حالیہ عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دنیا ایک صدی کی بڑی گہری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور مختلف عالمی و علاقائی تنازعات کےمنفی اثرات کے باعث امن و استحکام دنیا کے ہر ملک کی اولین خواہش ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی قیام امن کے لیے چین کی سفارتی کوششوں پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے سعودی عرب اور ایران کے معاہدے میں چین کی کامیاب ثالثی یا یوکرین بحران کو کم کرنے اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کو فروغ دینے کی مسلسل کوششوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔صدر شی جن پھنگ کی قیادت میں چین علاقائی اور عالمی امن و ترقی کا مضبوط حامی رہا ہے اور اُس نے اپنی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہوئے بین الاقوامی شفافیت اور انصاف میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اس ضمن میں چینی صدر کی جانب سے عالمی ترقی، سلامتی اور تہذیبی تبادلوں کے حوالے سے تجویز کردہ انیشی ایٹوز دنیا میں امن، ترقی اور حکمرانی کے بڑھتے ہوئے خسارے کو دور کرنے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کو آگے بڑھانے کے لئے ملک کی رہنما ہدایات بن چکے ہیں۔ چین کا یہ خاصہ بھی ہے کہ وہ عالمی امن اور ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے میں ہمیشہ بات چیت کی راہ پر گامزن رہا ہے۔چین کی سفارتی کوششوں کی ایک خاص بات مارچ میں سامنے آئی جب سعودی عرب اور ایران نے بیجنگ میں پانچ روزہ مذاکرات کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔چین کے اعلیٰ سفارتی حکام نے اس فیصلے کو "امن کی فتح" قرار دیا اور بین الاقوامی میڈیا نے مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے چین کے کردار کو اجاگر کیا۔بیجنگ میں ریاض اور تہران کے درمیان یہ بات چیت شی جن پھنگ کی دونوں ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ الگ الگ ملاقاتوں کے چند ماہ بعد سامنے آئی۔ دسمبر 2022میں شی جن پھنگ نے سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی دعوت پر سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ فروری 2023 میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے شی جن پھنگ کی دعوت پر چین کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تھا۔اسی تناظر میں بیجنگ مذاکرات کو چین، سعودی عرب اور ایران کے رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے کی بنیاد پر آگے بڑھایا گیا کیونکہ صدر شی جن پھنگ نے شروع سے ہی مذاکرات کے لیے واضح حمایت کی تھی۔ اسی طرح جب روس اور یوکرین کا تنازع طول پکڑتا گیا تو چین نے فروری میں ایک پیپر جاری کیا جس میں یوکرین بحران کے سیاسی حل کے بارے میں واضح موقف اپنایا گیا۔ اس کے بعد اپریل میں شی جن پھنگ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہ مذاکرات ہی یوکرین بحران سے نکلنے کا واحد قابل عمل راستہ ہے، شی جن پھنگ نے امن مذاکرات میں سہولت کاری کے لئے چین کے عزم اور عملی اقدامات پر زور دیا۔ کیف، ماسکو، واشنگٹن اور برسلز سمیت فریقین نے دونوں صدور کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کو مثبت قرار دیا اور امن ساز کے طور پر چین کے کردار کو اجاگر کیا۔ابھی حال ہی میں ،جب اکتوبر میں فلسطین اسرائیل تنازع کا نیا دور شروع ہوا تو چین نے امن مذاکرات اور جنگ بندی کو فروغ دینے، غزہ میں انسانی حالت زار کو آسان بنانے اور مسئلہ فلسطین کے جلد، جامع، منصفانہ اور پائیدار حل کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔21 نومبر کو مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر غزہ کی صورتحال پر برکس رہنماؤں کے غیر معمولی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پھنگ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے اور مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ میں استحکام کو خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ویسے بھی چین نہ صرف معاشی اور سیاسی بلکہ سفارتی طور پر بھی مشرق وسطیٰ کے خطے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔وسیع تناظر میں، چین نے عالمی امن و استحکام کے تحفظ کے لیے گلوبل سلامتی گورننس کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ عالمی برادری کو جنگ، شکوک و شبہات، تقسیم اور محاذ آرائی کے بجائے امن، اعتماد، یکجہتی اور تعاون کو بڑھانے ضرورت ہے، صرف اسی صورت میں دیرپا اور پائیدار قیام امن ممکن ہے۔
|