وقت آنے پر کئی عقدے کھلنے کی توقعات باندھ کر بیٹھے کچھ
میرے جیسے لوگ ملک میں بہتری کی آس کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں،ایک طرف ملک
کئی طرح کے غیرملکی قرض کے گھن چکر میں پھنس کر رہ گیا ہے تو دوسری جانب
حکومت مزید قرض کے حصول کی خاطر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پوری کرنے کیلئے
متواتر سخت فیصلے کررہی ہے اسکے ساتھ وزیرخزانہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام
لوگوں پر سخت فیصلوں کے اثرات مرتب نہیں ہونگے،وزیراعظم شہباز شریف نے
پنجاب میں عوامی خدمت کے بے مثال کام کرکے جو دھاک بٹھائی تھی اب انکی مرکز
میں وہ تیزرفتاری نظر نہیں آتی،عوام کیلئے کسی بڑے ریلیف کا تاحال کوئی
اعلان سامنے نہیں آیا،بلا شبہ مشکل وقت میں پاکستان کی معیشت کو ٹریک پر
لانے کے کٹھن مرحلے پر حکومت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کررہی ہے۔ان حالات
میں دیکھا جائے تو پاکستان تاریخ کے کٹھن ترین دور سے گزر رہا ہے جہاں ایک
طرف سیاسی عدم استحکام ملکی معیشت کو سنبھلنے نہیں دے رہا تو دوسری جانب
ملک میں'' ادارہ جاتی'' بحران پیدا ہورہے ہیں۔پاکستان کی
کی 75 سالہ تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے
کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ پچھلی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔ کچھ
تاریخی واقعات میں ایسی مماثلت نظر آئے گی جو یقینا حیران کن ہے۔عدلیہ کو
دیکھ لیں یہاں بھی سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے ججز لانے کی خواہش پروان
چڑھی تو حکومت سے تنازع کی صورت بنی ، اسی خواہش نے اس وقت بھی نظریہ ضرورت
کی شکل میں ملک کو بحرانوں میں دھکیلا اور آج بھی یہی خواہشیں بحرانوں کا
موجب ہے۔عاصمہ جیلانی کیس سے لے کر بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو درست قرار
دینے تک عدلیہ کے اس حصے نے تباہ کن کردار ادا کیا۔ 2010ئکی اٹھارویں آئینی
ترمیم، آئین بننے کے بعد بہت بڑا سنگ میل اور شاندار کارنامہ تھا۔اٹھارویں
ترمیم بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔ ہمیشہ کی طرح سپریم کورٹ کو
اعتراض، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر تھا۔پھر 2016ء میں
نواز شریف کی نااہلی قانونی طور پر ایک بھونڈا فیصلہ تھا۔اور آج صورتحال یہ
ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال بہت سے سینیر جج صاحبان کو اپنے ساتھ کسی
بنچ کا حصہ بنانا پسند نہیں کرتے۔فوجی عدالتوں کے بارے میں لارجر بینچ سے
دو سینئر ججز کے نکلنے پر 7رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی ہوئی ہے۔اسکے ساتھ
ساتھ ملک مزید کئی مختلف سنگین مسائل کا شکار ہے اور ان سب کے منفی اثرات
لازمی طور پر ملکی معیشت پر مرتب ہورہے ہیں،بادی النظر میں مشکل کی اس گھڑی
میں حکومت مسائل حل کرنے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے ۔اگرچہ ماضی میں بھی
پاکستان سیاسی اور معاشی بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ لیکن سابق وزیر اعظم
عمران خان کی کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد
مظاہروں سے جو خرابی کی نئی صورت سامنے آئی اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان جو پہلے ہی مہنگائی اور مایوس کن شرح نمو سے بھی نمٹ رہا ہے اور
ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ایک طرف جہاں مہنگائی کے طوفان نے شہریوں
کی قوتِ خرید کو متاثر کیاہوا ہے تو وہیں ملک میں عدم استحکام اور سیاسی بے
یقینی کے باعث لوگوں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ملک کے حالیہ بحرانوں کی
ذمے داری مبصرین نے مختلف عناصر پر عائد کی ہے۔بعض سیاسی تجزیہ کار سیاسی
جماعتوں اور عدلیہ کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں
کہ فوج کی سیاست میں مداخلت نے جہاں اداروں کو تقسیم کیا وہیں اس کے اثرات
اب معاشرے میں تقسیم کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ
سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج اور سیاسی اختلافات کو ذاتی
اختلاف سمجھنا بھی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ لہذٰا اس صورتِ حال سے
نکلنے کا واحد راستہ قومی اتفاقِ رائے ہی ہے۔کچھ سیاسی مبصرین کایہ بھی
کہنا ہے کہ عمران خان کے انتخاب کے وقت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق نواز
شریف کو سین سے ہٹایا گیا اور انہیں اقتدار میں لایا گیا۔اُن کے بقول ساڑھے
تین سال کے تجربے کے بعد جب انہوں نے عمران خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تو
عدم اعتماد بھی فوج کے گرین سگنل کے بعد ہی آئی۔ ایسے معاملات کو برداشت
کرتے ہیں لیکن عمران خان نے بھرپور مزاحمت کی جو اب تک جاری ہے۔زیادہ
ترمبصرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنیادی غلطی تو 2018 کے انتخابات میں
ایک ناتجربہ کار کھلاڑی کو آزمانے کا چانس دینے پر ہوئی۔اقتدار غیر مستحق
افراد کے حوالے کرنے کا خود اسٹبلشمنٹ اب تک خمیازہ بھگت رہی ہے،اس سیاسی
بحران سے ہی اب خوفناک عدلیہ کا بحران نکل کر سامنے آرہا ہے،ماضی میں عدلیہ
بظاہر منقسم نظر نہیں آتی تھی اور اس وقت تک تو ٹھیک تھا لیکن اب فیصلوں کو
بعض حلقوں کی طرف سے متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ
پارلیمان کی طرف سے ہونے والی قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے روکنے کی
کوشش ہوئی۔اس طرح بادی النظر میں حکومتی معاملات میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے
حوالے سے عدلیہ کا کردار نہایت تشویشناک ہے۔ملک کئی طرح کے مسائل کی زد میں
ہے اور کچھ ادارے آئینی کردار بھی ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔تاہم 9مئی
کے واقعات نے قوم پر ملک دشمنوں کی حقیقت آشکار کرکے رکھ دی ہے،پاکستان کے
حالات خراب کرنے والوں کی سازشیں اب بے نقاب ہوچکی ہیں،ملک دشمنی پر اکسانے
والے چہرے بھی سامنے ہیں،ملک کی سلامتی سے کھیلنے والوں کو کٹہرے میں لانے
کا بھرپور اہتمام ہوگیا ہے،ان حالات میں پاکستان کی سالمیت کو نقصان
پہنچانے والوں کیخلاف سخت تادیبی کارروائی پر ہی ہم نے بہتری کی امید
باندھی ہے۔
|