سیاست کیجیے، سیاست کیجیے، خجالت نہ بڑھائیں

میں دینی سماجیات کا طالب علم ہوں، دینی جماعتوں کی سیاست سے بھی دلچسپی رکھتا ہوں اس لیے ان امور پر تجزیہ کرتا اور تبادلہ خیال اور مکالمہ بھی. یہ تجزیے اور مکالمے قطعاً کسی کی مخالفت میں نہیں ہوتے نہ ہی مجھے کسی کی مخالفت سے لینا دینا ہے.

گلگت بلتستان میں جے یو آئی کا فیس بک اور اخباری حد تک وجود ضرور ہے مگر عملاً کوئی وجود نہیں. ایک ممبر حاجی رحمت خالق ہے جو اپنے بل بوتے اسمبلی اور عوام میں موجود رہتے ہیں. مجھے لگتا ہے کہ کھبی رحمت خالق کو بھی علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا.

سیاسی حوالے سے گلگت بلتستان، پیپلزپارٹی کے بعد سب سے زیادہ جے یو آئی کے لیے زرخیز ہے مگر یہاں کے کارپردازوں کا انداز سیاست اتنا نامناسب اور غیر فعال ہے کہ اس پر گفتگو کی گنجائش بھی نہیں.
حیرت ہے اتنی بڑی اور قدیم جماعت کا ایک کمرہ یا دکان پر مشتمل دفتر بھی نہیں. اب یہ کام بھی مولانا فضل الرحمن صاحب اسلام آباد سے آکر نہیں کرسکتے.

حافظ حفیظ الرحمان جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے تو مسلم لیگ ن میں گئے اور صوبائی صدر اور وزیراعلیٰ بنے.

حاجی گلبر خان جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے، پہلے آزاد امیدوار بن کر جیتے، وزارت میں رہے. پھر پی ٹی آئی میں گئے، اچھی وزارتوں میں رہے اور فاروڈ بلاک بناکر وزیر اعلی بن گئے.

حاجی شاہ بیگ 15 سال سے زائد جے یو آئی میں رہے، بار بار الیکشن جیتے. سنبھال نہ سکے اور وہ الگ ہوئے اور آج تک اچھی وزارتوں اور پاور پالیٹکس میں اسٹیک ہولڈر ہیں.

جمیل احمد جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے اور پی پی جوائن کیا اور ڈپٹی اسپیکر رہے اور آج تک مرکزی لیڈر ہیں.

مولانا سرورشاہ جے یو آئی کے صوبائی امیر بھی رہے، مگر جماعت سنبھال نہ سکی بلکہ ان کو زبردستی آوٹ کرکے ہی دم لیا. لاریب مولانا سرور شاہ سے بلنڈرز ہوئے ہونگے، انہیں سمجھانا چاہیے تھا. ان سے مکالمہ ہوتا مگر یوں کوئے یار سے سوئے دار پھینکنا کوئی اچھی روایت نہیں.
ایسے بہت سارے لوگ ہیں.

گزشتہ پندرہ سال سے مذکورہ لوگوں کو جانتا ہوں. جنہوں نے جے یو آئی سے علیحدگی اختیار کی یا انہیں نکالا گیا. مگر آج تک ان لوگوں نے مولانا فضل الرحمن صاحب یا مرکزی جے یو آئی کے متعلق ایک لفظ برا نہیں بولا. اشارہ کنایہ میں بھی کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی.

اکثر سے تو میں نے خود پوچھ بھی لیا ہے. کھبی کسی نے مرکزی جماعت یا مولانا کے متعلق حرف شکایت تک نہیں کیا. یہ لوگ ذاتی طور پر دیندار اور شریف النفس لوگ ہیں مگر جے یو آئی گلگت بلتستان کے جو لوگ ہیں، پتہ نہیں ان کی کیا پالیسی ہے، خود تو یونین کونسل کی سیٹ نہیں جیت سکتے مگر عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والے اور الیکشن جیتنے والے رہنماؤں کی مرکز میں تسلسل سے شکایات لگا لگا کر کیوں نکالنے کے درپے ہوتے ہیں.

آپ سیاست کیجئے، پارلیمانی و جمہوری سیاست کیجیے. الیکشن جیتنے والی سیاست کیجئے. فرشتہ کوئی نہیں ہوتا. یہ لوگ بھی فرشتے نہیں تھے. نہ آپ فرشتے ہیں. فرشتوں کی پارلیمانی سیاست میں کیا گنجائش. وہ تو تجمید و تسبیح میں لگے ہوتے. آپ انسانوں کو جوڑے، انہیں دلیل و برہان سے قائل کیجیے. یقین جانیں بہت کچھ حاصل ہونگے. اگر دو چار سیٹیں جیت لیں گے تو آپ کو بھی وزیری مشیری ملے گی ورنا پھر آپ ہمیشہ اتحادی اتحادی اور نظر انداز انداز کا رونا روتے رہوگے.
اگر آپ نہیں کرسکتے ہیں تو خدارا! جماعت کو مزید نقصان نہ پہنچائے. خاموشی سے علیحدہ ہوجائے. وژنری لوگوں کو آنے دیں جو جماعت کو زندہ رکھیں اور پارلیمانی سیاست میں کارکردگی دکھائے.
سوال یہ ہے کہ
کب تک اپنی جماعت سے متحرک، بااثر اور الیکشن جیتنے والے سیاست دانوں کو نکالتے رہوگے؟
اور پھر وہ بڑے عہدوں پر پہنچے تو کب تک ان کو گلدستے پیش کرکے اپنی خجالت بڑھاتے رہوگے؟
سوال تو بنتا ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟ نہ بڑھائیں

خاطرات : امیرجان حقانی

میں دینی سماجیات کا طالب علم ہوں، دینی جماعتوں کی سیاست سے بھی دلچسپی رکھتا ہوں اس لیے ان امور پر تجزیہ کرتا اور تبادلہ خیال اور مکالمہ بھی. یہ تجزیے اور مکالمے قطعاً کسی کی مخالفت میں نہیں ہوتے نہ ہی مجھے کسی کی مخالفت سے لینا دینا ہے.

گلگت بلتستان میں جے یو آئی کا فیس بک اور اخباری حد تک وجود ضرور ہے مگر عملاً کوئی وجود نہیں. ایک ممبر حاجی رحمت خالق ہے جو اپنے بل بوتے اسمبلی اور عوام میں موجود رہتے ہیں. مجھے لگتا ہے کہ کھبی رحمت خالق کو بھی علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا.

سیاسی حوالے سے گلگت بلتستان، پیپلزپارٹی کے بعد سب سے زیادہ جے یو آئی کے لیے زرخیز ہے مگر یہاں کے کارپردازوں کا انداز سیاست اتنا نامناسب اور غیر فعال ہے کہ اس پر گفتگو کی گنجائش بھی نہیں.
حیرت ہے اتنی بڑی اور قدیم جماعت کا ایک کمرہ یا دکان پر مشتمل دفتر بھی نہیں. اب یہ کام بھی مولانا فضل الرحمن صاحب اسلام آباد سے آکر نہیں کرسکتے.

حافظ حفیظ الرحمان جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے تو مسلم لیگ ن میں گئے اور صوبائی صدر اور وزیراعلیٰ بنے.

حاجی گلبر خان جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے، پہلے آزاد امیدوار بن کر جیتے، وزارت میں رہے. پھر پی ٹی آئی میں گئے، اچھی وزارتوں میں رہے اور فاروڈ بلاک بناکر وزیر اعلی بن گئے.

حاجی شاہ بیگ 15 سال سے زائد جے یو آئی میں رہے، بار بار الیکشن جیتے. سنبھال نہ سکے اور وہ الگ ہوئے اور آج تک اچھی وزارتوں اور پاور پالیٹکس میں اسٹیک ہولڈر ہیں.

جمیل احمد جے یو آئی میں تھے، سنبھال نہ سکے اور پی پی جوائن کیا اور ڈپٹی اسپیکر رہے اور آج تک مرکزی لیڈر ہیں.

مولانا سرورشاہ جے یو آئی کے صوبائی امیر بھی رہے، مگر جماعت سنبھال نہ سکی بلکہ ان کو زبردستی آوٹ کرکے ہی دم لیا. لاریب مولانا سرور شاہ سے بلنڈرز ہوئے ہونگے، انہیں سمجھانا چاہیے تھا. ان سے مکالمہ ہوتا مگر یوں کوئے یار سے سوئے دار پھینکنا کوئی اچھی روایت نہیں.
ایسے بہت سارے لوگ ہیں.

گزشتہ پندرہ سال سے مذکورہ لوگوں کو جانتا ہوں. جنہوں نے جے یو آئی سے علیحدگی اختیار کی یا انہیں نکالا گیا. مگر آج تک ان لوگوں نے مولانا فضل الرحمن صاحب یا مرکزی جے یو آئی کے متعلق ایک لفظ برا نہیں بولا. اشارہ کنایہ میں بھی کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی.

اکثر سے تو میں نے خود پوچھ بھی لیا ہے. کھبی کسی نے مرکزی جماعت یا مولانا کے متعلق حرف شکایت تک نہیں کیا. یہ لوگ ذاتی طور پر دیندار اور شریف النفس لوگ ہیں مگر جے یو آئی گلگت بلتستان کے جو لوگ ہیں، پتہ نہیں ان کی کیا پالیسی ہے، خود تو یونین کونسل کی سیٹ نہیں جیت سکتے مگر عوام میں مضبوط جڑیں رکھنے والے اور الیکشن جیتنے والے رہنماؤں کی مرکز میں تسلسل سے شکایات لگا لگا کر کیوں نکالنے کے درپے ہوتے ہیں.

آپ سیاست کیجئے، پارلیمانی و جمہوری سیاست کیجیے. الیکشن جیتنے والی سیاست کیجئے. فرشتہ کوئی نہیں ہوتا. یہ لوگ بھی فرشتے نہیں تھے. نہ آپ فرشتے ہیں. فرشتوں کی پارلیمانی سیاست میں کیا گنجائش. وہ تو تجمید و تسبیح میں لگے ہوتے. آپ انسانوں کو جوڑے، انہیں دلیل و برہان سے قائل کیجیے. یقین جانیں بہت کچھ حاصل ہونگے. اگر دو چار سیٹیں جیت لیں گے تو آپ کو بھی وزیری مشیری ملے گی ورنا پھر آپ ہمیشہ اتحادی اتحادی اور نظر انداز انداز کا رونا روتے رہوگے.
اگر آپ نہیں کرسکتے ہیں تو خدارا! جماعت کو مزید نقصان نہ پہنچائے. خاموشی سے علیحدہ ہوجائے. وژنری لوگوں کو آنے دیں جو جماعت کو زندہ رکھیں اور پارلیمانی سیاست میں کارکردگی دکھائے.
سوال یہ ہے کہ
کب تک اپنی جماعت سے متحرک، بااثر اور الیکشن جیتنے والے سیاست دانوں کو نکالتے رہوگے؟
اور پھر وہ بڑے عہدوں پر پہنچے تو کب تک ان کو گلدستے پیش کرکے اپنی خجالت بڑھاتے رہوگے؟
سوال تو بنتا ہے.
احباب کیا کہتے ہیں؟

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 446 Articles with 433504 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More