دنیا کی تخلیق کے بعدایک لمبے عرصے تک انسانوں کے طاقت ور گروہ
معاشرے میں موجودکمزور اور بے بس انسانوں پر حکومت کرتے رہے تھے۔اختیار اور اقتدار
کو صرف ایک طبقے کا حق سمجھا جاتا تھا جبکہ باقی مخلوق خدا کو اُن کا خدمت گار اور
وفادار بنا دیا گیا۔وقت گزرتا رہا اور کمزور لوگوں کا طبقہ پستا رہا۔ہر عہد میں
منصب حکومت پر ایک مخصوص طبقے کا قبضہ رہا اور اُن کے ذاتی مفادات کو ریاست کے
مفادات کا نام دے کر مال و زر کے انبار لگائے جاتے رہے۔اگرچہ ہر دُور میں مختلف
مذاہب، انسانیت کا سبق سکھاتے رہے مگر مادیت کی کشش نے کسی بھی موقع پر اس دنیا میں
اخلاقیات کے سبق کو مکمل طور پر رائج نہ ہونے دیا۔”جس کی لاٹھی،اُس کی بھینس“کا
کالا قانون انسانی معاشرے میں صدیوں تک نافذ رہا۔جب انسانی شعور بڑھا،انسان نے
آگاہی کے مدارج طے کیے اور معاشرے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے۔تب انسانوں نے اپنے
فیصلے خود کرنے شروع کر دئیے۔
عہدے،مرتبے اور اختیار سے نکل کر،اب انسان کی قدراُس کے اوصاف پر کی جانے لگی۔
جمہوریت کے ثمرات کے نتیجے میں اجتماعی فیصلوں میں عام آدمی کو بھی شریک کیا
گیا۔جمہوریت کے فروغ نے عام و خاص کا فرق مٹا دیا اور معاشرے میں بسنے والے سب
افراد کو ووٹ کے ذریعے آزادی اظہار رائے کا حق دے دیا گیا۔جمہوریت میں اکثریت کے
فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔ سال 2024ء جمہوریت کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ اس سال
دنیا کے تقریباً چالیس (40) سے زائد ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں اور ان انتخابات
میں دنیا کی 49%آبادی حصہ لے رہی ہے۔اب ہم بات کرتے ہیں کہ کن کن ممالک میں اس سال
انتخابات ہو رہے ہیں ان ممالک میں بنگلہ
دیش،تائیوان،پاکستان،بھارت،انڈونیشیا،میکسیکو، روس،یوکرائن،یورپین یونین، امریکہ
اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
اب ہم اس سال کے اہم انتخابات پر بات کریں گے اس سال کا پہلا اہم انتخابی دنگل چند
دن پہلے بنگلہ دیش میں لڑا گیاجس میں مجموعی طور پر پانچویں جبکہ مسلسل چوتھی بار
حسینہ واجد نے وزیر اعظم کا منصب حاصل کیا۔اُن کی جماعت نے تین سو کے ایوان میں 225
کے قریب نشستیں جیتیں جبکہ جیتے ہوئے آزاد امیدواران کی بھاری تعداد نے بھی اُن کی
جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کی
وجہ سے حسینہ واجد کو واضح برتری حاصل ہوئی۔ چند ماہ سے اپوزیشن اور حکومت میں
اختلافات کی وجہ سے سارا ملک ہنگاموں کا مرکز بنا ہوا تھا جبکہ اس وقت اپوزیشن کے
رہنماؤں کی اکثریت جیل میں بند ہے۔اسی وجہ سے ان انتخابات میں بنگلہ دیش کی موجودہ
تاریخ میں ووٹرز کا سب سے کم ٹرن آؤٹ تقریباً% 40 رہا۔
تائیوان میں اس سال 13جنوری کو انتخابات ہو رہے ہیں۔2016ء سے چین اور تائیوان کے
تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ماضی میں موجودہ تائیوان حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں پر
چین کو شدیداعتراض رہا ہے۔دنیا کے طاقت ور حلقوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ کیا نئی
حکومت امریکہ نواز ہوگی یا چین دوست؟۔یہ تو انتخابی نتائج ہی بتائیں گے۔ 8فروری کو
پاکستان میں قومی اور صوبائی انتخابات کا میدان سجے گا اگرچہ پاکستان اقتصادی
بدحالی اور سیاسی انتشار کی وجہ سے مشکلات میں ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک
جمہوریت کے سفر پر گامزن ہے۔یہ حقیقت ہے ملک میں سیاسی افراتفری کی بڑی وجہ سیاسی
جماعتوں کی نابالغ اور غیر سنجیدہ قیادتیں ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے
عوام کو جھوٹے اور سہانے خواب دکھاکر اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ انتخابات میں حکومتی
اداروں کا کردار اہم فیصلے کرے گاجبکہ ملکی مفاد میں کیے گئے ہر فیصلے کو عوام خوش
آمدید کہیں گے۔
اس سال یکم مارچ کو ایران میں مقننہ کے انتخابات ہو رہے ہیں۔اس وقت ایران میں
اپوزیشن کے 25% رہنماء قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور کافی تعداد میں
ڈس کوالیفائیڈ بھی ہو چکے ہیں۔اس سال کے پہلے اہم صدارتی انتخابات 15سے 17مارچ کو
روس اور یوکرائین میں ہو رہے ہیں۔روس کے یہ انتخابات، یوکرائین کے اُن مقبوضہ حصوں
میں بھی ہو رہے ہیں جہاں اب روس قابض ہے۔ان انتخابات میں موجودہ روسی صدر پیوٹن کی
جیت کے واضح امکانات ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کی لوک سبھا کا
دورانیہ اس سال جون میں ختم ہورہا ہے جہاں اس سال کے وسط میں کسی بھی ماہ،بھارتی
لوک سبھا کے انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف اُونچا ہے لہٰذا تجزیہ نگاروں کے مطابق اس بار بھی
انہی کی جیت پکی ہے۔ دنیا کے 27ممالک پر مشتمل یورپین یونین پارلیمنٹ کے انتخابات
جون کے مہینے میں ہوں گے۔ ان انتخابات میں 27 ممالک کے 400ملین افراد اپنے ووٹوں سے
یورپین یونین پارلیمنٹ کے 720ارکان کا انتخاب کریں گے۔دنیا کے تمام ممالک کے لیے یہ
انتخابات نہایت اہم ہیں کیونکہ ان کے نتائج کے بعد یورپین یونین میں شامل ممالک کی
چند اہم اُمور پر پالیسیاں،دنیا کے سامنے آ جائیں گی۔ان اُمور میں یوکرائن روس کی
جنگ،امیگریشن قوانین، موسمیاتی تبدیلیاں اور چین کے ساتھ تعلقات اہم ہیں۔ دنیا کی
واحد سُپر پاور امریکہ کے صدارتی انتخابات اس سال نومبر میں ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جو بائیڈن دوبارہ منتخب ہو جائیں گے؟کیا ایک بار پھر ٹرمپ ایوان
اقتدار میں براجمان ہونگے؟۔ اس وقت جوبائیڈن انتظامیہ کو ملک میں کافی مخالفت کا
سامنا ہے اور عوام کی جانب سے حکومتی کارکردگی پر سوالات بھی اُٹھ رہے ہیں ایسے میں
اُن کے لیے ان انتخابات میں کامیابی جوئے شیر لانے کے برابر ہو گی۔ امریکی انتخابات
کے نتائج کا اثر براہ راست دنیا کی سیاست،تجارت اور معیشت پر پڑے گا۔ 2024ء کو دنیا
میں انتخابات کا سال کہا جارہا ہے یہ سال مختلف ممالک کی سمت کا تعین بھی کرے گا
جبکہ نئے دوست اور نئے دشمن کا چناؤ بھی ہو گا۔ ہمارے لیے ملکی انتخابات بہت اہم
ہیں کیونکہ پاکستان کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابی نتائج ہی ایک مضبوط اور
مستحکم پاکستان کو جنم دیں گے ان شاللہء۔
|