امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ قوم غز کے خونخوار ڈاکوں نے ایک گاﺅں پر
چھاپہ مارا اور وہاں کے دو سربرآور دہ آدمیوں کو اپنا قیدی بنالیا پھر
انہوں نے ان دونوں میں ایک کے ہاتھ پاﺅں باندھ دیے اور زبح کرنے کا ارادہ
کیا اس پر وہ بڑی لجاجت سے بولا کہ اے بلند رتبہ بادشاہوں تم مجھے کیوں
تلوار کے گھاٹ اُتار رہے ہو آخر میں نے کیا گناہ کیا ہے جو تم میرے خون کے
پیاسے ہوگئے ہو میں تو ایک مسکین درویش ہوں اور مجھے قتل کرکے تم کو کوئی
بھی دنیاوی فائدہ نہیں ہوسکتا ڈاکوں نے کہا تمھیں زبح کرنے سے ہمیں یہ
مقصدحاصل ہوگا کہ تمہارا دوسرا ساتھی خوفزدہ ہوجائے اوراپنے مال وزر کا پتہ
بتا دے وہ کہنے لگا کہ میرا ساتھی تو مجھ سے بھی زیادہ مفلس ہے ڈاکوں نے
کہا تم جھوٹ کہتے ہو اسے صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے یہ
حال بنا رکھا ہے ورنہ حقیقت میں وہ مالدار ہے اس پر اس آدمی نے کہا کہ
تمہارے اس ارادے کی بنیاد وہم پر ہے تو اس معاملہ میں میرا ساتھی اور میں
دونوں برابر ہیں اور میرے بارے میں بھی آپ کو ایسا ہی وہم ہونا چاہیے تو
پھر سرکار آپ میرے پہلے ساتھی ہی کو کیوں قتل نہیں کردیتے تاکہ اس کے انجام
سے ڈر کر اپنی دولت کا پتہ بتا ۔
دوں امام رومی ؒ کہتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر
اداکرنا چاہیے کہ ا س نے ہم زمانہ آخر میں سب امتوں کے بعد پیدا کیا اللہ
تعالیٰ کا یہ کرم دیکھنا چاہیے کہ اس نے پہلی امتوں کے نافرمانوں کو ہم سے
پہلے قتل کیا تاکہ ہم ان کو ان کے انجام سے عبر ت ہو اگر معاملہ اس کے
برعکس ہوتا کہ ہمیں دوسری قوموں کی عبرت کے لیے ہلاک کیا جاتا تو ہماری کس
قدر بدبختی ہوتی ۔۔۔
قارئین یہ بات پہلے بھی کتنی مرتبہ دہرائی جاچکی ہے کہ بھٹو خاندان کے
شہداءکی قبریں نوڈیرو میں آج بھی اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ
ذوالفقارعلی بھٹو شہید سے لے کر بینظیر بھٹو شہید تک اس خاندان نے اپنے خون
کے ساتھ پاکستان کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کی داستان تحریر کی ہے بھٹو شہیدنے
پوری امت مسلمہ کے حکمرانوں کو تیل کی دولت طاقت کے طور پر استعمال کرنے کا
خیال دیا اور یہی آئیڈیا جب عملی صورت میں آزمایا گیا تو امریکہ اور پورا
یورپ کانپ کر رہ گیا افسوس صد افسوس کہ اس منصوبے پر عمل کرنے والے تمام
لوگ جن میں ذوالفقارعلی بھٹو ،شاہ فیصل ،شاہ فہد اور دیگر شامل تھے انہیں
باری باری پانچ آزادیوں کے علمبردار امریکہ نے موت کے گھاٹ اُتاردیا اور آج
اس قافلہ حریت کا آخری مسافر کرنل قذافی اپنی بقا کی جنگ لیبیا کے صحراﺅں
میں لڑرہا ہے اور پوری امت مسلمہ جو پچاس سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ہے
خاموشی کے ساتھ یہ سب تماشہ دیکھ رہی ہے ۔
قارئین ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے بعد پاکستان میں مارشل لاءکے بعد جب
دوبارہ جمہوریت کی آمد ہوئی تو بینظیر بھٹو شہید وزیر اعظم بنیں ان کا وزیر
اعظم بننا پوری دنیا کے لیے ایک اچنبھے کی بات تھی کہ پاکستان جیسے تیسری
دنیا کے ایک ملک میں جہاں مردوں کی حکومت ہے اور معاشرتی سطح پر مردوں کو
فوقیت حاصل ہے وہاں ایک عور ت مملکت کی سربراہ بن جائے پوری دنیا نے اس بات
کو سراہا اور عالمی میڈیا نے بینظیر بھٹو شہید کو اپنی خبروں میں نمایاں
مقام دیا بینظیر بھٹو شہید کے پہلے دورحکومت کے بعد نواز شریف وزیر اعظم
بنے اور بعد ازاں بینظیر بھٹو شہید کو دوبارہ وزیر اعظم بننے کا موقعہ ملا
نوازشریف کی حکومت کا تختہ جب 1999میں جنرل پرویز مشرف نے اُلٹا تو بینظیر
بھٹو شہید اور نواز شریف دونوں جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جلاوطنی
کے اس دور میں یہ دونوں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے قریب آئے اور ”چارٹر آف
ڈیموکریسی “نامی ایک تاریخی دستاویز بھی منظرعام پر آگئی ۔
قارئین یہاں سے ہم آج کے کالم کا دوسرا حصہ شروع کرتے ہیں ذوالفقارعلی بھٹو
شہید اور بینظیر بھٹو شہید میں ایک قدر مشترک ہے ان دونوںنے اپنے سیاسی
کیرئیر کا آغاز تارکین وطن مقیم برطانیہ جو اہلیان میرپور پر مشتمل کمیونٹی
ہے کے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے برطانیہ کے
پہلے جلسے کو بھی پوری دنیا میں شہرت ملی اور بینظیر بھٹو شہید کے پہلے
جلسے کو بھی پوری دنیا میں میڈیا نے نمایاںمقام دیا اور ان کا سیاسی
سفرایسے شروع ہوا کہ بقول فیض
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
قارئین اب ہم موضوع کی طرف آتے ہیں بینظیر بھٹو شہید نے جنرل پرویز مشرف کے
ساتھ مذاکرات کے بعد جب پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان پیپلزپارٹی
برطانیہ اور آزادکشمیر کے اشتراک سے انگلینڈ میں بریڈ فورڈ کے مقام پر ایک
تاریخی جلسے کا انعقاد کیا گیا اس کی ذمہ داری آزادکشمیر کے موجودہ وزیر
اعظم چوہدری عبدالمجید کے ذمہ تھی انہوں نے دن رات محنت کرکے بہت بڑے
پیمانے پر تیاریاں کیں اور تاریخی جلسہ ہوا اس جلسے میں اہلیان میرپور
تارکین وطن مقیم برطانیہ نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی ان دنوں میرپور میں
واقع منگلاڈیم کی اپ ریزنگ کا سلسلہ جاری تھااور تارکین وطن میں اس حوالے
سے شدید بے چینی تھی بینظیر بھٹو شہید انتہائی زہین اور قابل لیڈر تھیں
انہوںنے ایک نباض کی طرح ان کی پریشانی سمجھی اور جلسہ میں اعلان کیا کہ
اہلیان میرپور نے پاکستان کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کی اور ڈیم بنایا ان کی ان
قربانیوں کے اعتراف میں پاکستان پیپلزپارٹی الیکشن جیت کر دو کام کرے گی ۔
1۔میرپور میں ایک عظیم الشان میڈیکل کالج بنایا جائے گا جہاں پورے
آزادکشمیر اور اووسیز کشمیریوں کے بچے ڈاکٹرز بنیں گے
2۔میرپور میں آزادکشمیر کا پہلا انٹرنیشنل ائرپورٹ بنایا جائے گا تاکہ
کشمیریوں کو سفر کی سہولیات ان کی اپنی سرزمین پر میسر ہوں
بینظیر بھٹو شہید پاکستان آئیں وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ان کے
ہمراہ تھے اور لیاقت باغ کے جلسے کے بعد انہیں شہید کردیا گیا انکا وعدہ
وصیت بن چکاتھا پاکستان میں الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا
اور اب تقریباً چار سال کاعرصہ گزر چکاہے اور وعدہ جو وصیت بن چکاتھا اب
ایک ازیت بن کر کشمیری قوم کے دلوں میں اترچکاہے آزادکشمیر میں بھی
پیپلزپارٹی چوہدری عبدالمجید کی قیادت حکومت سنبھال چکی ہے لیکن بینظیر
بھٹو شہید کے وعدے جو وصیت بن چکے ہیں انہیں شرمندہ تعبیر ہونے میں ناجانے
کتنا وقت لگے گا بقول غالب
تاہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گوزکر ہمار انہیں کرتے
غالب ترااحوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلالیں ،یہ اجارانہیں کرتے
ہمیں امید ہے کہ چوہدری عبدالمجید جو 40سالہ سیاسی سفر کے بعد وزارت عظمیٰ
کے منصب پر پہنچے ہیں وہ اپنی عظیم قائد کی وصیت کو عملی شکل ضروردیں گے
انہوںنے اپنے آپ کو ”نوڈیرو کے شہداءکا مجاور “تک کہہ دیا ہے چوہدری
عبدالمجید صاحب سچے مجاور وعدوں پر عمل کرتے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جج نے ملز م سے کہا ”اس سے پہلے کہ تمہیں سزا سنائی جائے تم عدالت کو کچھ
پیش کرنا چاہتے ہو ۔۔۔؟“
ملزم بے چارگی سے بولا
”نہیں حضور سزا ہی سنادیں عدالت کو پیش کرنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں جو
کچھ تھا وہ سب وکیل کی نظر کرچکاہوں “
قارئین تارکین وطن اہلیان میرپور کے پاس بھی جو کچھ تھا وہ انہوںنے پاکستان
پیپلزپارٹی کی نظر کردیا اب مزید ان کے پاس کچھ نہیں ہے تارکین وطن کے خلوص
کی قدر کی جائے اورمیرپور میں انٹرنیشنل ائرپورٹ اور میڈیکل کالج بنائے
جائیں ۔۔ |