رواں ہفتے مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی
آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنر ل احمد شریف نے ہنگامی اور انتہائی جارحانہ
انداز کیساتھ پریس کانفرنس میں ہوشربا انکشافات کئے ۔سانحہ نو مئی کے حوالہ
سے انہوں نے کہا کہ فوجی تنصیبات کی سکیورٹی برقرار رکھنے میں ناکامی پر
لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 افسران کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے ۔ڈی جی آئی
ایس پی آر نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں 102 شرپسندوں کا ٹرائل کیا جا رہا
ہے اور یہ جاری رہےگا، فوج میں خود احتسابی کا عمل بغیر کسی تفریق کے کیا
جاتا ہے۔اس وقت ملک بھر میں 17 اسٹینڈنگ کورٹس کام کر رہی ہیں، ملٹری کورٹس
9 مئی کے بعد وجود میں نہیں آئیں، پہلے سے موجود اور فعال تھیں، ثبوت اور
قانون کے مطابق سول کورٹس نے ان کیسز کو ملٹری کورٹس منتقل کیا ہے۔ تمام
ملزمان کو مکمل قانونی حقوق حاصل ہیں، انہیں اپیل کا بھی حق حاصل ہے، ان
ملزمان کو سپریم کورٹ میں بھی اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ڈی جی آئی ایس پی آر
کا کہنا تھاکہ 9 مئی واقعات کا مقصد فوج کو اشتعال دلاکر فوری رد عمل پر
مجبور کرنا تھا، منصوبہ سازچاہتے تھےکہ فوج شدید ردعمل دے اورملک میں
انتشارپھیلے، فوج نے 9 مئی کوتحمل کا مظاہرہ کیا اورمیچور ریسپانس دیا۔ڈی
جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملٹری لیڈر شپ اور افواج پاکستان 9 مئی
کےذمہ داروں سےمکمل آگاہ ہے، سانحہ 9مئی کو بھلایا جائےگا نہ ملوث عناصر
اورسہولتکاروں کو معاف کیاجائےگا، تمام ملزمان کو پاکستان کے قوانین کےتحت
سزائیں دی جائیں گی، 9 مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں کو بےنقاب کرنا
اورکیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ اس عمل کو انجام تک پہنچانے میں رکاوٹ
ڈالنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹا جائےگا۔آج کی تحریر میں ڈی جی آئی ایس
پی آر کی پریس کانفرنس کے اہم نکات کےاندراج کا مقصد سانحہ نو مئی کے
حوالہ سے مسلح افواج کے مزاج کو آشکار کرنا تھا۔کوئی یقین کرے یا نہ کرے
سانحہ نو مئی پاکستان تحریک انصاف کے لئے اک ڈراؤنا خواب ثابت ہوچکا ہے
اورپی ٹی آئی چیئرمین عمران احمد خان نیازی کی ہرروز کی تقاریروں نے نَہلے
پَر دَہلا کا کام کیا ہے۔پارٹی چیئرمین کی جانب سے قومی سلامتی کے اداروں
کے سربراہوں کے برخلاف مسلسل الزامات کی بھرمارنے قومی دھارے کی سیاست میں
واپسی کے دروانے بند کرنے والی صورتحال پید ا کردی ہے۔ہر گزرتے وقت کے ساتھ
پی ٹی آئی بطور قومی سیاسی جماعت بند گلی کی جانب گامزن ہے، جو کہ
پاکستانی سیاست کے لئے اچھا شکون نہیں ہے۔ پارٹی کے اعلی ترین عہدیدران اور
خصوصا عمران خان کے دہائیوں کے ساتھی سانحہ نو مئی کا بوجھ اپنے کندھوں پر
اُٹھانے کی بجائے اسلام آباد پریس کلب سے سیدھا استحکام پاکستان پارٹی کے
پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوتے جارہے ہیں۔عمران خان کی جانب سے ہونا تو یہ چاہیے
تھا کہ سانحہ نو مئی واقعات پر بحیثیت اک قومی جماعت کے سربرارہ ان ناقابل
برداشت واقعات کی بھرپور مذمت کرتے بلکہ اسکے برعکس کبھی ان واقعات کو
عوامی ردعمل سے تشبیہ دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے تو کبھی سانحہ نو مئی کا
الزام دوسروں پر عائد کرنے کی بھونڈی کوشش کرتے رہے۔بحیثیت قانون کے طالب
علم کوئی ذی شعور فردکسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کی حمایت نہیں
کرسکتا ہے۔راقم بھی کسی سویلین کے کورٹ مارشل کا حمایتی نہیں ہے۔ لیکن جس
طریقہ سے نو مئی کے دن فوجی تنصیبات خصوصا پاک آرمی کے ہیڈکوارٹر ،انٹیلی
جنس ایجنسی کے دفاتر پر ناقابل برداشت اور ناقابل معافی حملے کئے گئے ، جس
کی بناء پر پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑتی دیکھائی دی۔ اس طرح کے واقعات
میں ملوث افراد کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہ
ہوگی۔یہاں ریکارڈ کی درستگی کے لئےیہ بات کہنا بہت ضروری ہے کہ کیا پاکستان
آرمی ایکٹ 1952اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ، 1923کا وجود سانحہ نو مئی سے پہلے
بھی تھا کہ نہیں؟۔ جی بالکل یہ دونوں قوانین پہلے ہی سے ریاست پاکستان میں
نافظ العمل ہیں۔ اور کیا سویلین افراد کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جاسکتا
ہے کہ نہیں اس بارے میں بھی دو رائے پائی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جائز ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں ریاست
پاکستان میں مروجہ قوانین جیسا کہ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 549اور
آفیشل سیکریٹ ایکٹ، 1923اورپاکستان آرمی ایکٹ کی شقوں2(1)d اور59 (4)سے
رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی شق 549کا ٹائٹل "Delivery
to military authorities of persons liable to be tried by Court
martial"ہی self-explantoryہے۔ یاد رہے سانحہ نو مئی میںاپنے سیاسی قائدین
کی خون گرمادینےوالی تقریریں سننے کے بعد جذبات کی رو میں بہہ جانے والے
سیاسی کارکنان ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔
کیونکہ سانحہ نو مئی کے بعد مسلح افواج کی جانب سے اپنے سینئرترین افسران
کو نوکری سے برخاست کرنا بہت معنی خیز ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ مسلح افواج
سانحہ نو مئی کو بھولنے کے لئے ہرگز تیار نظرنہیں آتیں۔پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لئے ابھی بھی وقت ہے کہ وہ قومی سلامتی کے
اداروں کے خلاف بے جا الزامات لگانے اور مخالف سیاسی جماعتوں کو چور ڈاکو
پکارنے کی بجائے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر گریٹر ڈائیلاگ کرنے کے
لئےآگے بڑھیں ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ پاکستان کی آئینی تاریخ بہت تاریک
رہی ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب دیکھنے والے افراد ہمیشہ ہی سے
اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے ناقد رہے ہیں۔ مگر کسی سیاسی لیڈر یا سیاسی
کارکنان کا احتجاج کے نام پر سانحہ نو مئی کی طرح قومی سلامتی کے اداروں کے
خلاف براہ راست حملہ آور ہونا پاکستانی تاریخ کا سیاہ باب بن چکا ہے۔ اللہ
کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز
کو ملکر پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ثم آمین
|