بچوں کی کونسلنگ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ فارغ اوقات میں، ان
میں محنت کرنے عادت اور کام کی عادت ڈالنے کی مشق کرانی چاہیے. یہ مشق اور عادت بچے
کی عمر کے مطابق بدلتی رہے گی. اس کے سینکڑوں فوائد ہیں.
عمر علی میرا اکلوتا بچہ ہے. جب یہ تین سال کا تھا تو میں نے اس میں کام کی عادت
ڈالنا شروع کیا تھا. مثال کے طور عمر علی سے گلاس منگواتا، دسترخوان بچھواتا. پھر
یوں ہوا کہ وہ لڑ بڑ کر میرے لیے چائے لاتا اور خود زمہ داری کیساتھ دسترخوان ڈال
دیتا. بہت دفعہ کھینچ کھینچ کر مہمان خانے میں بے وقت دسترخوان بچھاتا. اور مہمانوں
کو کھانے دینا اور ہاتھ دلوانا بھی یوں سیکھ گیا ہے. بلکہ تینوں بچے یہ کام شوق سے
کرتے ہیں اور کھانے بھی مہمانوں کیساتھ ہی کھاتے ہیں.
جب میرے دو بھائی اور بھانجا پانچویں میں پہنچے تو میں نے انہیں اپنے کپڑے خود
دھونے کہ ترغیب دی اور گھر میں بہنوں کو منع کیا تھا کہ ان کے کپڑے نہ دھوئے اور نہ
ہی استری کریں. تب سے وہ خود دھونے اور استری کرنے کے عادی بنے ہیں.
میری دو چھوٹی بچیاں ہیں. ان کو بھی ابھی سے کام پر لگانے کی تلقین کرتا. اب سب سے
چھوٹی والی(دو سالہ) ماں کا ہاتھ پکڑ کر پانی کا گلاس لاتی، دسترخوان بچھاتی اور
گرتے گراتے چائے کا کپ بھی پہنچا دیتی ہے. آج کل اس کے ذریعے چائے بنانے اور کھانا
دینے کا پیغام بھیجتا، یوں وہ بہت اہتمام سے یہ کام کرتی ہیں. کچن سےچھوٹے موٹے
برتن بھی منگواتا.جس شوق سے وہ دوڑتی ہے برتن لانے کے لیے، وہ دیکھ کر مجھے بہت مزہ
آتا.
آج کل جب بھی پلاٹ میں جاتا ہوں تو عمر علی کو ساتھ لے جاتا ہوں. وہ بڑے شوق سے
میرے ساتھ کام کرتا ہے.
پودے لگانا ہو یا پودوں کو پانی دینا ہو، اس کے ساتھ لے جاتا. وہ خوشی خوشی آجاتا
ہے. ساتھ نہ لے جاؤں تو ناراض بھی ہوتا. عمر علی تو اپنی پھوپھیوں اور ماں کیساتھ
کیاریاں بناتا ہے اور سبزیاں اُگانے میں شریک رہتا. بعض دفعہ وہ، "خواتین کے کام
کرتا ہے" کہہ کر طعنے بھی دیتی ہیں مگر وہ لگا رہتا. ان کو بار بار منع بھی کیا ہے
کہ کسی کام پر طعنہ نہ دیں مگر خواتین کہاں باز آتیں.
بہرحال یوں وہ کام سیکھ بھی رہا ہے. شغل بھی کررہا ہے اور فضولیات سے بھی بچ رہا ہے.
بچوں کو صرف تعلیم دینا اور مہنگے اسکولوں میں پڑھانا کافی نہیں. انہیں عملی زندگی
کی مشق اور کام سیکھنے کی عادت بھی ڈالنے چاہیے. کام کی اخلاقیات کا درس بھی عملی
طور پر چلتا رہے گا. بہترین تربیت کی ایک شکل یہ بھی ہے.
بعض دفعہ عمر علی کیساتھ کام کا ٹھیکہ بھی کرتا. مثلا اگر ایک ریڑھی چھوٹے پتھروں
سے بھرلیا تو اتنے روپیہ ملیں گے. یوں وہ کمانے کا گُر بھی سیکھ رہا ہے.
آپ بھی یہ تجربات کیجیے. بہت فائدہ ہوگا. اس طرح کی ایکٹیویٹیز سے بچوں میں خود
اعتمادی بھی پیدا ہوجاتی. حوصلہ بھی بڑھ جاتا ہے اور مختلف قسم کے سکلز بھی سیکھتے
ہیں.
یقین جانیں! بالغ ہوتے ہی بچے بہت سارے معاملات میں خودکفیل ہوجاتے ہیں.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|