محلاتی سازشوں کا شکار مظلوم ظفر حجازی

اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نےسابق چیئرمین سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ظفر حجازی کی بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس سے بری کردیا۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 17 دسمبر 2014 کو ظفر حجازی ایس ای سی پی کے چیئرمین تعینات ہوئے تھے، ان پر جو الزام لگے وہ ان کی تقرری سے پہلے کے ہیں۔ عدالتی فیصلہ کے مطابق ایف آئی اے ظفر حجازی کے خلا ف چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ واضح رہے کہ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ظفر حجازی کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا تھا۔ظفرحجازی کیساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی وجوہات کو جاننے کے لئے پانامہ کے پس منظر کی یاددہانی کروانا اشد ضروری ہے۔ جولائی 2017 میں منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو آمر مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ چلانے کی پاداش میں محلاتی سازشوں کے تحت پانامہ ڈرامہ کے ذریعہ تخت شاہی سے زندان تک پہنچا دیا گیا۔ جسکا تاریخی پس منظر کچھ یوں ہے کہ 3 نومبر، 2007: پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے۔3 نومبر سے 15 دسمبر کے مختصر عرصے کے لیے آئین معطل رہا۔15دسمبر کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔ یکم اگست، 2009: سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور ان کے پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔24 جون، 2013: وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔ 18 نومبر، 2013: چیف جسٹس افتحار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا کیس چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ پھر جیسے جیسے مشرف کے خلاف مقدمہ چلتا گیا اس سے دوگنی رفتار سے بھی زیادہ نواز شریف کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاتا رہا۔ کبھی انتخابات میں دھاندلی کے نام پر 126روزہ پتلی تماشہ نما دھرنا، کبھی لاک ڈاون تو کبھی ڈان لیکس۔ بالآخر پاکستان کے بدقسمت ترین وزیراعظموں کی طرح نواز شریف بھی حسب روایت پانامہ ڈرامہ کے نام پر کرپشن کے الزامات کی بلی چڑھادئیے گئے۔ یہ بات تو طے شدہ تھی کہ نواز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانا بہت ضروری ہوچکا تھا کیونکہ نواز شریف نے ریڈ لائن کراس کرکے مشرف کی جانب سے 3نومبر 2007 کی آئین شکنی کے برخلاف حتمی فیصلہ کرلیا تھا۔ اور یہ فیصلہ اکیلے نواز شریف کا نہ تھا بلکہ مشرف کے خلاف یہ ایکشن پوری پاکستانی قوم کی آواز بن چکا تھا۔ اگر مسئلہ کرپشن ہی کا ہوتا تو پانامہ لسٹ میں سوائے نواز شریف جس کا نام لسٹ میں نہ ہونے کے باوجود ایکشن مگر چار سو سے زائد پاکستانی افراد کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا گیا؟ بہرحال پانامہ جیسے کمزور ترین مقدمہ میں نواز شریف کو ہٹانے کے لئے سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال وقت کی ضرورت بن چکا تھا ۔نواز شریف ہٹاو مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حائل ہر رکاوٹ کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا تھا۔ نواز شریف ہٹاو مشن میں شریف خاندان کے علاو ہ بہت سےایماندار بیوروکریٹس اور ججز بھی محلاتی سازشوں کی زد میں آئے جن میں احد چیمہ، فواد حسن فواد، ظفر حجازی، بشیر میمن، جسٹس شوکت صدیقی بہت نمایاں ہیں۔ ظفر حجازی نےناکردہ گناہوں کی سزا بھگتی۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس ہی روندی جاتی ہے۔ یاد رہے ظفر حجازی کا شمار پاکستان کے ایماندار اور فرض شناص بیوروکریٹس میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ آج ظفر حجازی باعزت بری ہوگئے مگر کیا گزرے ہوئے سات سالوں میں ظفر حجازی اور انکے خاندان پر ہونے والےظلم و ستم کی تلافی کی جاسکتی ہے؟ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں بیٹھے معزز ججز ظفر حجازی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے حکم جاری کرتے دیکھائی دیئے۔ ظفر حجازی کو میڈیا کیمپین کے ذریعے کرپٹ ثابت کیا گیا۔ انکے بیٹے کو سرعام سڑک پر ماراپیٹا گیا۔ اعلی ترین منصب پر فائز شخص کو عہدے سے ہٹایا گیا، کمرہ عدالت میں گرفتار کیا گیا۔عمر کے آخری حصہ میں ہتھکڑیاں پہنا کر دنیا کے سامنے رسوا، ذلیل وخوار کیا گیا۔ ظفر حجازی کا قصور صرف یہی تھا کہ انہوں نے منتخب وزیراعظم کے خلاف چلنے والی محلاتی سازش کا نہ صرف حصہ بننے سے انکار کیا بلکہ اس سازش میں شامل اعلی ترین عدالتی عہدیدران کے سامنے انکو آئینی و قانونی طریقہ سے بے نقاب بھی کیاتھا۔ لیکن جب انصاف کے رکھوالے ہی سازشی کردار کا حصہ بن جائیں، جب انصاف فراہم کرنے والے کٹھ پتلی کا کردار ادا کریں اورپانامہ ڈرامہ کے لئے وٹس ایپ کالوں پر مشہور و معروف جے آئی ٹی کے ممبران کا انتخاب خود کریں اور اپنے رجسٹرار کے ذریعہ ظفر حجازی کو مجبور کرنے کی کوشش کریں کہ فلاں افسر کو جے آئی ٹی کے لئے نامزد کرو تو انکار کی صورت میں پھر ظفر حجازی جیسے ایماندار و فرض شناس افسران کے خلاف یہی کچھ دیکھنے سننے کو ملتا ہے۔ بطور قانون کے طالب علم راقم باعزت بری ہونے پر مبارکباد دینے کی بجائے ظفر حجازی کے ساتھ افسوس کا اظہار کرے گا کیونکہ بیتے ہوئے سات سالوں میں انکی مجروح ہوئی عزت نفس کی تلافی کون کرے گا؟ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میںظفر حجازی جیسے افسران کی قدر ہی نہیں کی جاتی۔ اللہ کریم پاکستان کو مزید محلاتی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ آمین

MUHAMMAD RIAZ
About the Author: MUHAMMAD RIAZ Read More Articles by MUHAMMAD RIAZ: 207 Articles with 163332 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.