عافیہ سے قلیل ملاقات( طویل دکھ وتکالیف کی داستان)

 عافیہ صدیقی کی 2003کی قیدسے اب تک رہائی کے لیے تندو تیز مہم چلتی رہی جس کی مجھ جیسے سینکڑوں لکھاری بھی اس جہاد میں شامل ہیں ہم اگر کہیں اپنی زندگی یاکام میں مصروف ہوبھی جائیں تو ان کی بہن فوزیہ صدیقی نہ توخود بھولتی ہے اورنہ ہم لکھنے والوں کو بھولتی ہے یہاں تک کہ فوزیہ صدیقی نے ہر در پر دستک دی جہاں بھی اسے رہائی کے لیے امید کی کرن نظر آتی۔ پاکستان میں عافیہ کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن تحریک انصاف اور اب بارہ تیرہ پارٹیوں کی حکومت ہے، ان میں سے ہر حکومت کے ذمہ داروں نے عافیہ صدیقی کی رہائی میں کردار ادا کرنے کی حامی بھری۔ عافیہ کی والدہ جب زندہ تھیں توانہوں نے بھی کئی حکمرانوں سے ملاقاتیں کی اورانہیں بھی ہرجگہ دلاسہ ملااوروہ اپنی بیٹی کودیکھے بغیردنیاسے چل دیں سیاستدان فوزیہ صدیقی کو بھی دلاسے دیتے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کررہے ہیں مگربظاہر کوئی بڑی کوشش دکھائی نہیں دی لہٰذا وہ بدستور امریکہ کی قید میں ہے اور یہ 86سال کی قید ہیاورجب 86سال سزا کا ٹ کر رہا ہونگی تو ان کی عمر سوا سو سال ہوچکی ہوگی۔ فوزیہ صدیقی کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان کی عافیہ سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ عافیہ کراچی سے2003ء میں جنرل مشرف کی حکومت کے دنوں میں 3بچوں سمیت لاپتہ ہوئیں۔5سال بعد امریکہ نے ان کی غزنی افغانستان سے گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ تعلق القاعدہ سے جوڑا گیا۔ ان سے 2کلو سائنائڈ اور کیمیائی ہتھیار بنانے کا فارمولا بر آمد ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ وہ امریکی فوجیوں پر حملے کی مبینہ منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ ان پر تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں پر فائرنگ کا الزام ہے۔ جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوئیں۔2010ء میں ان کو 86سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اب امریکہ کچھ مہربان ہوا ہے لہٰذا عافیہ صدیقی کی رہائی کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ ڈاکٹرعافیہ کی86سال قیدکے پروانے کے بعد اب تک عافیہ کوامریکہ نے بندی بنایاہواہے صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں اور بات چیت کا راستہ کھل گیا ہے جوان شا اﷲ رہائی کاپروانہ ثابت ہوگاچندروز قبل فوزیہ صدیقی نے ڈاکٹرعافیہ صدیقی سے20 سال بعد امریکی جیل میں ملاقات ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو اپنی بہن عافیہ صدیقی سے ملاقات کرنے کی اجازت دی گئی توڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روزانہ اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ عافیہ صدیقی نے اپنے بچوں سے متعلق بھی خیر خیریت دریافت کی یہاں تک کہ عافیہ کواپنی والدہ کی وفات کی خبربھی نہ تھی۔ اگرایک بہن ہونے کے ناطے سوچیں توتین گھنٹے کی مختصر ملاقات بیس سال کی جدائی اور غموں کا مداوا کہاں کرپائی ہوگی۔ان بیس برسوں کے اندوہناک مظالم نے جہاں چھوٹی بہن کو وقت سے بہت پہلے بوڑھا، کمزور اور معذور کردیا وہیں بڑی بہن بھی اپنی چھوٹی پیاری بہن کی رہائی کیلیے بیس برس کی تگ و دو کے بعد اس ’’تھوڑی دیرکی ملاقات‘‘ تک رسائی حاصل کرپائی۔ بڑی بہن کیلیے یہ کرب بھی کم نہ تھا کہ شیشے کے پار اس کی چھوٹی بہن کے دانت گرے ہوئے آہوں، سسکیوں اور نہ تھمنے والے آنسوو?ں کے ساتھ ملاقات کا وقت تو ختم ہوگیا لیکن دل کا کرب کیسے مٹ سکتا ہے۔ ان بیس برسوں کی جدائی کا زخم کیسیختم ہوسکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑامرہم ہے مگر غیروں کی قید میں قوم کی بیٹی کے یہ بیس سال، بیس صدیوں سے کم نہیں ہیں۔ستم ظریفی دیکھیے کہ پاکستانی حکومتوں پر اپنی اس قوم کی بیٹی کے حوالے سے ہمیشہ ازلی بے حسی طاری رہی۔ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے حقیقی معنوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں کی ہوں۔ صرف روایتی بیان بازی اور لفظوں کی شعبدہ گری سے قوم کو بہلانے کی کوشش کی گئی۔ وعدے، وعید، دعوے کیے گئے لیکن سب رائیگاں گئے۔ قومی غیرت اور حمیت کا جاگنا بھی سمندر کا جھاگ ثابت ہوا۔ صرف باتیں بنائی گئیں لیکن قوم کی یہ بیٹی آج بھی غیروں کی قید میں ہے۔ جیل میں قید اِس بیٹی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اُس کی ماں اُس کی راہ تکتے اس دنیا سے کب کی رخصت ہوچکی۔ قوم کی یہ بیٹی اپنی گرفتاری کے وقت اپنے نوزائیدہ بیٹے کیلیے بھی فکرمند ہے لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس وقت چھ ماہ کا سلمان زندہ بھی ہے یا نہیں؟کیا قوم کی اس بیٹی کو انصاف ملے گا؟ کیا عافیہ صدیقی کبھی رہا ہوکر واپس اپنے وطن، اپنوں کے درمیان آسکیں گی؟ ان سب باتوں کا انحصار پاکستانی حکومت کی جانب سے پرخلوص کوششوں پر ہے۔ اگر پاکستانی حکومت واقعی چاہے تو عافیہ وطن واپس آسکتی ہے وگرنہ یونہی باتیں بنتی رہیں گی اور لوگ اپنی سیاست چمکانے میں یہ بھول بیٹھیں گے کہ قوم کی بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں یوں غیروں کے حوالے نہیں کی جاتیں۔ہرایک نے عافیہ صدیقی کا نام توسناہے مگرکئی لوگوں کو اب بھی ان کے متعلق پتہ نہیں اورشاید کئی لوگ انہیں بھول گئے ہیں چلو پھراپنے قارائین کو ڈاکٹرعافیہ کے بارے میں تھوڑاسابتاتی چلوکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2مارچ 1972کوپیداہوئیں اورہمیشہ انسانیت کی خدمت میں زندگی بسرکی اوریہی انکی زندگی کیلئے سزابن گئی۔عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عافیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا جائے تو وہ کون سا ظلم ہے جو اکیلی عافیہ پر نہیں کیا گیا۔ ایک عورت کو جس طرح ستایا جاسکتا ہے وہ تمام حربے عافیہ پر آزمائے گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ایک عورت پر جو جو مظالم کئے جاسکتے ہیں وہ تمام مظالم اکیلی عافیہ نے سہے ہیں۔ذرا سوچئے، اغواء اسے کیاگیا، بچے اس سے چھینے گئے، سرحد پار انسانی اسمگلنگ کا جرم اس کے ساتھ کیا گیا،خفیہ عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم اس پر ڈھائے گئے، پانچ سال تک اسے لاپتہ رکھا گیا،گولیاں اسے ماری گئی، پاکستانی شہری ہونے کے باوجود غیرقانونی طور پر پہلے پاکستان سے افغانستان اور پھرافغانستان سے امریکہ منتقل کیا گیا،جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ اس پر قائم کیا گیا، عدالت میں قانونی دفاع کے حق سے محروم رکھا گیا،مرضی کے وکیل کرنے کا حق اس سے چھین لیا گیا، جو جھوٹا الزام لگایا گیا تھا وہ ثابت نہ ہونے کے باوجود 86 سال کی ناقابل فہم سزا سناکر اب اسے امریکی جیل کی اندھیری کوٹھری میں قید تنہائی کی اسیر بنا دیا گیا ہے۔تحریر کے متعلق کچھ چیزیں سرچ کررہی تھی توسامنے اآیاکہ عافیہ کو ''Woman of the Century'' کا خطاب امریکی تنظیم آئی آر سی (IRC) نے دیا تھامگرپھراسی عورت کی زندگی کوجہنم سے بڑھ کربنادیاگیا۔اگرہمارے حکمرانوں کویادنہیں توہم یادلادیں کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کو ہندو اکثریت کی غلامی سے نجات دلاکر ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور معیشت کی حفاظت کرنا تھا مگر بدقسمتی سے عافیہ کواسی مملکت کے قیام کے مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر تین بچوں سمیت اغواء کرکے امریکیوں کے حوالے کرکے پاکستانی شہریوں کی ’’جان، مال، عزت وآبرو اور معیشت کی حفاظت‘‘ کے وعدے کو پیروں تلے روندا گیا۔ ہم بار بار حکمرانوں اور ارباب اختیار سے اسی وعدے کے تحت عافیہ کو امریکی قید ناحق سے رہا کراکے وطن واپس لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن پاکستان میں عافیہ موومنٹ کے زیر انتظام عافیہ کی رہائی کی تحریک چلا رہی ہیں۔سابق و موجودہ حکمرانوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے وعدے تو کئے لیکن اقتدار ملنے کے بعد ان وعدوں کو بھول گئے۔کسی نے بھی عافیہ کی رہائی کے لئے کردار ادا نہیں کیا۔میرا یہ سوال ہر ذی شعور انسان سے خواہ وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی رنگ و نسل و مذہب سے متعلق ہو، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ آج اگر اس عافیہ کی جگہ ان کی اپنی بہن یا بیٹی ہوتی تو وہ کیا کرتے؟؟؟سوچیں اور خوبب سوچیں جواب اگر ہوں تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے آپ کو جواب دے دینا اور اگر نہ ہو تو روز آخرت میں اس وقت کیلئے تیار رہنا جب عافیہ ایک جانب ہوگی وہ کہے گی کہ اس نے میری رہائی کیلئے کچھ نہیں کیا، وہاں منصف آج کے جج نہیں ہونگے بلکہ اس کائنات کے خالق اﷲ رب العزت ہونگے اوریہ بات یاد رہے کہ وہ ذت کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتی۔میں بطورلکھاری کم از کم خاموش رہنے والوں کی صف میں نہیں کھڑی رہ سکتی اس لیے باربار لکھتی رہتی ہوں۔ امیدہے عافیہ ہمیں اپناگناہ گارنہ کہے مگر ہمارا ضمیر بار بار دھتکارتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے پاکستان کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے کارکن بارہا آواز بلند کرتے آئے ہیں اور عوامی سطح پر کئی بار ان کے حق میں مظاہرے بھی ہو چکے ہیں ا۔ان کی بہن فوزیہ صدیقی اور خاندان کے دیگر افراد بھی عافیہ کی رہائی کے لیے تحریک چلاتے آئے ہیں۔انسانی حقوق کے وکلا کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی ایک ایسا انوکھا کیس ہے،جس کے لیے امریکہ اور پاکستان کے درمیان رابطہ منقطع ہے۔لیکن کیا پاکستان کی حکومت نے عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لیے کافی اقدامات کیے ہیں؟محمد اظہر صدیقی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملہ کئی مرتبہ ہائی کورٹ بھی آیا، سپریم کورٹ بھی گیا،لیکن کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔’’مثال کے طور پر حکومتی سظح پر بات ہونی چاہیے تھی،اگر ان کے خلاف کوئی الزامات تھے تو شفاف مقدمے کا حق تو انہیں ملنا چاہیئے تھا،لیکن پاکستان کی طرف سے میں نے کچھ ایسا نہیں دیکھا‘‘۔ایڈووکیٹ محمد اظہر صدیقی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اگر پاکستانی کسی ملک میں کسی بھی جگہ ہو تو پاکستانی قانون اس پرلاگو ہوتا ہے یعنی اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو ہم پاکستانی لا ئکے مطابق بھی اسے ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ آخرمیں ایک قلم کارہونے کے ناطے یہی کہوں گی کہ اﷲ پاک ایساسبب بنائے کہ عافیہ پاکستان واپس آجائے اورفوزیہ صدیقی کے ساتھ سب کے چہرے پرمسکان نظرآنے لگے۔

 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 30852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.