مودی کا سینگول اور شاہ کا سیلف گول

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نےپچھلے دنوں تمل ناڈو کا دو روزہ دورہ کیا اور چنئی میں پارٹی عہدیداروں کی بند کمرے کی میٹنگ میں ایک عجیب و غریب بات کہہ دی ۔2024 کے لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں انہوں نے کہا غریب خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تمل کو ہندوستان کا وزیر اعظم بننا چاہیے۔ اس کے لیے بی جے پی کااقتدار سے بے دخل ہونا ضروری ہے کیونکہ اول تو اس کے اگلے امیدوار نریندر مودی گجراتی ہیں۔ ان کے بعد دونوں دعویدار وں میں ایک وہ خود گجراتی ہیں اور دوسرےاتر پردیش کے یوگی ادیتیہ ناتھ کا تعلق اتراکھنڈ سے ہے۔ ان دونوں کے علاوہ راجناتھ سنگھ کے دل میں وزیر اعظم بننے کا ارمان ہے جو اترپردیش سے آتے ہیں۔ مہاراشٹر کے رہنے والے نتن گڈکری کو آر ایس ایس وزیر اعظم بنانا چاہتا ہے ۔ ان چاروں میں تمل ناڈو کا کوئی نہیں ہے۔ تمل ناڈو میں بی جے پی کا اتنا برا حال ہے کہ پچھلے الیکشن میں وہاں سے مسلم لیگ کا ایک امیدوار کامیاب ہوا اور تمل ناڈو کی حلیف اے آئی ڈیم کا بھی ایک ہی مایدوار جیت سکا۔ جب بڑے میاں کا یہ حال ہے تو چھوٹے میں کہاں جائیں گے ۔ اس لیے تمل ناڈو سے اگلے دس سالوں تک بی جے پی کا ایک سے زیادہ امیدوارکی کامیابی کا امکان مفقود ہے ۔ اس خوش نصیب کو بی جے پی کے سارے ارکان نے اگر اپنا وزیر اعظم مان بھی لیا تو وہ غریب خاندان کا تمل نہیں ہوگا اس لیے مسکینوں کا موجودہ سیاست سے دیس نکالا ہوچکا ہے۔ یہاں تو انتخاب لڑ کر کامیاب ہونے کے لیے کئی کروڈ کا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیے غریب خاندان کے تمل کا وزیر اعظم بن جانا ایک جملہ بھر ہے۔

امیت شاہ نے نارد منی کی مانند ڈی ایم کو بدنام کرنے کی خاطروزیر اعلیٰ اسٹالن کے والد آنجہانی ایم کروناندھی پر الزام لگایا کہ انہوں نے تمل ناڈو کے سینئر کانگریس رہنما کے کامراج اور جی کے موپنار کو وزیر اعظم بننے سے روکا حالانکہ ان میں اس عہدے پر فائز ہونے کی صلاحیت موجود تھی ۔ اس سے ایک تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمل ناڈو کی کانگریس میں وزیر اعظم بننے کی قابل رہنما تھے جو بی جے پی میں نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے راستے میں کانگریس نے نہیں بلکہ ڈی ایم نے رکاوٹ کھڑی کی ۔ اس سے زیاد ہ احمقانہ منطق کوئی اور نہیں ہوسکتی لیکن آنکھ موند کر مودی شاہ پر ایمان لانے والے اسے بھی تسلیم کرلیں گے۔ امیت شاہ اگر یہ سمجھتے ہیں تمل ناڈو کے لوگ بھی اس طرح جھانسے میں آجائیں گے یا ترودتھورائی ادھینم کے ذریعہ سینگول سے وزیر اعظم نریندر مودی کو نوازے جانے پر خوش ہوکر انہیں ووٹ دے دیں گے تو یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ اس لیے کہ تمل ناڈو کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ وہ سینگول کو بنیادی طور پر پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے میوزیم رکھوادیا اس پر بھی کسی تملی نے کبھی اعتراض نہیں کیا کیونکہ اس کے لیے سہی جگہ وہی تھی ۔ اسے ایوان پارلیمان میں لاکر رکھنے پرتمل خوش نہیں ہوں گے اور یہ اوچھا حربہ بی جے پی کے کسی کام نہیں آئے گا؟

امیت شاہ نے اپنے خطاب میں سینگول کے حوالے سے یہ تو نہیں کہا کہ اسے قبول کرکے مودی جی نے جو احسان عظیم کیا ہے اس کے عوض لوگ بی جے پی کو25 نشستوں پر کامیاب کرا ئیں ۔ انہوں نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے این ڈی اے میں اپنے حلیف اے آئی اے ڈی ایم کے لیے حمایت طلب کی کیونکہ مینڈک کو اگر سینگول تھما دیا جائے تب بھی وہ ہاتھی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ ویسے شاہ جی کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ کرناٹک میں انہوں نے 150+کا نعرہ لگا یا تھا جبکہ سارا کھیل 65پر سمٹ گیا لیکن ان کی زبان کو کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ ایسی جرأت کرنے والے کو قابو میں کرنے کے لیے ان کے پاس ای ڈی اور سی بی آئی موجود ہے ۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ بی جے پی کے صوبائی صدر انامالائی کی بدزبانی کے سبب اے آئی ڈی ایم کے سے بھی تعلقات کشیدہ ہوچکے ہیں ۔ اس میں انامالائی کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو اپنے مرکزی رہنماوں کی پیروی میں بلا روک ٹوک ’من کی بات‘ بول دیتے ہیں اور کوئی انہیں روک بھی نہیں سکتا۔ سابق وزیر اعلیٰ جئے للتا کے خلاف انا مالائی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر اے آئی اے ڈی ایم کے نے دھمکی دی کہ اگر ان پر کارروائی نہیں ہوئی تو وہ اتحادی بی جے پی کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرے گی ۔ ایسا ہوجائے تو 25؍کا خواب ازخود چکنا چور ہوجائے گا اور سینگول کسی کام نہیں آئے گا۔

امیت شاہ کی واپسی کے بعد ریاستی بی جے پی کے سربراہ کے انامالائی نے جوش میں آ کر ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ اے آئی اے ڈی ایم کی آئیکن اور سابق وزیر اعلی جے جے للتا کو غیر متناسب اثاثہ جات کے معاملے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ناروا تبصرے کو جے للتا کے شیدائیوں نے بہت سنجیدگی سے لیا اور پارٹی میں ایک قرارداد منظور کرکے انامالائی کو "نا تجربہ کار، غیر ذمہ دارانہ، اور اشتعال انگیزی کا مرتکب‘‘ قرار دیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ 1998 میں پہلی بار بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے میں موصوفہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ دعویٰ درست ہے مگر سچائی یہ بھی ہے کہ اٹل جی کی اس سرکار کو گرانے کا سہرا بھی جے للتا کے ہی سر جاتا ہے۔ اے آئی اے ڈی ایم نے یہ بات واضح کی کہ سابق وزیر اعلیٰ کے بارے میں اناملائی کے انٹرویو نے پارٹی کے کیڈر کی دل آزاری کی ہے۔ مذکورہ میٹنگ کا مقصد نئی رکنیت کے اندراج پر تبادلہ خیال کرناتھا ، لیکن کے اناملائی کے تبصرہ نے اس کا رخ موڑ دیا ۔ ضلع سکریٹریوں نے اس پر ہنگامہ بالآخر ایک سخت مذمتی قرار داد پر منتج ہوا ۔

بی جے پی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی غلطی کا احساس کرکے اپنے حلیف کی دلجوئی کرتی لیکن جب اقتدار کی رعونت دماغ میں سماجاتی ہے تو یہ ممکن نہیں رہتا۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کے سینئر لیڈر ڈی جے کمار کو اتحاد پر نظرثانی کی دھمکی کے جواب میں پلٹ وار کرتے ہوئے بی جے پی نے کہا کہ "اتحاد میں کوئی بڑا بھائی نہیں ہو سکتا"۔ اپنے صدر کی بدزبانی کا جواز فراہم کرتے ہوئے بی جے پی کے ریاستی نائب صدر نارائنن تروپتی نے کہا، ’’انامالائی کووہ کہنے کا حق ہے‘‘۔ اتحاد کے مستقبل کے بارے پوچھے جانے پر ان کا جواب تھا ، "وقت بتائے گا، ہمارے پاس انتخابات میں تقریباً ایک سال باقی ہے"۔ اپنے حلیف کے تئیں اس جواب کے ہر لفظ سے گھمنڈ کی بو آتی ہے۔ اس ردعمل سے ڈی جے کمار کے الزام کو تقویت ملتی ہے کہ، "انامالائی کسی پارٹی کے ریاستی صدر بننے کے اہل نہیں ہیں۔ انہیں ان کی باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ جے کمار نے شبہ ظاہر کیا کہ انا مالائی نہیں چاہتے کہ اتحاد جاری رہے اور نہ ہی چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی دوبارہ کامیابی حاصل کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جے للتا کی معاون وی کے ششی کلا اور چند دیگر افراد کو سپریم کورٹ نے غیر متناسب اثاثہ جات کیس میں مجرم قرار دیا تھا ۔ اس مقدمہ میں سابق وزیر اعلیٰ مرکزی ملزم تھیں، لیکن حتمی فیصلے سے قبل وہ دارِ فانی سے کوچ کرگئیں لہٰذا انہیں تکنیکی طور پر مجرم نہیں ٹھہرایا گیا ۔ریاستی بی جے پی سربراہ کے اقدامات سے اکثر اے آئی اے ڈی ایم کے کیمپ میں شکوک پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ آیا سابق آئی پی ایس افسر کہیں مرکزی قیادت کی ترجمانی تو نہیں کر رہے ہیں۔

دہلی میں مودی جی نے پنڈت نہرو کو دیئے جانے والے طلائی سینگول کو نئے ایوانِ پارلیمان میں نصب کرکے تمل عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی اور اقتدار کی علامت کے آگے سجدہ ریز ہوکر یہ ثابت کردیا کہ ان کےلیے کرسی ہی سب کچھ ہے۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے امیت شاہ نے مدورائی کی تقریب میں نیو جسٹس پارٹی کے بانی اے سی شانموگم کے ہاتھوں چاندی کا سینگول وصول کرکے اس ناٹک کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 2024 میں این ڈی اے کے پچیس سے زیادہ ساتھی نئی کابینہ میں نریندر مودی کے ساتھ حلف لیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ساورکر کی سالگرہ، سینگول اورتمل سادھو سنت سب ایوان پارلیمان اپنے حامیوں کی تعداد بڑھانے کا وسیلہ ہیں ۔ ان کا ہندو راشٹر سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ آخر سینگول کو الہ باد کے میوزیم سے کیوں دریافت کیا گیا؟ وارانسی کے پنڈتوں کے بجائے تمل ناڈو کے سادھووں کو کیوں زحمت دی گئی ۔ ملک کے دانشور دراصل اسے ہندو راشٹر کی بنیاد قرار دے رہے تھے حالانکہ وہ تو سیدھے سیدھے انتخابی جھول جھال تھا۔ کرناٹک میں اگر گجرات جیسی کامیابی مل گئی ہوتی تو شاید اس کی ضرورت بھی نہیں پیش آتی ۔اس طرح یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ہاتھی کے کھانے اور دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں ۔ بی جے پی کے دکھانے کا دانت ہندوتوا ہے اور کھانے کا انتخابی کامیابی یا اقتدار ہے۔ عام طور لوگ ان دونوں کے درمیان کنفیوز ہوجاتے ہیں ۔ سینگول بھی دکھانے کا دانت ہے لیکن اس راز کو فاش کرکے امیت شاہ نے سیلف گول کردیا ہے۔

نوٹ : مربی و محبی مولانا فاروق خان صاحب کی رحلت سے دل غمگین ہے۔ کوشش کے باوجود ان کی شخصیت پر اپنے احساسات کو قلمبند نہیں کرسکا۔ ان شاءاللہ کل کوشش کروں گا ۔ اللہ تعالیٰ مولانا کے درجات کو بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449948 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.