پاکستان ایران گیس پائپ لائن معاہدہ پایا کچھ نہیں کھویا ہی کھویا

2014 میں ہاکستان نے آصف علی ذرداری کے دور میں ایران سے ایک گیس اور تیل کا معاہدہ کیا تھا جس میں لائن بچھانے کا معاھدہ بھی تھا مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد پاکستان نے اس معاہدے کو توڑ دیا اگرچہ ایران نے اپنی لائن بچھا لی مگر ہم نے نہ بچھائی۔ہم نے یہ لائن اس لئے نہیں بچھائی کہ امریکہ اور یورپ ہم پر پابندیاں لگا دیگا اور آئی ایم ایف بھی ہمیں قرض نہین دیگا۔ لہٰزا ہم نے اس لائن کو نہ بچھایا۔ ایران کیساتھ ہونے والے اس معاہدے میں یہ با ت دستخط شدہ ہے کہ اس معاہدے کی بر وقوت تکمیل نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ایران کو18 بلین ڈالر ادا کرنے کا پابند ہوگا یہ معاہدہ 2014 میں ہوا تھا جو دس سال کیلئے تھا اور اسکے دس سال 2024 میں مکمل ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اسے وہ 18 بلین ڈالرز ادا کرنا ہونگے اور زرا سوچئے کہ یہ اتنی بڑی رقم ہم کہاں سے ادا کرینگے۔ جبکہ ہم ایک بلین ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور منت سماجت کر رہے ہیں۔ اب زرا سوچیں کہ اگر 18 بلین کا یہ جرمانہ ہم پر پڑ گیا تو اس قوم کا حال کیا ہوگا۔ ہماری قوم نے آجتک نہیں سوچا کہ ہم اپنے منتخب کردہ نمائیندوں سے انکے کتروتوں کا حساب کتاب لینے کا حق بھی رکھتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے ٹیکسوں پر پلتے ہیں اور ہمارے ھی پیسے استعمال کرتے ہیں، اب یہ 18 ملین ڈالر جو ہمیں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر ادا کرنا ہونگے کیا یہ اپنی جیب سے ادا کرینگے؟؟ تو جواب نہیں میں ملتا ہے۔ اسکا تمام بوجھ پاکستان کے 1ن 24 کروڑ عوام کے کندھوں پڑ ے گا جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ مہنگائی نے ایک عام آدمی کا جینا دوبھر کرکے رکھدیا ہے اور لوک بھوک اور ننگ سے تنگ آ کر خود کشیان کر رہے ہیں، عورتیں اپنے جسم فروخت کر رہی ہیں اور اپنے بچو کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتی ہیں۔ جسم فروشی اور خود کشیوں کے واقعات حد درجہ بڑھ چکے ہیں، حکومت اپنے اللے تللوں میں مصروف ہے عوام بھوکی مر رہی ہے مگر حکومت کو اپنی گدی بچانے کے سوا اور کچھ نہیں سوجھ رہا۔بیرونی دورے ہیں اور حکومت کی پوری مشینری شاہ خرچیوں میں مصروف ہے۔ مہنگائی کے طوفان نے جہاں ایک عام آدمی کو محرونیوں سے دوچار کیا ہے وہیں اب مہنگائی کا ایک بہت بڑا طوفان آنے والا ہے کیونکہ یہ 18 بلین ڈالر جو ہمیں ایران کو ادا کرنے ہیں یہ ہماری جیبوں سے ادا کئے جائینگے کہ یہ ہماری حکومت کی بہت بڑی نا اہلی ہے۔ ہم ہیں کہ خاموش بیٹھے ہیں اور حکومتیں اپنی من مانیاں کر کے اپنی نا عاقبت ادیشیوں کو ڈائریکٹ عوام کے کاندھون پر ڈال دیتی ہے جس سے عوام مزید کچلے جا رہے ہیں۔ حکومت ہمارے ٹیکس سے اکٹھے کئے پیسوں کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر ہڑپ کر جاتی ہے۔ اب حکومت نے ان 18 بلین ڈالرز کے اس معاملے کو امریکہ سرکار کے در پر رکھ دیا ہے کہ ابا حضور یا تو ہمیں یہ لائن بچھانے دیں یا ہھر یہ 18 بلین ڈالرز پ ادا کر دیں اب دیکھنا یہ ہپے کہ بلی تھیلے سے کب باہر آتی ہے۔ اگر ہم یہ لائن مکمل کر لیں اور امریکہ کی گیدڑ بھبکیوں سے باہر نکل آئین تو ہمیں اسکا اتنا بڑا فائیدہ ہو سکتا ہے کہ ہماری سوچ سے بھی پرے۔ تیل اور گیس کی قیمتیں کم ہو جائینگی، اور بجلی کی قیمتیں بھی کم ہو جائینگی جس سے روز مرہ زندگی میں آسانیاں لائی جا سکتی ہیں اور مہنگائی کا خاتمہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ روز مرہ کی ضروریات زندگی میں استعمال ہونے والی اشیائے خور دو نوش کی قیمتیں کم ہو جائینگی، بار برداری کے کرائے کم ہونے سے قیمتیں کم ہو جائینگی اور زندگی میں آسانیاں پیدا ہیو سکتی ہلیں۔ ایران کے پاس دو ہی چیزیں ہیں تیل اور گیس اگر ہم اس معاہدے کی تکمیل میں کامیاب ہو جائیں تو ایران کو ہم ایک ذرعی ملک ہونے کے ناطے زراعت اور کھانے پینے کی اشیا درامد کر کے ایک اچھا خاصا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ہماری عوام کیلئے بہتر ہوگا۔

میرے سامنے اس سارے منظر کی جو تصویر بن کر آ رہی ہے وہ کچھ اسطرح ہے کہ ہر طرف درندگی کا عالم ہوگا، انسانیت دم توڑتی نظر آئیگی، بھوک کا عالم ہوگا، قوت خرید ختم ہو جائیگی، ادویات مہنگی ہونگی جو ایک عام آدمی کے بس کا روگ نہیں ہوگی، تعلیم نا پید ہو جائیگی، لوگ مرنے کیلئے ترس رہے ہونگے مگر موت نہین آئیگی کہ موت بھی اتنی مہنگی ہوگی جس پر 40 ہزار کا خرچہ ہوگا، ہر طرف چوریاں، ڈاکے، قتل و غات گری ہوگی، عزتیں پامال ہو رہی ہونگی، انسان انسان کو کھانے کے درپے ہوگا۔ ہر طرف موت کا رقص ہوگا، کھانے پینے کی اشیاء نا پید ہونگی، انصاف اور قانون ایک طبقے کی پہنچ میں ہونگے، آئین کی دھجیاں اڑ رہی ہونگی، ننگی جارہئیت کا کھیل کھیلا جا رہا ھوگا اور حکمران خوعد کو ان بھوکے ننگے لوگوں سے خود کو بچانے کیلئے اپنے محلات میں ھپتی پھر رہی ہوگی۔ آؤ سوچیں اس سے پہلے کہ ہماری سوچ بھی انکی غلام ہو جائے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.