وعدہ پورا کرنا
پیارے بچو!
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاوں میں حبیب اور زید دو دوست تھے وہ ایک دوسرے
کا خیال رکھتے تھے لیکن ایک دفعہ حبیب کا اونٹ زیددوست کے کھیت میں چلا گیا
اور کھیت کا بُرا حال کر دیا زید نے پتھر اٹھاکر اونٹ کو مارا تو اس پتھر
کی وجہ سے اونٹ کی آنکھ شدید زخمی ہو گئی اس وجہ سے دونوں کے درمیان سخت
جھگڑا ہوا اسی دوران پہلے دوست نے پتھر اٹھایا اور دوسرے دوست کو مارنے کے
لئے پھینکا وہ پتھر سے بچنے کے لئے پیچھے ہٹا تو وہی پتھر اس کے بوڑھے باپ
کے سر پر جا لگا جس سے ان کی فورا موت ہو گئی معاملہ بادشاہ کے پاس پہنچا
بادشاہ نے زید سے ساری بات پوچھی زید نے کہا حبیب نے میرے باپ کو قتل کیا
ہے اب بادشاہ نے حبیب سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے حبیب نے بتایا کہ میں نے
زید کے باپ کو جان پوجھ کے قتل نہیں کیا اس نے سارا واقعہ بیان کیا بادشاہ
نے کہا کہ تُم سے جرم تو ہوا ہے تمہیں سزا تو ملے گی تمہیں کوڑوں کی سزا
سنائی جاتی ہے حبیب نے مان لیا حبیب نے کہا بادشاہ سلامت ایک عرض کرنا
چاہتا ہوں مجھے تین دن کی مہلت دی جائے تاکہ میں ایک ضروری کام نبٹا لوں
میں وعدہ کرتا ہوں کہ پھر دوبارہ آپ کے سامنے اسی وقت حاضر ہوں گا بادشاہ
نے کہا کہ تمہاری ضمانت کون دے گا ؟حبیب نے حاضرین کی طرف دیکھا تو ایک
بزرگ نظر آئے کہنے لگا بادشاہ سلامت یہ میری ضمانت دیں گے ۔وہ بزرگ کھڑے
ہوئے اور کہا ہاں بادشاہ سلامت میں اس کی ضمانت دیتا ہوں بادشاہ نے بزرگوں
سے کہا کہ اگر حبیب نہ آیا تو آپ کو سزا ملے گی انہوں نے کہا مجھے منظور ہے
۔بادشاہ نے زید سے پوچھا زید نے بھی اجازت دے دی۔تیسرے دن بادشاہ کا دربار
لگا اور بادشاہ اور زید سمیت سب نوجوان کا انتظار کرنے لگے سب کی نگاہیں
نوجوان کو تلاش کر رہی تھیں سب پریشان تھے کہ وہ آ نہیں رہا اگر نہ آیا تو
کیا ہوگا؟سب کی تشویش بڑھنے لگی اتنے میں دور سے مٹی اڑاتا ہوا گھوڑا دربار
کی طرف آتا دکھائی دیا۔مجرم (حبیب)نمودار ہواحالت یہ تھی پسنہ سے شرابور
تھااور سانس پھولا ہواتھااور عاجزی سے سلام عرض کیا اور کہا کہ میں اپنے
بیٹے کو ماموں کو دیا ہے پوچھا گیا تجھے کیا ضروری کام تھا کہنے لگا میرا
ایک چھوٹا بھائی ہے میرے والد صاحب نے دنیا سے جاتے ہوئے مجھے کچھ سونا
دیتے ہوئے کہا کہ وعدہ کرو یہ میرے چھوٹے بیٹے کو دو گے ؟وہ امانت میرے پاس
تھی اس کا کسی کو علم نہ تھا میں اس کے بڑے ہونے کا انتظار میں تھا میں نے
وہ امانت اپنے کے سپرد کرنی تھی تاکہ وعدہ خلافی نہ ہو نہ امانت میں خیانت
ہو کیونکہ قیامت والے دن مجھ سے اس بارے میں پوچھ ہو گی۔اس لئے میں اس کی
امانت اس کے سپرد کی ہے ۔اب بزرگوں سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس نوجوان کی
ضمانت کیوں دی کہنے لگے کہ میں اس کو جانتا نہیں ہوں لیکن جب اس نے وعدہ
کیا تو میں نے کہا مسلمان وعدہ خلافی نہیں کرتا اس لئے اس کی ضمانت دی اس
نوجوان نے عرض کی بادشاہ سلامت میں بزرگوں کا شکر گزر ہوں میں نےفورا امانت
اپنے بھائی کے حوالے کر کے چند لمحے بھی ادھر رہنا گوارا نہ کیا کہ کہیں
تین دن کا وقت گزر گیا تو وعدہ خلافی ہوجائے گی مسلمان وعدہ کو توڑتا نہیں
۔بادشاہ کے دربار میں جتنے لوگ سب خوش ہو گئے جوش میں آگئے اتنے میں زید نے
اعلان کیا کہ میں حبیب کی وعدہ پاسداری سے خوش ہوتے ہوئے اس کی معافی کا
اعلان کرتا ہوں۔بادشاہ نے کہا زید میں تمھارے باپ کی دیت اپنے بیت المال سے
دیتا ہوں زید نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں نہ ہم نے کچھ لینا ہے نہ ہمیں
یہ حق ہے میں اپنی خوشی معاف کیا ہے۔
پیارے بچو!
ہمیں ہر حال میں وعدہ کو پورا کرنا چاہئے۔
���
|