گیا ہے تعمیر و ترقی کے اعتبار سے دنیا کے 3/4 بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے کھیل کے میدان ہوں،عالمی سیاست ہو یا علاقائی سیاست وہ ہر جگہ صف اول میں کھڑا نظر آتا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی وجہ سے وہ اقوام عالم میں اس کادرجہ بھی کہیں زیادہ ہے ہمارے حکمران صرف بیان بازی اور سیاست بازی کر رہے ہیں جبکہ ہندوستان کشمیر کو اپنا لازمی حصہ بنا کر اس کی تعمیر و ترقی میں مصروف ہے ہم صرف یوکشمیرمناکرخاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔ہوئے ایک وقت تھا نعرہ لگتا تھا پاک چین دوستی زندہ باد جس سے لگتاتھا پاکستان چین منصوبوں میں شراکت داری کریں گے مگرچین کے شراکت دار بننے کی بجائے قرض دار بنتے چلے جا رہے ہیں ہماری معیشت مکمل طور پر سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہے ہم سرمایہ کاری کی بجائے بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں مغربی عالمی اداروں نے ہمیں قرض دینے سے انکار کر رکھا ہے انہیں ہماری سیاسی ساکھ پر شک۔ہماری معاشی حالت بہت ہی کمزور ہو چکی ہے۔پاکستان کی سیاست کے گزشتہ75 سال سے ادل بدل اور باریاں لینے کا کھیل جاری ہے یہی وجہ ہے عوام کو جمہوریت ملتی ہے اس کو آمروں کے اقدامات اور فیصلے یاد آتے ہیں اور جب آمر مسلط ہو جاتا ہے اس کو جمہوری اقدار ستانے لگتی ہے۔دلچسپ کھیل میں عوام حلال حرام اور حق سچ، پسند و نا پسند، جمہوری اور غیر جمہوری عمل کی تعریف تک بھول چکی ہے۔گزشتہ کچھ برسوں سے جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں بات جمہوری اور غیر جمہوری سے آگے بڑھ چکی ہے، سیاست دانوں کا ایجنڈا فقط اقتدار تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اس کے لئے آئین کی پامالی اداروں کی تضحیک معمولی بات ہو کر رہ گئی ہے۔پہلے سب کہتے تھے ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی باریں لیتی ہے مگرجب سے عمران خان یعنی پاکستان تحریک انصاف آئی توپی پی،ن لیگ اوردیگرجماعتوں نے اتحاد بنالیا اورجونام کی اپوزیشن تھی عوام کو اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑااب تو اپوزیشن کانام تک نہیں جو عوام کو ایک دوفیصد اسبملی کے احوال بتاتے تھے اب تو حکومت بھی پی ڈی ایم کی ہیاوراپوزیشن بھی یعنی چت بھی ان کی اورپٹ بھی انکا ۔اگربات کریں ترکیہ کے رن آف الیکشن کی توترکیہ نے دنیا میں جو جمہوریت کی بنیاد رکھ دی ہے وہ جمہوریت کے بڑے بڑے دعویدار ممالک کے لئے بھی چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔ ترکیہ حکومت ترک قوم جمہوریت اور اپنی اقدار کی پاسداری کی کیسی خوگر ہے کہ رن آف الیکشن میں دھاندلی ہوئی نہ کوئی بڑی تبدیلی۔اس سے پہلے بڑے انتخابی معرکہ میں بڑی جماعتوں کے انتخابی معرکے میں بھی یہ بات ڈھکی چھپی نہیں تھی، مغربی طاقتیں فکر مودودی کے علمبردار کو دوبارہ صدر بننے سے روکنے کے لئے پورے وسائل کے ساتھ میدان میں رہیں اور پھر اُمت مسلمہ نے دیکھا پہلے راو?نڈ میں حتمی فیصلہ نہ آنے کے بعد جس انداز میں تمام جماعتوں نے اتفاق ر ائے سے28مئی کو رن آف الیکشن کا فیصلہ کیا اور پھر ترک قوم نے28مئی کے الیکشن میں جس پُرامن انداز میں جمہوری عمل مکمل کیا اس کو داد دینا چاہئے۔پاکستانی سیاست جو اَنا، ضد، ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ان کو ترکیہ کی جمہوریت سے سبق لینا چاہئے۔اگر کہا جائے کہ پاکستان میں نامساعد حالات میں بے یقینی اور نا امیدی کی صورت میں اردوان کا ترکیہ ہمارے لئے امید بہار کی حیثیت رکھتا ہے تو غلط نہ ہوگاجنگ عظیم اول میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد اتا ترک کے ترکی نے بچے کھچے ترکوں کو سمیٹا۔ یہاں سیکولر ازم اور فوج کے اتحاد نے اسلام کی بیخ کنی کی تصوری کاوشیں کیں دوسری طرف ترکی کے معاشی حالت بتدریج کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے۔ ترکی مرد بیمار کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ پھر منظر پر طیب اردوان ابھرے عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اردوان نے ترکی کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ آئینی طریقے سے ترکی کی فکری و نظری بنیادوں کو صراط المستقیم پر لگایا۔ اردوان کی عوام میں پذیرائی ہر دلعزیزی کا کمال ہے کہ اردوان گیارہویں مرتبہ عوامی تائید حاصل کرنے والے پہلے مسلمان حکمران ہونے کا منفرد اعزاز حاصل کر چکے ہیں جس طرح فرانس اور ڈیگال کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح ترکی اور اردوان ایک دوسرے کے ساتھ جڑ چکے ہیں۔اگر بات کریں رجب طیب اردوان کی کہ گزشتہ 20 سالوں سے ترکیہ کے عوام طیب اردوان کو ہی اپنا حکمران کیوں چن رہی ہے؟کوئی حکومت گرانے کی سازش کرے تو عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جاندینے پررضامندہوتی ہے مگر حکومت نہیں گرانے دیتی، آخر وجہ کیا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو طیب اردوان کو ترکی کا حکمران بننے پر گونج رہیراقم نے کچھ انفارمیشن اکٹھی کرنے کی کوشش کی ہے جو قارئین کی نظرہے اروان نے ترکیہ کی ''لولی لنگڑی معیشت'' کو نا صرف اپنے پاو?ں پر کھڑا کیا بلکہ دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان لا کھڑا کیا۔چند سالوں میں ترکیہ معیشت کو 111 ویں نمبر سے اٹھا کر 16 ویں نمبر پر لے آئے۔اردوان کے آنے سے پہلے ترکیہ بھی مہنگائی، بیروزگاری، غربت اور بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا.اردوان بیروزگاری کی شرح 38 فیصد سے کم کرکے 2 فیصد پر لے آئے ہیں اگرآمدنی کی بات کریں تو10 سال پہلے ترکیہ میں فی کس سالانہ آمدن 3500 ڈالر تھی جبکہ آج 13000 ڈالر ہے رجب طیب اردوان جانتاہے کہ دوسروں کے پیسوں پر ملکک نہیں چل سکتااس لیے 2017 میں تمام بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرلی اب الٹا ورلڈ بینک ترکیہ کا اربوں ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے، آج 190 ممالک میں ''ترک مصنوعات'' پہنچ رہی ہیں جس سے.برآمدات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ کیا اور محض 6 ارب ڈالر کی برآمدات کو 200 ارب ڈالر پر لے گئے،امریکہ نے جب ترکیہ کرنسی ''لیرے'' پر پابندی لگا کر لیرے کو ڈالر کے مقابلے میں ''ٹکا ٹوکری'' کرنے کا منصوبہ بنایا تو ترک عوام نے اردوان کی درخواست پر نا صرف ڈالر کا بائیکاٹ کیا بلکہ ہر اس چیز کو خریدنا بھی بند کردیا کہ جس کا تعلق ڈالر سے تھااور جس کے پاس جتنے ڈالر تھے انہوں نے لاکر مارکیٹ میں پھینک دیے اب ترکیہ مارکیٹ میں کوئی ڈالر کا خریدار نہیں ملتا رجب طیب اردوان کے دس سالوں میں 125 نئی یونیورسٹیاں، 190 کالجز اور 1 لاکھ 70 ہزار نئی کلاسز بنائیں اور اردوان نے اعلان کیاکہ ترکیہ میں کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم بالکل مفت ہوگی اور اس کا بوجھ حکومت اٹھائے گی،استاد کی تنخواہ ڈاکٹر کے برابر کرکے اساتذہ کے احترام میں اضافہ کیا، اگرترقیاتی کاموں پر نظردوڑائیں توبے شمار ترقیاتی کام کیے جن میں چندایک یہ کہ 13500 کلومیٹر سڑکیں بنائیں، 1076 کلومیٹر ریلوے لائن بچھائی اور نئی ٹرینیں چلوائیں.ترکیہ کی قومی ایئر لائن کو دنیا کی ساتویں بڑی ایئرلائن بنایا اور 24 نئے ایئرپورٹس کی تعمیر کروائے.510 نئے ہسپتال اور 35000 ٹیکنالوجی لیب بنوائیں.ترکیہ کے ہر باشندے کا علاج مکمل مفت کردیا.ترکیہ کی قوم نے بھی ان عظیم کارناموں کا صلہ یوں دیا کہ اردوان کے خلاف ہونے والی سازش کو ناکام بنانے کے لیے جانیں دے دیں مگرحکومت نہ گرانے دی ترکیہ میں سب سیاست دانوں نے مل کر الیکشن اصلاحات کیں اور ذاتی، شخصی، گروہی یا سیاسی مفادات کی بجائے قومی مفادات کو مقدم رکھا.یہی وجہ ہے کہ ترکیہ زلزلوں آفات کوجھیلتے ہوئے بھی ترقی کررہاہے۔یقیناًترکی پاکستان کے لئے اور اردوان ہمارے سیاستدانوں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔ مخلص اور قابل قیادت کسی بھی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے اردوان کا ترکی اس کی شاندار مثال ہے جمہوریت کی کامیابی عوام کی کامیابی ہوتی ہے ملک کی تعمیر ہوتی ہے ترقی ہوتی ہے۔ ترکی اس کا عملی نمونہ ہے سوچنے کی بات ہے کہ ہم ابھی تک کیوں ایک کامیاب ملک اور قوم نہیں بن سکے ہیں ہم عوام اورہمارے سیاستدانوں کو چاہیے ترکی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں اورپاکستان کو ترقی کی راہ پرلے جائیں۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 2 Articles with 746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.