ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
اکثر و بیشتر محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارا معاشرہ اعتدال اور توازن سے محروم
ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ معاملات حیات میں ہمارے رویے، ہماری سوچ،
بھی اعتدال سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے۔مثال کے طور پر اپنی مسلح افواج کے
بارے میں ہم افراط و تفریط کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی تعریف و توصیف کرنے پر
آتے ہیں تو تحسین کے ایسے ڈونگرے برساتے ہیں جو تھمنے میں نہیں آتے ۔ اور
جب ان پر تنقید کرتے ہیں تو حدوں سے باہر نکل جاتے ہیں۔ ایک بنیادی بات جو
ہمیں ملحوظ رکھنی چاہیے اور جس کا ہمیشہ احترام کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ
ہماری مسلح افواج ہمارے وطن کی فصیل دفاع کی ضامن ہیں۔ وطن کی خاطرہمارے
فوجی جوان اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ اپنا لہو دیتے ہیں۔ بہادری سے لڑتے
ہیں۔ ہمارے مستقبل کے لئے ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئے، اپنے بچوں کے
مستقبل کو داو پر لگا دیتے ہیں۔اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر، اس مٹی کو خون
دیتے ہیں۔ دفاع وطن کے لئے یہ کردار ادا کرنے کے حوالے سے ان کی عزت و
احترام اور ان سے محبت ہماری سرشت میں ہے۔ یہ احساس ہماری سرشت میں رہنا
بھی چاہیے۔یہ افواج کی محبت ہے کہ آج بھی ہم ملی نغمے سنیں تو ہماری آنکھوں
میں آنسو آ جاتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے اپنی افواج کے بارے میں جو رویہ دیکھا ہے وہ نہایت قابل
افسوس ہے اور قابل گرفت بھی۔ سیاست یقینا اقتدار کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں
اقتدار سے محرومی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ہرگز کوئی زندگی موت کا معاملہ
نہیں ہے۔ عمران خان نے لیکن اسے زندگی موت کا معاملہ بنا کر پیش کیا۔ بہت
سی جماعتیں اور سیاست دان اقتدار سے محروم ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی
تاریخ پر نگاہ ڈالیں۔سیاسی لیڈر پھانسیاں چڑھتے رہے۔ جیلوں میں ڈالے گئے۔
جلا وطن ہوتے رہے۔ قتل ہوتے رہے۔ لیکن یہ نہیں ہواکہ آپ اپنی مسلح افواج سے
شکایت ہونے کے باوجود ان پر چڑھ دوڑیں۔ انہیں گالیاں بکنے لگیں۔ ان کی
تنصیبات پر حملے کرنے لگیں۔ وہ کچھ کریں جو تحریک انصاف کے شر پسند حامیوں
نے کیا اور جس کا نقشہ ہم نے 9 مئی کو دیکھا۔ یہ وہ قلعہ ہے جو سلامت رہنا
چاہیے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے دشمن کو سب سے زیادہ اسی قلعے کی مضبوطی سے
تکلیف ہوتی ہے۔ لہذا جب ہم پیچھے پلٹ کر دیکھتے ہیں ، سانحہ 9 مئی کو
بھلانا چاہتے ہیں تو بھلا نہیں سکتے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسے بھلانا چاہیے
بھی نہیں ۔ اس شر انگیزی کو ہم نے یوم سیاہ کے طور پر منایا ہے۔ اسے مناتے
رہنا چاہیے۔ تاکہ سب کو یاد رہے کہ سیاسی مقاصد کے لئے ایک جماعت نے کس طرح
شہیدوں کی بے حرمتی کی ۔ ہمارے ہاں مرنے والوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہم
قبرستان جائیں تو عام قبر پر بھی پاوں نہیں رکھتے۔ لیکن تحریک انصاف کے
حامیوں نے شہیدوں کی قبروں کو ادھیڑ پھینکا ۔ ان کے مجسموں کو اکھاڑ
پھینکا۔ ان کی علامتوں پر ڈنڈے سوٹے برسائے ۔ انہیں گالیاں دیں۔
جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری کسی نہ کسی پر تو عائد ہوتی ہے۔ لازم ہے کہ اس
سب کے ذمہ داروں کا ، شرپسندوں کا ، ان کے سہولت کاروں، ان کے منصوبہ سازوں
کا تعین ہونا چاہیے۔ قوم چاہتی ہے کہ ان سے حساب لیا جائے۔اور جلد از جلد
لیا جائے۔تاہم قوم یہ بھی چاہتی ہے کہ اس عمل کی زد کسی بے گناہ پر نہ پڑے
۔ یعنی کسی بے گناہ کو سزا نہ دی جائے۔ جتنا اس بات کو یقینی بنائیں گے ،
اتنا ہی یہ عمل معتبر ہو جائے گا۔ یہ بھی دیکھیے کہ تحریک انصاف میں ٹوٹ
پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ تحریک انصاف کے بہت سے نمایاں لوگ بھی عمران خان کا
ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔ عمومی طور پر اس طرح جماعتوں کی توڑ پھوڑ کا عمل قدرتی
نہیں ہوتا۔ لوگ دباو کے تحت بھی اپنی سیاسی وابستگیا ں تبدیل کر لیتے ہیں۔
ہواوں کا رخ دیکھ کر بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس ٹوٹ پھوٹ میں بھی
کچھ لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ گئے ہوں۔ لیکن یہ بھی
حقیقت ہے کہ 9 مئی کو جس طرح کی شر انگیزی ہوئی، اس کا بوجھ اٹھانا کوئی
آسان بات نہیں ہے۔جس تیزی سے لوگ عمران خان کی جماعت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں
ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ بھی
پہلی مرتبہ ہی ہوا ہے۔ لوگ کسی سیاسی لیڈر سے کتنی ہی محبت کرتے ہوں ۔ وہ
اس قسم کی شر انگیزی کو پسند نہیں کرتے۔ فوج کے سیاسی کردار کوعمومی طور پر
پسند نہیں کیا جاتا۔ اس کردار کو پسند کرنا بھی نہیں چاہیے۔ تاہم اس سیاسی
کردار اور مارشل لاوں وغیرہ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو لوگ اپنی فوج کو بے حد
پسند کرتے ہیں۔ اس کے جذبہ دفاع وطن کو سراہتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ
کسی سیاست دان کی محبت میں لوگ اپنی فوج کو نا پسند کرنے لگیں؟
بہت سے لوگوں کو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عسکری تنصیبات کو نشانہ بنا ناحب
الوطنی کے خلاف تھا۔ خوفناک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنماوں اور
کارکنوں کی جو مبینہ آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں۔ وہ اس جانب اشارہ کرتی ہیں
کہ یہ سب باقاعدہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت تفاخر
سے اطلاع دی جا رہی ہے کہ کور کمانڈر ہاوس میں سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا
گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آڈیو لیکس کا جائزہ لیں تو نقشہ واضح ہو
جاتا ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ اس تمام گفتگو کا فرانزک ہو۔ تاکہ حقائق سامنے آ
سکیں۔ اس سارے قصے میں کچھ لوگ یہ نقطہ بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ ٹیلی فون
کالزکیوں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ دلیل دی جاتی ہے کہ اس طرح کسی کی نجی گفتگو
ریکارڈ کرنا کسی کی ذاتیات میں دخل دینا اور پرائیویسی کے حق کے خلاف ہے۔
یہ ایک نہایت بھونڈی اور مضحکہ خیز بات ہے۔ ایجنسیوں کا کام ہی شر پسندوں
اور دہشت گردوں کا پیچھا کرنا اور ان کا سراغ لگانا ہے۔ جناح ہاوس کو جلانے
کے بعد پارٹی عہدیداروں کا آپس میں اظہار خوشی کرنا ذاتی معاملہ کہاں سے ہو
گیا؟ یہ امن عامہ کا معاملہ ہے۔ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے۔
اب یہ بھی دیکھیے کہ عمران خان تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر افسوس
ہوا کہ انہیں ضمانت کے لئے بھی کوئی سیاسی رہنما دستیاب نہیں ہو سکا۔ عمران
خان کو اپنے خاکروب کو ضمانتی بنا کر بھیجنا پڑا۔ لیکن اس نے بھی جج کے
سامنے عمران خان کی ذمہ داری لینے کی حامی نہیں بھری۔ عمران خان کو سوچنا
چاہیے کہ وہ اس حال کو کیوں پہنچے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کئی دہائیاں سیاست
کرنے کے بعد بھی نواز شریف یا آصف زرداری اس حال کو نہیں پہنچے۔ اس کا جواب
یہ ہے کہ جیلیں اور جلا وطنیاں جھیلنے کے بعد بھی انہوں نے ایک خاص حد سے
آگے جانے سے گریز کیا۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے اپنے چاہنے
والوں کو توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کی طرف مائل نہیں کیا۔ 2017 میں نواز
شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کر دیا گیا۔ اب یہ بات کھل کر
سامنے آ چکی ہے کہ کس طرح عمران خان کا راستہ صاف کرنے کے لئے یہ سازش تیار
ہوئی تھی۔ ایوان وزیر اعظم سے نکلنے کے بعد نواز شریف چار پانچ دن میں
اسلام آباد سے لاہورپہنچے۔ لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے
تنقیدی تقاریر کیں لیکن کسی کو شر پسندی اور جلاو گھیراو کی طرف مائل نہیں
کیا۔ دوسری طرف عمران خان نے لوگوں کو باقاعدہ ترغیب دی کہ وہ قانون ہاتھ
میں لیں ۔وہ اپنے حامیوں کی شرانگیزی کو عوام کا رد عمل قرار دیتے رہے۔
اس سارے قصے میں عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماوں کے لئے سبق پوشیدہ ہے کہ
سیاست دانوں کو اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہیے اور ایک حد سے زیادہ آگے
بڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
|