ستر کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ و سابق
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تین بنیادی انسانی ضروریات روٹی کپڑا اور
مکان کو اپنی پارٹی کے منشور کا حصہ بنایا۔ اور اس منشور نے عوام الناس میں
اتنی پزیرائی حاصل کی کہ پاکستانی عوام نے عام انتخابات میں ذوالفقار علی
بھٹو کی دیوانہ وار حمایت کی اوریہ الگ بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی
انتخابات میں عوامی حمایت کیساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جیسا کہ شیخ مجیب
الرحمان کی انتخابات میں کامیابی کیساتھ ہوا۔ پاکستان کی بدقسمتی کہئیے یا
پھر بنگالی بھائیوں کی خوش قسمتی کہ شیخ مجیب الرحمان کو اقتدار سونپنے کی
بجائے ہمارے مقتدر حلقوں نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست مملکت خداداد
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دولخت کروانا منظور کرلیا۔ بہرحال روٹی کپڑا اور
مکان کا منشور آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پاکستان کی تمام سیاسی
جماعتوں کے منشور میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اور پاکستانی عوام کی
بدقسمتی ہی کہی جاسکتی ہے کہ آج بھی پاکستانی عوام کی اکثریت غربت کا شکار
ہے اور سرمایہ درانہ استحصالی نظام کی بدولت غریب عوام غربت کی بدترین نچلی
سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جبکہ اسکے برعکس پاکستان کا آئین عوام الناس کی فلاح
وبہبود اور خط غربت سے نکالنے کے لئے ریاست پاکستان کو بہترین رہنمائی
فراہم کرتا ہے۔ جیسا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 اے جو قراداد مقاصد
1949 پر مشتمل ہے، اس قرادداد کی تمام شقوں کے نیچے یہ درج ہے کہ اگر قرارد
مقاصد کی تمام شقوں پر عملدرآمد ہوجائے تو "تاکہ پاکستانی عوام خوشحال ہو
کر دنیا کی اقوام میں اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کر سکیں اور بین
الاقوامی امن و ترقی اور انسانیت کی خوشی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر
سکیں"۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 37 اے کے مطابق "ریاست پاکستان پسماندہ
طبقات یا علاقوں کے تعلیمی اور معاشی مفادات، کو خصوصی توجہ کیساتھ فروغ دے
گی"۔ آرٹیکل 37 ب کے مطابق: ریاست پاکستان کم سے کم مدت کے اندر ناخواندگی
کا خاتمہ کرے گی اور سیکنڈری تعلیم مفت اور لازمی مہیا کرے گی۔ آرٹیکل 37
سی کے تحت ریاست تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو عام طور پر دستیاب کرے گی
اور اعلیٰ تعلیم کو قابلیت کی بنیاد پر سب کے لیے یکساں طور پر قابل رسائی
بنائے گی۔ آرٹیکل 37 ڈی کے مطابق ریاست سستے اور فوری انصاف کو یقینی
بنائے گی۔ اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 کی شق اے میں درج ہے کہ "
ریاست پاکستان عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے، دولت اور وسائل
پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر اس
سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچنے اور آجر اور مزدور اور زمیندار اور مزارع کے
درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دیکر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل،
عوام کی فلاح بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی"۔ شق بی میں درج ہے کہ " ریاست
پاکستان تمام شہریوں کے لئے ملک میں دستیاب وسائل کے اندر، معقول، آرام و
فرصت کیساتھ کام اور مناسب روزگار کی سہولیات مہیا کرے گی"۔ شق سی میں درج
ہے کہ ریاست، سرکاری ملازمت کرنے والے یا بصورت دیگر ملازم تمام اشخاص کو
لازمی معاشرتی بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح سے معاشرتی تحفظ مہیا کرے گی۔
شق ڈی میں درج ہے کہ ریاست پاکستان ان تمام شہریوں کے لئے جو کمزوری،
بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور پر اپنی روزنی نہ کما سکتے
ہوں بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل ، بنیادی ضروریات زندگی مثلا خوراک،
لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد مہیا کرے گی۔ اسی طرح آرٹیکل 38 کی شق
ای کے مطابق "ریاست پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت،
افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کرے گی۔ ریاست پاکستان کی
بدقسمتی کہہ لیں یا کچھ؟ تمام ریاستی ادارے آئین پاکستان میں درج ٹیکسوں
اور محصولات والے تمام آرٹیکلز پر دل و جان اورشبانہ روز عمل پیرا دیکھائی
دیتے ہیں۔ مگر افسوس عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے آئین پاکستان مین
درج آرٹیکلز پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ عوام الناس کے لئے روٹی کپڑا
اور مکان کا حصول تو دہائیوں ہی مشکل ہو چکاتھا۔ اب تو تعلیم، صحت اور
انصاف۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کے حصول کے لئے بھی عوام الناس کی چیخیں
آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے حکمران بیرون ممالک سے
قرضوں کے حصول پر خوش خبریاں دیتے دیکھائی دیتے ہیں۔ آئین پاکستان میں درج
تمام تر بنیادی انسانی ضروریات کے لئے درج آرٹیکلز میں ریاست پاکستان کی
ذمہ داریوں کا تعین کر دیا گیا تھا مگر افسوس، آبادی میں اضافہ کےتناسب سے
سکول، کالجز، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور عدالتوں کا قیام کیا گیا اور نہ
انکے بارے میں ٹھوس پالیسیاں بنائی گئیں۔ انہی وجوہات کی بناء پر ریاستی و
سرکاری ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں جبکہ اس کے بالکل پرائیویٹ سیکٹرز کی
پانجوں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں ہے۔ چاہے وہ معاملہ تعلیم کا ہو یا
پھر صحت کا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کاپورا مہینہ محنت،
مزدوری کرنے کا مقصد صرف اور صرف بجلی و گیس کے بلوں کو جمع کروانا ہی رہ
گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے
لئے پالسیاں اور قوانین بنانے والوں کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہے۔جن میں
سے زیادہ تر خود اور انکے بچے نہ تو پاکستان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور
نہ ہی بیماری کی صورت میں اپنا علاج پاکستان میں کرواتے ہیں۔ اشرافیہ کے
مقابلہ میں پاکستانی عوام بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ پاکستانی عوام بھی مذہبی
فرقوں اور سیاسی فرقوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ انکے نزدیک اپنا مسلک اور
سیاسی لیڈر ہی سب کچھ ہے چاہے وہ سیاسی یا مذہبی لیڈر کتنا ہی ڈرامہ باز یا
رنگ باز کیوں نہ ہو۔ضرور ت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام آئین پاکستان
میں درج اپنے حقوق کو پہنچانے اور سیاسی لیڈران کی اندھی تقلید کی بجائے
اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرے۔
|