وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکی دورے کی خاطر ماحول سازی
شروع ہوگئی ہے۔ وائٹ ہاوس کے اہم اہلکار کربی نے ہندوستانی جمہوریت کی
تعریف و توصیف شروع کردی ہے ۔ یہ ان کی مجبوری ہے لیکن مودی جی اگر اپنے
امریکی دورے کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تو انہیں آسٹریلوی دورے کی غلطیوں
کو دوہرانے سے گریز کرنا ہوگا۔ آسٹریلیا کا دورہ کرناٹک انتخاب کے بعد
ہواتھا۔وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے جب پہلی بار دہلی میں بی جے پی کو
پٹخنی دی تو کھانسی سے جوجھ رہے تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے ان
کو بنگلورو میں جاکرآرام کرنے اور علاج کروانے کا مشورہ دیا تھا ۔ اس بار
خود وزیر اعظم کا بنگلورو میں چیختے چلاتے گلا بیٹھ گیا تو وہ بیرون ملک
دورے پر نکل گئے۔ ویسے کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ اگردوسرے صوبے میں جاسکتا
ہے توپورے ملک کے وزیر اعظم کو پردیس میں ہی جانا چاہیے۔کرناٹک کی شکست کے
بعد اپنا دل بہلانے اور بھگتوں کا غم غلط کرنے کے لیے یہ اشد ضروری تھا ۔
ایک عام گجراتی کی مانند وزیر اعظم بھی سیر وسیاحت کے شوقین ہیں اور سرکاری
خرچ پر مفت میں عیش و عشرت کا موقع ملے تو کون اس کو گنوانے کی حماقت کرے
گا؟
وزیر اعظم کے شیدائی ان کے دوروں میں جفاکشی کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ وہ رات میں سفر کرکے دن بھر کام کرتے ہیں۔ یہ بھولے بھالے لوگ
سمجھتے ہیں کہ مودی جی ریلوے کے چالو ڈبے میں بغیر ریزرویشن کےرات بھر سفر
کرنے کے بعد دن بھر مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ وزیر اعظم
اپنے آٹھ ہزار کروڈ کے سرکاری جہاز میں صرف خادمین کی فوج کے ساتھ سفر
کرتے ہیں اور وہاں کا عیش و آرام بڑے بڑے محلوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ وزیر
اعظم کے حالیہ دوروں میں سب سے اہم ملک آسٹریلیا تھا ۔ اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے خود مودی جی نے کہا تھا ’’میں وزیر اعظم البانیز کی دعوت پر آسٹریلیا
کے شہر سڈنی کا دورہ کروں گا۔ میں دوطرفہ ملاقات کے دوران باہمی تعلقات کا
جائزہ لینے کا منتظر ہوں ۔‘‘ آسٹریلیا میں چونکہ اڈانی کا لمبا چوڑا
کاروبار ہے اس لیے وہاں کی کمپنیوں کے سربراہوں اور کاروباری رہنماؤں کے
ساتھ بات چیت ایک فطری عمل ہے کیونکہ اڈانی کا بھلا بالواسطہ مودی جی کا
اپنا فائدہ ہے۔ سڈنی میں دس لاکھ ہندوستانی نژاد لوگ رہتے بستے ہیں اس لیے
وزیر اعظم ان کے ساتھ کسی خصوصی تقریب میں شرکت نہ کریں یہ ناممکن تھا ۔
اپنے لوگوں کے درمیان لچھے دار تقریر کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے جس کا
مظاہرہ غیر ملکی دوروں پر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔
اس ماہ وہ امریکہ جارہے ہیں ۔ وہاں پر وہ سرکاری عشائیہ سے قبل نیویارک کے
اندر ’یوگا دن‘ کی تقریبات میں شرکت کرکے بھاشن دیں گے اور واپسی سے قبل
شکاگو میں ہندوستانی نژاد لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو مخاطب فرمائیں گے۔
یعنی آسٹریلیا کے سڈنی والا ماحول ہوگا۔وزیر اعظم نے آسٹریلیا میں بڑے
طمطراق سے اعلان کیا تھاکہ ہندوستان کے پاس طاقت اور وسائل کی کوئی کمی
نہیں ہے۔ ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی اور نوجوانوں کے ٹیلنٹ کی فیکٹری
ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ باصلاحیت نوجوان ہندوستان چھوڑ
کر دیگر ممالک کا رخ اس کیےکررہے ہیں کیونکہ ملک بیروزگاری کا مسئلہ سنگین
ہوگیا ہے۔ غریب مسکین کے علاوہ خوشحال لوگ بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔
ایک زمانے میں وزیر اعظم ان کو واپس لانے کی بات کرتے تھےلیکن اب نہیں
کرتےکیونکہ وہ جانتے ہیں یہ صدا بصحراء ثابت ہوگی۔ اب وہ ہندوستانی نژاد
لوگوں کو بیرون ملک رہتے ہوئے بھی اپنی جڑوں سے جڑے رہنے کی تلقین پر
اکتفاء کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’آپ وہاں ہندوستان کے سفیر ہیں‘‘۔
وزیر اعظم اگر یہ نہ کہتے تو اچھا تھا کیونکہ ایک ماہ قبل آسٹریلیا میں
اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی کےسابق سربراہ بلیش دھنکھر کو سڈنی کے اندر
پانچ کوریائی خواتین کو نشہ آور اشیا پلا کر ریپ کرنے کا مجرم پایا گیا ۔
اس کو گزشتہ چند سالوں میں شہر کی تاریخ کا بدترین عصمت دری سانحہ قرار دیا
گیا ہے۔یہ شخص اگر اپنی جڑوں سے جڑا نہ ہوتا تو اس سے یہ حرکت سرزد نہ ہوتی
اور اگر اس کو ہندوستان کا سفیر سمجھ لیا جائے تواس میں پوری قوم کی بدنامی
ہے۔ ویسے مودی جی گزشتہ دورے کو کامیاب کرنے میں اس نے بڑی محنت کی تھی اور
ان کے ساتھ تصاویر بھی کھنچوائی تھیں اس لیے ان کا نمائندہ کہہ سکتے
ہیں۔وزیر اعظم نے آسٹریلیا میں بسنے والوں کو ہندوستان آتے وقت اپنے
آسٹریلوی خاندانوں کو ساتھ لانے کی تلقین کی تاکہ انہیں ہندوستان کی ثقافت
کو سمجھنے کا موقع ملے گا‘‘ ۔ وزیر اعظم کے مشورے پر اگر ان لوگوں نے عمل
کیا تو انہیں خاصی مایوسی ہوگی کیونکہ یہاں تو گئوموتر سے بھی کینسر اور
کورونا کا علاج کیا جاتا ہے۔
پی ایم مودی نے تقریر میں بتایا کہ ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک
دوسرے کی ڈگریوں کو تسلیم کرنے پر بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس سے
دونوں ممالک کے طلباء کو فائدہ ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی تعداد میں
ہندوستانی طلبا پڑھنے کے لیے آسٹریلیا جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو کون
سی مجبوری وہاں لے کر جاتی ہے؟ اول تو یہ وہاں کا معیار تعلیم اچھا ہے اور
اس کے باوجود ہندوستان سے سستا ہے۔ وہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت
کے مواقع زیادہ ہیں ۔ کیا وزیر اعظم کے پاس ان مسائل کا کوئی حل ہے؟ وزیر
اعظم کے لوٹتے ہی آسٹریلیائی حکومت نے ہندوستان کے سات صوبوں سے آنے والے
طلباء کے دستاویزات کی کڑی جانچ کا حکم دے دیا کیونکہ ان میں فراڈ ہوتا ہے۔
ایسی ریاستوں میں وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب والا یوپی بھی شامل ہے۔ اس
فیصلے سے وزیر اعظم کے دورے کی ناکامی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
آسٹریلیا کے دورے میں تکلفاً وہاں کے پی ایم البانیز نےان کی تعریف کرتے
ہوئے 'مودی باس ہے' کہہ دیا تو مودی بھگت پھول کر کُپاّ ہوگئے حالانکہ
انگریزی زبان میں یہ لفظ آقا کے علاوہ دوستوں کے لیے بھی مستعمل ہے۔ انہوں
نے یہ وضاحت بھی کی کہ پی ایم مودی ان کے اچھے دوست ہیں۔ انہوں نے جمہوری
اقدار کی بنیاد پر تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا۔ وزیر اعظم تو
ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہہ چکے ہیں حالانکہ وطن عزیز میں اپنی اصلی
ماں کے علاوہ بھارت ماتا اور گئو ماتا کا خوب چلن ہے لیکن جمہوریت کو انہوں
ہندوستان کی بیٹی بنادیا ۔ آسٹریلیا کے وزیر اعظم جن اقدار کو جمہوریت سے
منسوب کرتے ہیں ان پر مودی جی کو غور کرنا چاہیےیا اس کے عملی مظاہر کا
مشاہدہ کرلینا چاہیے۔ اس کی ایک مثال تو یہ تھی کہ اندر اجتماع گاہ میں
دونوں وزیر اعظم خطاب کررہے تھے اور باہر خالصتانیوں سمیت کئی حقوق انسانی
کی تنظیمیں احتجاج کررہی تھیں ۔ کیا مودی جی کے نئے ہندوستان میں یہ ممکن
ہے؟ آسٹریلیا میں حزب اختلاف کو اپنا دشمن نہیں بلکہ معاون سمجھا جاتا
لیکن افسوس کہ وزیر اعظم مودی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
آسٹریلیا کے اختلاف کو کس طرح انگیزکیا جاتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں 24 مئی کو دارالخلافہ کینبرا
میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کے اندر گجرات فسادات سے متعلق بی بی سی کی
دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ کی نمائش اور ایک مباحثہ کا انعقاد
تھا۔اس پروگرام میں بعض قانون سازارکان اور انسانی حقوق کے لوگ شریک
تھے۔ہندوستانی حکومت نے اس فلم پر پابندی عائد کر دی اسی لیے اس کووہاں
ببانگِ دہل دکھایا گیا۔ ایک ایسی فلم کا جسے ہندوستانی وزارتِ خارجہ کے
ترجمان ارندم باگچی نے پروپیگنڈہ کا حصہ اور جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کا
ایجنڈا قرار دیا ہو ۔ اس میں تعصب کی کارفرمائی اور غیر جانب داری کی کمی
کا الزام لگایا گیا ہوآسٹریلوی ایوانِ پارلیمان میں مودی جی موجودگی میں
دکھایا جانا جہاں ایک طرف ان کی توہین ہے مگر دوسری جانب آسٹریلیا میں
اختلاف کو برداشت کرنے کی اقدار کا مظہر بھی ہے۔ اس کے بعد منعقد ہونے والے
مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے گجرات کے سابق آئی پی ایس اور جیل میں بند سنجیو
بھٹ کی بیٹی آکاشی بھٹ نے کہا کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ بہت کم ہے۔ گجرات
مہینوں تک جلتا رہا اور مسلمانوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔میسی
یونیورسٹی کے موہن دتہ نے کہا کہ ہندوتوا نے ہمارے خطے میں جمہوریت کے لیے
خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس صورتِ حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
مباحثے کے ایک پینلسٹ ڈیوڈ شوبریج نے کہا کہ ’بھارت میں سچ بولنا جرم ہو
سکتا ہے۔‘ ان کے بقول بہت سے بھارتی تارکین وطن نےان سے کہا کہ کچھ بولنا
بہت مشکل ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے اہلِ خانہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ جب ہم
یہاں سے واپس جائیں گے تو ہمارے لیے بھی مشکلیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔اُنہوں نے
یہ بھی کہا کہ آکاشی بھٹ نے صرف ایک جملہ کہا لیکن وہ قانون کی حکمرانی کے
تعلق سے تشویش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت تھی کہ ہمارے وزیر اعظم کچھ
بولتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے ملیں اور ان کے سامنے
یہ مسئلہ نہ رکھیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اگر ان بیانات سے کچھ سیکھا
تو ان کے دورے میں کچھ معنویت پیدا ہوگی ورنہ یہ بھی ایک انتخابی مہم کا
حصہ بن کر رہ جائے گی۔ ویسے اقتدار کے جانے کا خوف وزیر اعظم مودی کو اس
قدر پریشان کررہا ہے کہ اب انہیں انتخابی مہم کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
اس ماہ وزیر اعظم کا امریکی دورہ قصر ابیض کے سرکاری عشائیہ کے علاوہ
آسٹریلیا جیسا ہے۔ اس لیے اگر مودی جی آسٹریلوی دورے کی خوبیوں اور
خامیوں کو پیش نظر رکھیں تو یہ ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔ |