اردو زبان میں آج کے آگے پیچھے دونوں جانب کل ہوتا ہے۔
اس لیے آنے والے کل کو خوشنما بنانے کے کے لیے گزرے ہوئے کل کی جانب مڑ کر
دیکھنا پڑتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پہلے امریکی سرکاری دورے کی
تیاری فرما رہے ہیں اس لیے انہیں پیچھے مڑکر اپنے جاپان و آسٹریلیا والے
دورے کی طرف دیکھ لینا چاہیے تاکہ جو اچھا ہوا اسے دوہرایا جاسکے اور جو
بھول چوک ہوئی اس کو بھلایاجاسکے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا گزشتہ دورہ تین
ملکوں جاپان، پپوا نیو گِنی اور آسٹریلیا پر محیط تھا ۔ جاپان کے اندر G-7
ممالک کے سربراہان کی میٹنگ طے ہوئی تو اس میں شرکت کیلئے جاپان کے
وزیراعظم کِشیدہ فیومیو نے دوستی یاری میں مودی جی کو بھی دعوت دے دی۔ گروپ
آف سیون (G7) ایک بین حکومتی سیاسی فورم ہے جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی،
اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ یورپی یونین (EU) ایک "غیررسمی
" طور پر لیا گیا ہے لیکن ہندوستان کسی شمار یا قطار میں نہیں ہے پھر بھی
مان نہ مان میں تیرا مہمان کی مصداق 19 سے 21 مئی کے دوران مودی جی نے
جاپان کے ہیروشیما پہنچ گئے ۔
مذکورہ بالا سربراہ کانفرنس میں قواڈ ( (QUADممالک میں سے صرف آسٹریلیا
موجود نہیں تھا اس لیے وہاں کے وزیر اعظم کو بلا کر وہ نشست بھی کرلی گئی ۔
اس طرح آسٹریلیا میں ہونے والی نشست منسوخ ہوگئی۔ جاپان کے وزیر اعظم اپنے
ملک میں رہ گئے اور امریکی صدر جو بائیڈن وطن واپس لوٹ گئے اس لیے کہ دونوں
کے پاس کام تھا لیکن مودی جی کے پاس چونکہ کسی ریاست کی کوئی انتخابی مہم
نہیں تھی اس لیے انہوں نے اپنا دورے میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور آسٹریلیا
کا دور ہ قائم و دائم رکھا۔ آسٹریلیا جانے سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے
22 تاریخ کو پپوا نیو گِنی جا کر وہاں کے وزیراعظم جیمس پراپے کے ساتھ
بھارت-بحرالکاہل جزائر کے اشتراک سے متعلق فورم کی تیسری سربراہ کانفرنس
میں شرکت کی ۔ اِس فورم میں ہندوستان کے ساتھ ساتھ بحرالکاہل خطے کے 14
ممالک شامل ہیں۔ اس طرح کسی بھی ہندوستانی وزیراعظم کا پپوا نیو گِنی کا یہ
پہلا دورہ ہوگیا۔یہ ننھے منے جزائر کالے دھن کی آماجگاہ ہیں اور مودانی
ماڈل میں ان کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔غالباً اسی لیے ان ملکوں
پر مشتمل فِپک نامی تنظیم کا آغاز 2014 میں، وزیراعظم مودی نے اپنے فیجی
دورے کے وقت کیا تھا۔
پپوا نیو گنی کے وزیر اعظم نے ہوائی اڈے پر مودی جی کا استقبال کرنے کے بعد
انہیں 19 توپوں کی سلامی اور گارڈ آف آنر دے کر خوش کردیا ۔ وزیر اعظم جیمس
کو شاید نہیں معلوم کہ ہندوستان میں کسی کے گھٹنے کو چھونا قدموں میں گرنے
کے ہم معنیٰ سمجھا جاتا ہے اس لیے انہوں نے وہ حرکت کردی اور گودی میڈیا
نےیہ شور مچا دیا کہ ایک غیر ملکی سربراہ نےمودی جی کے پیرچھو دئیے ۔ ویسے
اگر جان بوجھ کر بھی کی جائے تو یہ ایک نازیبا حرکت ہے لیکن اس سے مودی
بھگت خوش ہوگئے۔ اس طرح وزیر اعظم نے کرناٹک کے زخموں پر مرہم رکھ کر اپنے
شیدائیوں کی دلجوئی کا سامان کیا ۔ بحرالکاہل خطے میں چین کی بڑھتی پیش
قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ نےپپوا نیو گنی کے ساتھ ایک دفاعی
معاہدہ کررکھا ہے۔اس کے تحت امریکی افواج کو اس کے ہوائی اڈوں اور
بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہے ۔ بحرالکاہل میں اس اسٹریٹجک حمایت کے عوض اسے
امریکہ سے سفارتی اور مالی مراعات کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں ۔
سولومن جزائر کے ساتھ گزشتہ سال چین نے خفیہ سیکیورٹی معاہدہ کرکے وہاں
فوجی تعینات کرنے کی اجازت حاصل کر لی تھی۔ اس پیش رفت نے امریکہ بہادر کو
بے چین کردیا ۔ اس کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر واشنگٹن نے پپوا نیو گنی
میں معاہدے پر دستخط کئے اور وزیر اعظم جیمس سے دفاعی تعاون کے ذریعہ
امریکہ کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جا نے کا عہد لیا ۔اس موقع پر
امریکی وزیر خارجہ نے اسے بیجنگ کی بڑھتی معاشی، سیاسی اور فوجی موجودگی کا
مقابلہ کرنے کےجنوبی بحرالکاہل میں اہم اقدام قرار دیا تھا ۔وزیر اعظم
نریندر مودی نے بحرالکاہل کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس میں کثیرالجہتی کی
سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ :’’ ہم آزاد، کھلے اور جامع انڈو پیسیفک کی
حمایت کرتے ہیں، ہم تمام ممالک کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتے
ہیں‘‘۔ وزیر اعظم ملک کے باہر جس کشادہ دلی کی بات کرتے ہیں اس مظاہرہ
اندرونِ ملک ان سے نہیں ہوپاتا۔ یہاں تو وہ غیروں کے علاوہ اپنوں کا اختلاف
برداشت کرنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔
وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے ہی سال وزیر اعظم مودی نے نومبر
2014 میں آسٹریلیا کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ کسی ہندوستانی وزیر اعظم
کا اٹھائیس سال کے بعد وہ سفر تھا۔ اس موقع پر مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ
اب وہ آتے رہیں گے لیکن اپنے دیگر وعدوں کی طرح انہوں نے اس بھی بھلا دیا۔
ان کی پہلی مدت کار یونہی گزر گئی اور دوسری کے آخری سال میں ان کو اس کا
خیال آیا۔ وزیراعظم نریندر مودی جب اپنے سہ روزہ دورے پر سڈنی پہنچے تو
ہندی سفارتخانے کے اعلیٰ عہدیداروں نے ان کا ہوائی اڈے پر ا ستقبال کیا مگر
آئی ٹی سیل نے خبر اڑا دی کہ خود آسٹریلیوی وزیر اعظم بنفسِ نفیس وہاں
موجود تھے۔ آگے چل کر جب وہ جھوٹ کھل گیا تو تردید کردی گئی اس طرح ابتداء
ہی کذب گوئی سے ہوئی ۔ وہاں پر ہندوستانی نژاد لوگوں سے خطاب کو گارجین
جیسے کئی بین الاقوامی اخبارات نے برملا ریاست کرناٹک کے انتخابات میں
بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست سے جوڑ دیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی
میڈیا میں بھی مودی جی کی شناخت پردھان منتری کے بجائے پرچار منتری کے طور
پر ہوچکی اور لوگ انہیں چناو جیوی( انتخابی بیل ) کے طور پر جاننے لگے ہیں
۔
سڈنی کی تقریب کو کامیاب بنانے کے لیے مودی کے حامیوں کا ’مودی ائرویز‘ کو
ایجاد کرنا اس بات کا اعتراف تھا کہ سڈنی میں کثیر آبادی کے باوجود میدان
کو بھرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وزیر اعظم مودی کے آمد کے موقع پر
خصوصی پروازوں اور بسوں کے ذریعے بھارتی شہریوں کو میلبورن اور کوئینز لینڈ
سے سڈنی لانا پڑا۔ مودی کے جنونی حامیوں نے میلبورن سے لوگوں کو سڈنی لانے
کی خاطر مقامی ایئرلائن ’کانٹاس‘ کی پرواز کو مختص کرنے کے بعد اس پر ترنگا
لہرایا اور ’مودی ائرویز‘ کے نام سے منسوب کرکے خوش ہوگئے۔ اسی طرح کوئینز
لینڈ سے سڈنی لانے والی بسوں کو ’مودی ایکسپریس‘ کے نام دیا گیا۔یہ سارا
اہتمام سڈنی کے کڈوس بینک ایرینا میں کسی طرح 20,000 لوگوں کو لانے کے لیے
کیا گیا مگر ا س میں پھر بھی کامیابی نہیں ملی کیونکہ وہاں موجود ساری
کرسیاں بھر نہیں سکیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس موقع پرتین اہم باتیں
کہیں پہلی تو یہ کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے۔ دوسرے ہمارے لیے پوری دنیا
ایک خاندان ہے اور تیسری ہندوستان اور آسٹریلیا کے تعلقات اعتماد اور
احترام پر مبنی ہیں۔
یہ دعوے کانوں کو سننے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن ان کی حقیقت ایک
بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں۔مودی جی کو معلوم ہونا چاہیے کہ آسٹریلیا
سےاعتماد و احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار کرلینے سے زیادہ اہم ملک کے
باشندوں اور حزب اختلاف کے ساتھ ان بنیادوں پر تعلق قائم کرنا ہے۔ وزیر
اعظم اگر اپنے ملک کی صدر و نائب صدر کا احترام کرنے والے ہوتے تو ایوانِ
پارلیمان کی نئی عمارت کے افتتاح میں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ وزیر
اعظم کے لیے ساری دنیا ایک خاندان کی مانند ہوسکتی ہے لیکن اس میں یشودھا
بین کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ اگرہندوستانیوں کو بھی اپنے خاندان کاحصہ
سمجھتے تو دارالخلافہ دہلی کے اندر خاتون پہلوان کھلاڑیوں کے ساتھ ایسا
سفاکانہ ناروا سلوک نہیں کیا جاتا جس نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکا دیا
ہے۔
وزیر اعظم اور ان کی جماعت کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں ’گولی
مارو سالوں کو‘جیسے بیہودہ نعرہ لگانے والوں کو مرکزی وزیر بنارکھا ہے۔ وہ
خود لباس سے پہچان کر مخالفین پر کارروائی کے قائل ہیں ۔ جامعہ ملیہ
اسلامیہ میں لائبریری کے اندر گھس کر ان کی پولیس نے طلباء کو زدوکوب کیا ۔
ان ظالم اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مظلوم طلباء پر فساد میں
ملوث ہونے کا الزام لگا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا۔
اپنے مخالف نظریہ کے حامل دانشوروں پریلغار پریشد میں قتل کی سازش رچنے کا
جھوٹا الزام منڈھ دیا گیا۔ ان کے بجرنگی گائے کےنام مسلم نوجوانوں کو زندہ
جلانے سے نہیں چوکتے۔ ان کے مرکزی وزیر کا بیٹا دن دہاڑے کسانوں پر گاڑی
چڑھا دیتا ہے اور وزیر موصوف کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ ان کی صوبائی سرکاریں
بلڈوزر چلانے اور انکاونٹر کرنے پر فخر جتاتی ہیں ۔ ان کے وزیر داخلہ
فسادات کے سبق پر ووٹ مانگتے ہیں اورریاستی سرکاربلقیس بانو کے اہل خانہ کے
قاتلوں و زانیوں کی سزا معاف کردیتی ہے۔ اگر یہی سب کو اپنا خاندان سمجھنا
ہے تو کون اس میں رہنا چاہے گا۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کی تقاریر
کانوں میں رس گھولتی ہیں مگر جب حقائق سے ان کا موازنہ کیا جائے تو حافظ
کرناٹکی کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
دور کے ڈھول سہانے ہیں ،صدیوں کے افسانے ہیں
مانگ رہے ہیں تجھ سے وفا ،ہم بھی کیا دیوانے ہیں
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|