صہیونی ریاست میں بڑھتے ہوئے مظاہرے ، ہمارے لیے سبق؟

 

 بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نومبر 2022کو ہونے والے الیکشن کے بعد صہیونی ریاست ( اسرائیل ) اپنی تاریخ کے شدید سیاسی بحران سے نکل آئی۔لیکن انتحابات کے بعد تشکیل پانے والی مذہبی صہیونیت حکومت دنیا کے پرامن حلقوں کے لیے کسی انتباہ warningسے کم نہیں تھی ۔ صہیونی ریاست کی تاریخ میں سب سے زیادہ مدت تک وزیر اعظم رہنے والے نیتن یاہو نے نئی حکومت کی تشکیل کے لیے دجالی سلطنت کا خواب دیکھنے والے ( مذہبی شدت پسند صہیونت ) کے تمام سیاسی گروہ جیسے اوتسما یہودیت پارٹی ، شاس الٹرا آرتھوڈوکس پارٹی سمیت انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو ساتھ ملالیا۔ جیوئش پاور پارٹی کے سربراہ اتمار بین گیور کو قومی سلامتی کا قلم دان ، وزارت خزانہ کا قلم دان بزلئیل سموٹریچ اوروزارت دفاع مذہبی جنونیوں کو سونپ کر مستقبل کے اپنے انتہاپسندانہ اقدام کا کھل کر اظہار کر دیا ۔ ان انتحابات میں مذہبی انتہا پسند صہیونیت نے 120 نشستوں میں 64 نشستیں حاصل کی تھی۔ جسکا صاف مطلب یہودی مذہبی انتہا پسندی( اسلاموفوبیا ) پر استوار کیا گیا یہ صہیونی سیاسی ڈھانچہ نہ صرف سیاسی قیادتوں بلکہ عام یہودی اکثریتی عوام کے لیے بھی قابل قبول ہے۔ سات دہائیوں میں پہلی بار ملک پر انتہا پسند نسل پرستوں کا اتحاد حکومت کرے گا۔ یعنی یہ ایک ایسا فاشسٹ صہیونی معاشرہ جس میں کہیں سے بھی اسلام و مسلمانوں کے لیے خیر نظر نہیں آتی اور نہ ہی آئے گی۔

موجودہ انتہا پسندانہ صہیونی اتحاد دو پہلوؤں یا پھر بنیادی پالیسیوں کو مد نظر رکھ کر تشکیل پایا ہے۔ 1۔ گریٹر اسرائیل کی تشکیل میں آنے والی رکاوٹوں کو بزور قوت ختم کرنا ، 2۔ اسرائیلی پارلیمنٹ ( Knesset) کے ممبران کی کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا۔سردست کالم کے موضوع کا تعلق نمبر 2 سے ہے،۔ تاکہ پاکستانی سادہ لوح عوام صہیونی ریاست میں پچھلے چند ماہ سے جاری مظاہروں کی حقیقت جان سکیں، شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ صہیونی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے۔ اس کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پوری کوشش ہے کہ کینسٹ میں ایک ایسا قانون بنایا جائے ، جو وزیر اعظم، وزارء اور ارکان کو استغاثہ سے استثنیٰ دے۔ یعنی عدالتی نظام میں نام نہاد اصلاحات کے نام پر ججوں کے اختیارات کم کرنا ۔ اس قانون کو ’’فرانسیسی قانون‘‘ کہا جاتا ہے۔بہرحال اس قانون کی منظوری سے قبل نیتن یاہو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک اور قانون کی منظوری چاہتے ہیں ۔ جس کی رو سے پارلیمنٹ ( Knesset) کو سپریم کورٹ سے زیادہ بااختیار بنا دیا جائے ۔ اور سپریم کورٹ کینسٹ میں بنائے گے کسی بھی قانون خاص کر تحفظ کرپشن کو چیلنج نہ کر سکے۔
عدالت کی طاقت کو محدود کرنے والے عزائم جیسے ہی میڈیا میں آتے ہیں ،( Knesset) میں ڈسکس ہوتے ہیں۔ وہی نسل پرست یہودی جو اسلام ومسلمانوں کے خلاف پیش پیش ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر قانون کی بالادستی کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ مظاہرے ہیں کہ رکنے کانام ہی نہیں لے رہے بلکہ دن بدن ان میں شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ یہ مظاہرے 21 ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں ۔تو دوسری جانب ناجائز صہیونی ریاست کے 300 ملٹری ڈاکٹروں سمیت 750ریزور فوجیوں کے علاوہ سینئر جنگی پائلٹس، ایلیٹ کمانڈوز، ڈیفنس فورسز اور سائبر انٹیلی جنس ماہرین کے سینکڑوں اہلکاروں نے اپنی قیادتوں کو خطوط ارسال کیے ہیں ۔کہ ’’ اگر حکومت سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کے منصوبے کو آگے بڑھائے گی ، وہ خدمات سرانجام نہیں دیں گے‘‘۔ مغربی تجزیہ کاروں نے موجودہ صورت حال سے ایک فوجی بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا ہے اور ممکنہ بغاوت کے اثرات کا رخ موڑنے کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ ایک لمبی جنگ خارج از امکان نہیں۔ تل ابیب اور جافا میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( ERI ) کی تحقیق نے پورے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ جس میں 54فیصد یہودی نوجوان موجودہ حکومت کی عدالتی اصلاحات کو اپنے معاشرے کے لیے بدترین بگاڑ سے تشبیہ دے رہے ہیں اورملک چھوڑنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتے ہیں کہ وہ ایک کرپٹ معاشرے میں سانس لیں گے۔

اس تمام منظرنامے میں سیاسی تقلید کی حامل عوام کو جن حقائق کے ادراک کی ضرورت ہے ۔ وہ یہ کہ دنیا کی دہشت گرد ریاست کے شہری بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کے ملک میں بھی قانون کی بالادستی قائم نہیں ہو گی تو ان کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ مجاہد اعظم رسول اﷲ سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ ( اے لوگو : تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں، جب ان کا کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دی جاتی)۔ جس ملک کی عوام گذشتہ پچاس ساٹھ سالوں سے جھوٹ اور کرپٹ مافیا ( شیطان کے پجاریوں ) پر یقین رکھتی ہو ، جس ملک یا ریاست کے قاضی اپنے ضمیر کی قیمت وصول کر لیتے ہوں ، قانون بک جاتا ہے ۔ جہاں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ، اس کے دین، مقدس کتاب، نبی مکرم اور ان کے اصحاب کی توہین پر سیاست کی جاتی ہو ۔ جہاں رفاعہ عامہ اور ملکی سلامتی سے related منصوبوں ( ڈیموں کی تعمیر ) کو ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہو، جہاں سیاسی اقتدار اور اختیارا ت کے حصول کے لیے عوام کو سیکورٹی اداروں سے لڑوا دیا جائے ، ماؤں کے بیٹوں کو مروا دیا جائے۔ جس ملک میں عدل فروش، دین و ایمان فروش، تعلیم فروش، ملت و قوم فروش اور کرپٹ مافیا فیصلہ سازی کے مالک بن جائیں ۔ میڈیا ہاؤسز اغیار کے باطل نظریات کو پروموٹ کر کے عوام کی ذہنی سازی کریں۔ وہاں پر اﷲ کا عذاب ( مہنگائی، لاقانونیت اور کرپشن کی شکل میں ) نہیں آئے گا تو کیا من وسلویٰ اترے گا؟ ۔پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ تم اپنی نسلوں کو بھوک وننگ کی وجہ سے ایڑیاں رگڑکر مرتے دیکھو گے تب بھی کرپٹ مافیا اپنی دولت پاکستان نہیں لائیں گے۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے سیاسی مقلدوں ، تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۔

Waleed Malik
About the Author: Waleed Malik Read More Articles by Waleed Malik: 17 Articles with 11040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.