پی ڈی ایم حکومت نے سال 2023،24 کا بجٹ پیش کیا.اس بار عجیب سی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ایک طبقہ شکوہ کناہ ہے کہ مساجد کے آئمہ و خطباء کے لیے بجٹ میں کچھ نہیں. دوسرا ایک طبقہ نوح گری کررہا ہے کہ مدارس کے لئے بجٹ میں کچھ نہیں رکھا گیا. اتفاق سے ایسا کہنے والوں کی اکثریت مولویوں کی ہے. اور وہ مولوی یوتھی بھی نہیں. یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستانی بجٹ میں آیمہ مساجد اور مدارس دینیہ کے لئے گرانٹ مختص ہونا چاہیے.کیونکہ یہ مدارس بھی آئین اور قانون کو فالوو کرتے ہوئے دینی تعلیم کا بڑے پیمانے پر انتظام کررہے ہیں. مدارس و مساجد سے وابستہ لوگ بھی محب وطن پاکستانی ہیں. آئین و قانون کو کسی بھی دوسرے شہری سے زیادہ مانتے ہیں.
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ جب کے پی کے حکومت نے گزشتہ بجٹوں میں، آیمہ مساجد کے لئے قلیل تنخواہ کی بات کی تھی، یا پھر دارالعلوم حقانیہ کے لیے بجٹ میں کچھ رقم رکھا تھا، اگرچہ نہ آیمہ مساجد کو کچھ دیا گیا اور نہ ہی دارالعلوم حقانیہ کو، مگر سیاسی تعصب کی انتہا کو چھوتے مذہبی ذہن اور سیاسی کارکنوں نے حکومت کے اس فیصلے کو دین دشمنی کا عنوان دے کر، نہ جانے کیا کیا رقیق حملوں سے دارالعلوم حقانیہ اور مولانا سمیع الحق شہید کو بدنام کیا تھا. حضرت شہید کو اپنے لیٹر پیڈ میں لکھ کر وائرل کرنا پڑا کہ دارالعلوم کو کچھ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی دارالعلوم حقانیہ نے حکومت سے کچھ مانگا ہے مگر سیاسی تعصب میں لتھڑا، گھٹیا ذہنیت نے اپنی غلاظت پھیلانے سے گریز نہیں کیا. آج وہی لوگ شکوہ کناہ ہیں. یہ نری منافقت اور انتہائی رذیل ذہنیت ہے. اللہ ایسی ذہنیت اور تصلب و تعصب سے سب کو بچائے. باقی یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ دینی مدارس کے بورڈز حکومت سے مدارس کے طلبہ و اساتذہ کا حصہ لینے کی راہ میں کیوں رکاوٹ ہیں ؟ تو احباب رہنمائی کریں.
باقی بجٹ میں مدارس و مساجد کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا ہے کا، واویلا کرنے سے پہلے اس بابت درست حکمت عملی اور پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے. اگر آج اس پر مکالمہ ہوگیا تو کل آنے والی نسلیں شاید کچھ اچھے فیصلے کرنے پر مجبور ہوں. ورنا وہی لیکر پیٹتے رہنا ہوگا کہ حکومت مدارس کو کچھ نہیں دے رہی، یا حکومت کا گرانٹ وصول کرنے سے دین خطرے میں پڑ جائے گا.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|