دنیا میں جیت ہمیشہ نظریہ کی ہوتی ہے ۔کوئی بھی ملک نظریہ
کی قوت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔سارے ترقی یافتہ ممالک نظریہ کی قوت سے
ہی توانا بنے ہیں۔نظریہ انسان کی باطنی دنیا میں ہمت و جوانمردی کو جنم
دیتا ہے جس سے وہ جبرو استبداد کی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہو جاتا ہے۔نظریہ
کی قوت نہ ہو تو انسان مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔نظریہ ابتلا ؤ آزمائش میں
پوری شدت سے کھڑا ہونے کا سب سے قوی نسخہ ہے ۔جھنیں نظریہ کی قوت میسر
آجائے انھیں ریا ست کی اندھی قوت بھی زیر نہیں کر سکتی۔نظریہ مر مٹنے کا جو
جذبہ عطا کرتا ہے قوموں کی ساری عظمت ،بقا،استحکام اور ترقی اسی سے جڑی
ہوتی ہے۔نظریہ بہادری کا استعارہ ہے جبکہ جھوٹ، منافقت اورملمع سازی بزدلی
اور بے ہمتی کو ہوا دیتی ہے ۔نظریہ مر مٹنے کا اعلان ہے لہذا جو انسان
نظریہ کی صداقت کو دل میں جگہ دے لیتا ہے وہ کسی میدان میں شکست سے ہمکنار
نہیں ہوتا ۔ جس انسان کے دل میں سچائی کی رمق نہیں ہوتی اس کے قدم اس کرہِ
ارض پر مضبوطی سے جم نہیں سکتے ۔در اصل سچائی کی طاقت نظریہ کی کوکھ سے جنم
لیتی ہے ۔انسان خود تو مٹی کا پیکر ہوتا ہے جسے سدافنا کا دھڑکا لگا رہتا
ہے لیکن پیکرِ خاکی کو رفعت و بلندی نظریہ کے ساتھ چمٹنے سے ہی نصیب ہو تی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان ہر وقت دلکش نظریہ کی تلاش میں سر گرداں رہتے
ہیں۔ اقبال نے تو کہا تھا ( فروغِ خاکیاں از نوریاں افزوں شود روزے۔،۔ زمیں
از کوکبِ تقدیر او گردوں شود روزے)۔ترجمہ۔(خاک کا پتلا اپنے افعال سے ایک
دن نور کے پیکروں پر بازی لے جائے گا اور اس کے مقدر کے ستارے کی چمک سے یہ
زمین ایک دن آسمان میں بدل جائے گی)۔یہ بڑا کٹھن مقام ہو تا ہے اور غیر
معمولی قربانی کا طلبگار ہو تا ہے۔کیا یہ ممکن ہے کہ کسی انسان کے اعمال
اتنے پر اثر ہوجائیں کہ وہ زمین کی ہئیت کو بدل کر اسے آسمان کا روپ بخش
دیں اور اس دھرتی کا اپنا مسکن بدل جائے اور پستی کی بجائے رفعت اس کا مقدر
بن جائے؟زمین کا آسمان میں بد ل جانا ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے جو ہو
سکتا ہے تصوراتی ہو،فلسفیانہ ہو،نظریاتی ہو ،طلسماتی ہو اور خواب آگین ہو
لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ انسان کے اندر اعمال کی آبیاری کے لئے ایک ایسی
بنیاد فراہم کرنے میں کامیاب و کامران ہو جاتا ہے جس پر انسانی جدو جہد کے
پھول کھلتے ہیں۔اقبال اسے ہی خودی کی کارستانی بتاتا ہے ۔(زمانے کے دریا
میں بہتی ہوئی۔،۔ ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی)۔،۔(ازل اس کے پیچھے ابد
سامنے۔،۔ نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے) ۔،۔
ساؤتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا کا نسلی امتیاز کا فلسفہ،روس میں مزدوروں کی
عظمت کا فلسفہ،چین میں ثقافتی انقلاب کا نظریہ،ا ایران میں امام خمینی کا
فحاشی اور عریانی کے خلاف نظریہ،پاکستان میں دو قومی نظریہ،زرتشت کا دو
خداؤں اہرمن و یزداں کا نظریہ ، بھارت میں صنم پرستی کا نظریہ،امریکہ میں
انسانی حقوق کا نظریہ،جرمنی میں قومی برتری کا نظریہ،جاپان میں بدھ مت کا
نظریہ،مہاتما گاندھی کا عدمِ تشدد کا نظریہ اور عربوں کے قلب میں تو حیدِ
ربانی کا نظریہ ۔ہر وہ نظریہ جو انسانی حریت، برابری، مساوات اور اتحاد کا
علمبردار ر ہو تا ہے عوام کا اجماع اسی پر ہوتا ہے،انسان سدا سے آزادیِ فکر
کا جوئیہ رہا ہے لہذا وہ غلامی اور جبرو استبداد سے نفرت کرتا ہے۔فیض نے
اسی لیے کہا تھا ( جب جبرو ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے ۔۔ ہم
اہلِ صفا مردودِ حرم مسند پر بٹھائے جائیں گے) ۔عوام دہشت گردی،شدت پسندی
کو نا پسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے معاشرہ میں امن و امان کا خون ہو جاتا ہے
اور معا شرہ جنگل کا منظر پیش کرنے لگ جاتا ہے۔پاکستانی سیاست میں نظریات
کی سیاست کا رحجان دھیرے دھیرے دم توڑتا جا رہا ہے۔نظریاتی سیاست میں
کارکنان اپنے قائد کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے تھے لیکن اب تو
حالت یہ ہے کہ قائدقیدِ تنہائی میں اپنے شب و روز گزارتا ہے لیکن کارکنان
کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں نظریات کی
بجائے کھوکھلے اور نمائشی نعروں پر یقین رکھتی ہیں۔ ۹ مئی کے واقعات نے سب
کچھ طشت از بام کر دیا ہے ۔ وہ جھنیں زعمِ پارسائی تھا وہ بالکل بے نقاب ہو
گے ہیں ۔ جو عوامی طاقت پر یقین رکھتے تھے وہ شدت پسندی کے خو گر نکلے لہذا
ان کے رفقاء انھیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پت جڑھ کا
موسم ہے اور شاخوں سے پتے جڑھ جڑھ کر زمین پر بکھر رہے ہیں۔غالب نے کہا تھا
(کوئی ویرانی سی ویرانی ہے ۔،۔دشت کو دیکھا تو گھر یاد آیا)۔،۔ا یسے محسوس
ہو رہا ہے کہ مفاد پرستوں کا ایک مخصوص ٹو لہ ہے جو اپنے ذاتی اہداف کیلئے
جماعتیں بدلنے کو ترجیح دیتا ہے۔انھیں عوام کی نہیں بلکہ اپنے سودو زیاں کی
فکر دامن گیر ہوتی ہے۔پوری کی پوری بستی ذاتی مفادات کا طوق گلے میں پہن لے
تو اور حریتِ فکر کے علمبردار تنہا ہو جاتے ہیں۔پروین شاکر نے اس کیفیت کو
اپنے انداز میں بیان کہا تھا (پا بگل ہیں سب یہاں رہائی کی کرے تدبیر کون۔،۔
دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیرکون)۔،۔
عوامی مقبولیت کا دعوی کرنے والو ں کا ایسا حشر کسی نے پہلے نہیں دیکھا تھا
کہ وہ ایک ہی ہلے میں تنہا ہو جائیں گے۔فوجی اپریشن تو پہلے بھی ہوئے
تھے،شاہی قلعے کی دیوراوں میں ہزاروں کارکن پہلے بھی محبوس کئے گے تھے اور
ظلم و جبر کاایسا بازار گرم ہوا تھا کہ خدا کی پناہ۔نہ کسی نے معافی نامہ
لکھا تھا اور نہ ہی کسی نے اپنے قائد کا دامن چھوڑاتھا۔دنیا کا کونسا ایسان
انسان تھا جس نے اس ننگی بربریت کی مذمت نہ کی ہو ؟جانثار اپنے سینے پر
اپنے قائد سے محبت کی داستانیں نقش کرتے رہے اور فلک شگاف نعروں میں اپنی
وفاؤں کی شمع روشن کرتے رہے۔ظلم اپنی جگہ ، وفا اپنی جگہ اور آخری فتح وفا
کا ہی مقدر بنی۔ حریت پسند اپنے قائد سے محبت کی ایسی دلکش داستان رقم کر
گے جو آج کے انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔پھانسی کے پھندوں کو چوم کر
خود اپنے گلے کا ہار بنانے والے جرات مند کارکن تاریخ شائد دوبارپیدا نہ کر
سکے۔ایثارو محبت کی ایسی شمعیں بار بار روشن نہیں ہوتیں۔ایک مدت گزر جانے
کے بعدعوام کو ان سچے جانثاروں کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوا ہے۔غالب نے کہا
تھا۔ (ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ۔،۔ اک شمع ہے دلیلِ سحر سو
خاموش ہے)سچ تو یہ ہے کہ نہ اب ایسے قائدین موجود ہیں اور نہ ہی ایسے کارکن
باقی ہیں۔جب قائدخو د سالہا سال جیل کی کال کوٹھر ی میں عزم و ہمت کا پہاڑ
بن جائے تو کارکن اپنی جانیں ہی نچھاور کرتے ہیں۔وقت کی کٹھالیوں سے گزرے
بغیر صدف میں موتی پیدا نہیں ہوتا ۔عظیم لیڈر وقت کی کٹھالیوں سے خود گرتا
ہے توسچے جانثار جنم لیتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ نظریہ کی قوت اور عزم و ہمت
کے بغیر کوئی بھی غیر معمولی کارنامہ سر انجام نہیں دیا جا سکتا ۔،۔
|