خدا دیکھ رہا ہے .........

 

۔بجلی کی قیمت میں یکمشت چار روپے96پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے کے بعد وزیراعظم نے فرمایا کہ بظاہر یہ اضافہ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا گیا ہے لیکن اس کی اشد ضرورت بھی تھی ۔جہاں تک وزیراعظم کی اس بات کا تعلق ہے میں ان کی اس بات پر ہر گز اتفاق نہیں کرتا ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ 1980کی دہائی میں لاہور جیسے بین الاقوامی شہر میں بجلی کے ترسیلی امور کو دیکھنے کے لیے صرف ایک چیف انجینئرآفس ہوا کرتا تھا ۔ تمام معاملات خوش اسلوبی سے انجام پارہے تھے۔ پھر آئی ایم ایف حکمرانوں کے ا عصاب پر ایسا سوار ہوا کہ اس کے حکم پر واپڈاسے بجلی کے ترسیل امورکا کام لے کر مختلف ناموں سے 9کمپنیاں بنا دی گئیں جن کی تعداد اب گیارہ ہوچکی ہے ۔ ہر کمپنی کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے، اس بورڈ کا سربراہ چیف ایگزیکٹو کہلاتا ہے ۔ ہرتقسیم کار کمپنی کے معاملات کو چلانے کے لیے آٹھ سے دس جنرل مینجرز ہیڈ آفس میں بیٹھتے ہیں جن کی معاونت کے لیے آٹھ دس افراد کا عملہ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔ ایک شہر بیس سے پچیس ایس ڈی او آفس موجود ہیں جن میں عملے کی تعداد بھی سو سے کم نہیں ہو گی ۔ یہ تو صرف ایک تقسم کار کمپنی کی بات ہے، اس جیسی گیارہ تقسیم کار کمپنیاں میں موجود ہیں ۔جبکہ واپڈا کے مرکزی اور ذیلی دفاتر میں بڑے بڑے افسروں کے انبار دکھائی دیتے ہیں ۔ جن کو نہ صرف لامحدود مفت بجلی ، مفت گیس ، مفت پٹرول اور مفت موبائل بلوں کی سہولیتیں حاصل ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق کل 65ہزار افسر اور ملازمین بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ ان کو تقریبا ایک ارب یونٹ بجلی ماہانا مفت فراہم کی جاتی ہے ۔ 35روپے فی یونٹ کو ایک ارب یونٹ سے ضرب دے لیں تو 35ارب روپے کی بجلی ہر مہینے مفت فراہم کی جارہی ہے ،جسے سرکلرڈیٹ کا نام دے دیاجاتاہے جو بارہ مہینوں میں 420 ارب روپے بن جاتا ہے ۔اسی رقم کو ایڈجسٹمنٹ کا نام دے کر مہینے دو تین بار بجلی کے ریٹ بڑھا کر عوام کا کچومر نکالا جارہا ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔اگر سرکلر ڈیٹ حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے جس کی نشاندھی آئی ایم ایف نے بھی کی ہے تو پھر کیا جواز بنتا ہے کہ 65ہزار افسروں اور ملازمین کو مفت بجلی فراہم کی جاتی رہے۔یہی نہیں بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے ذمہ دار سرکاری اور نیم سرکاری محکمے ہیں ،جن کا بجلی کا کنکشن تو کاٹا نہیں جاتا ان کے مفت استعمال کی بجلی کا بل (بجلی چوری کانام لے کر) عوام کے بلوں میں شامل کردیا جاتاہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی ہی ناانصافیوں کی وجہ سے ہمارا ملک زلزلوں ، سیلابوں ، طوفانی بارشوں اور ژالہ باری کی زد میں دکھا ئی دے رہا ہے ۔ چند دن پہلے مجھے شالیمار ٹاؤن کے نواحی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ۔میں جس گھر میں بھی گیا وہاں بجلی بندتھی ۔ گرمی اس قدر شدت سے پڑرہی تھی کہ زندہ انسان کو بجلی کے بغیر سانس لینا بھی دشوار ہورہا تھا ۔ میں نے جب لیسکو چیف سے موبائل پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ نئے ٹرانسفارمر کی شدید کمی ہے ۔ جو مرمت کرکے لگائے جاتے ہیں وہ اضافی لوڈ کی وجہ سے جلد ہی خراب ہو جاتے ہیں ۔ میں نے اگلی صبح مقامی لوگوں سے پوچھا کہ رات کو بجلی آگئی تھی ؟تو مجھے بتایا گیا کہ رات ایک بجے بجلی آگئی تھی ، صبح چار بجے پھر چلی گئی ہے ۔ یہ صورت حال انتہائی تشویش ناک حدتک پہنچ چکی ہے ۔اگر اشرافیہ کی شاہ خرچیوں کابوجھ عوام کے کندھوں پر لادنے کا سلسلہ نہ رکا تو یہ سلسلہ عوام کو خونی انقلاب کی دہلیز پرلا کھڑا کرے گا۔ قرضے حکمران لیتے ہیں اور اپنوں میں بانٹ دیتے ہیں ،لیکن آئی ایم ایف کی تمام پابندیاں عوام پر نازل کردیتے ہیں ۔شہباز شریف بہترین منتظم کی حیثیت سے مشہور تھے، نہ جانے کیوں وہ بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو ماضی کے حکمران الاپا کرتے تھے ۔ان کے 15 مہینوں میں نہ سردیوں میں لوڈشیڈنگ ختم ہوئی ، گرمیوں میں تو لوڈ شیڈنگ ایک عذاب شکلاختیار کر چکی ہے ۔ ظلم اور زیادتی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم سمیت تمام وزراء شدید ترین گرمیوں میں بھی کوٹ پینٹ پہن عوام کو یہ باور کرواتے رہے ہیں کہ ہم آسمانی مخلوق ہیں اور عوام زمینی مخلوق۔ اگر خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ اس خوف سے کانپ اٹھتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو روزقیامت وہ رب کو کیا جواب دیں گے ۔میں سمجھتا ہوں جوابدھی کا یہی خوف ہر مسلم حکمرانوں کو ہونا چاہئے ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف یہ کیوں نہیں کہتا قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ملک میں بارہ سے زائد وزیر نہیں ہونے چاہیئں۔آئی ایم ایف یہ کیوں نہیں کہتا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں کے جتنے سرکاری افسروں ،ججوں، وزراء وغیرہ کو مفت پٹرول ، مفت بجلی ، مفت سرکاری ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے، ان تمام سہولتوں کو ختم کردیا جائے ۔لیکن سرکاری سطح پر ان شاہ خرچیوں کی طرف سے آئی ایم ایف نے بھی دانستہ آنکھیں بند کررکھی ہیں ۔بجلی ،پٹرول اور گیس کے اخراجات بڑھانے پرہی اصرار چلاآرہا ہے۔ آٹا جوپچھلے سال اپریل میں 45روپے فی کلو تھا اب 160روپے، گھی پانچ سو روپے کی حد عبور کررہا ہے ۔ چاول جو 120 روپے کلو ملتے تھے اب وہ ساڑھے تین سو روپے کلو، دودھ جو 70 روپے کلو تھا اب 250 روپے کلوتک پہنچ چکا ہے ۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ یہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی ویلیو کی وجہ سے تیل کی قیمت بڑھی ہے لیکن میں ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ڈالر کو بے لگام چھوڑنے کا جرم کس نے کیا ،پہلے عمران آنکھیں بند کیے موج میلہ کرتے رہے، اب آپ کررہے ہیں ۔ایسی ہی مجرمانہ لاپرواہی کی بدولت پاکستانی کرنسی نیپال اور افغانستان سے کم ہوکر بدترین سطح پرپہنچ چکی ہے ۔پھر کہا جاتا ہے کہ ہم نے سیاست نہیں پاکستان کو بچایا ہے ۔رہی سہی کسر حکمرانوں نے سرکاری افسروں اور ملازمین کی تنخواہوں میں 30سے 35فیصد اضافہ کرکے نکال دی گئی ہے۔ گویا روٹی تو صرف سرکاری ملازمین اور افسر ہی کھاتے ہیں ۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عذاب نے بطور خاص ان عمررسیدہ لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جن کو نہ کہیں سے پنشن ملتی ہے اور نہ اپنی اولاد کی توجہ ۔ ان کی زندگی عذاب بن کے رہ گئی ہے۔ اگر حکومت سرکلر ڈیٹ ختم کرنا ہی چاہتی ہے تو واپڈا سمیت تمام بجلی کی سپلائی کمپنیوں کے افسروں اور ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت فوری طورپر ختم کردی جائے ۔جس طرح غریب عوام بجلی کے بل اپنی جیبوں سے ادا کررہے ہیں، اسی طرح واپڈا ،رتمام کمپنیوں کے لوگ بھی اپنی جیب سے بجلی کے بل ادا کریں گے تو سرکلرڈیٹ خود بخود ختم ہوجائے گا ۔مساوات محمدی پر عمل کرتے ہوئے تمام لوگ ایک ہی جیسی زندگی بسر کرسکیں گے ۔عام اور خواص کا فرق ہر صورت ختم کرنا ہو گا ۔وگرنہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 783551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.