بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ،خواب سے تعبیر تک

چین کی جانب سے ایک مرتبہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ عالمی معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی میں مدد کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی اعلیٰ معیار کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔آج سے 10 سال قبل اپنی شروعات کے بعد سے بی آر آئی نے شراکت دار ممالک کے لئے چار لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا کی ہیں اور تقریباً 40 ملین لوگوں کو غربت سے باہر نکالا ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بی آر آئی کی مشترکہ تعمیر سے شریک ممالک کی تجارت میں 2.7 سے 9.7 فیصد، عالمی تجارت میں 1.7 سے 6.2 فیصد اور عالمی آمدنی میں 0.7 سے 2.9 فیصد اضافہ ہوگا۔

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی عالمی پزیرائی کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد عالمی تنظیمیں اس میں فعال طور پر حصہ لے رہی ہیں جو عالمی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے نقطہ نظر کی حقیقی کامیابی ہے۔ بی آر آئی میں شریک ممالک دنیا کی آبادی کا تقریباً 75 فیصد ہیں اور یہ تمام شراکت دار چین کے زبردست ترقیاتی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج چین دنیا کی مینوفیکچرنگ سپر پاور بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے شماریات ڈویژن کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2019 میں چین کا عالمی مینوفیکچرنگ پیداوار میں شیئر 28.7 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ امریکہ، جاپان اور جرمنی کی مشترکہ مینوفیکچرنگ پیداوار کے تقریباً مساوی ہے۔ بی آر آئی کے تحت ٹھوس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر بنیادی توجہ مرکوز کرنا، دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں چین کی مقبولیت کا اہم سبب رہا ہے۔چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ پانی کے منصوبوں، برقی بجلی گھروں اور جدید نقل و حمل کے نظام، بشمول تیز رفتار ٹرینوں اور رابطے کے لئے جدید سڑکوں میں سرمایہ کاری کے بغیر، عالمی سطح پر غربت کا خاتمہ ناممکن ہے۔اسی تصور کی روشنی میں چین نے ترقی پزیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری کو اولیت دی ہے۔
آج بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی 10 ویں سالگرہ ایک ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب دنیا تین سالہ کووڈ 19 وبائی صورتحال اور روس یوکرین تنازعے کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے اور چین اپنی معیشت کو مزید کھول رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے علاقائی اور عالمی عدم تحفظ اور عدم استحکام کے پس منظر میں، لوگ سوچ رہے ہیں کہ انتہائی خطرناک معاملات سے کیسے نمٹا جائے جو بڑے ممالک کے مابین تنازعات کا باعث بن سکتے ہیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ چین کا ماننا ہے کہ ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور باہمی انحصار پرامن بقائے باہمی کی ضمانت ہے۔ گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اس امید کا اظہار کرتا ہے کہ دنیا کے ساتھ مل کر کام کرنے سے عالمی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، چین کو اس بات کا سہرا بھی جاتا ہے کہ اس نے بی آر آئی کو محض معاشیات تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ اس کے پیمانے کو مزید وسعت دی ہے۔ ثقافتی تبادلوں اور لوگوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے چین زیادہ سے زیادہ تفہیم اور تعاون کو فروغ دے رہا ہے ہے۔چین کے نزدیک تعلیمی تعاون، سیاحت کے فروغ اور ثقافتی تبادلوں میں سرمایہ کاری ، اعتماد اور احترام پر مبنی مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھتی ہے۔ یہ کوششیں مکالمے، تعاون اور متنوع نقطہ نظر کو فروغ دے کر استحکام میں کردار ادا کرتی ہیں۔دوسری جانب یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی روشنی میں اندھا دھند ترقی کا قائل نہیں ہے بلکہ پائیدار ترقی کا خواہاں ہے ، جس میں ماحول دوستی کلید ہے۔چین کی ماحول دوست توانائی کے منصوبوں اور قابل تجدید ذرائع میں سرمایہ کاری پر توجہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے اس کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔خلاصہ یہی ہے کہ چین کا پیش کردہ بی آر آئی حقائق کی روشنی میں دنیا میں مشترکہ خوشحالی ،استحکام اور افرادی ترقی کی ٹھوس شکل ہے جس کے ترقیاتی ثمرات سے دنیا کے کمزور ممالک بلا تخصیص فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 616495 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More